ملک میں صحت کی سہولتوں کا فقدان، مسئلہ گمبھیر ہونے لگا

281

کراچی (اسٹاف رپورٹر) صحت کی سہولتوں کا فقدان پاکستان میں گمبھیر صورت حال اختیار کرنے لگا ہے، حکومتی سطح پر قائم اسپتالوں، ہیلتھ کیئر سینٹرز میں موجود سہولتیں اس معیار کے مطابق نہیں جس پرانہیں ہونا چاہیے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لحاظ سے اموات کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے پاکستان گزشتہ سال 147 ویں نمبر سے اب 149 ویں نمبر پر آ گیا ہے، پاکستان ویسے ہی صحت کی سہولتوں میں فقدانی کیفیت کا شکار ہے، پانی جیسی بنیادی ضرورت عالمی سطح پر جس معیار کی ہوتی ہے اس طرح کا پانی پاکستان کی اکثریتی آبادی کو دستیاب ہی نہیں ہے اور دوسری جانب سرکاری اسپتالوں میں کم تجربہ کار ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، ناقص سہولتوں سے آراستہ بلڈ بینکس اور لیبارٹریز، وینٹی لیٹرز کی کمی اور دیگر سہولتوں میں کمی اس کی بڑی وجوہ ہیں۔ بیشتر سرکاری اسپتالوں کا انفرا اسٹرکچر تباہ حالی سے دوچار ہونے سے ملک کی کثیر آبادی جو سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے، ناقص سہولتوں کی وجہ سے علاج معالجے میں غفلت کا شکار ہو کر موت کو گلے لگانے پر مجبور ہے، ایمبولینس سروسز جو دنیا بھر میں فوری طبی امداد فراہم کرنے کے لحاظ سے سہولتوں سے بھرپور ہوتی ہیں، پاکستان میں ان سہولتوں سے دور ہیں۔ ان کا کام صرف تیز رفتاری کا مظاہرہ کر کے مریض کو ہسپتال کی جانب منتقل کرنا رہ گیا ہے۔ اس طرح کی سہولتوں کے زیر اثر رہ کر مریضوں کو زندگی کی جانب لانے کے بجائے موت کی آغوش میں پہنچانا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ ملک کے 70 فی صد عوام سرکاری طبی مراکز کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں، اس لحاظ سے انہیں ان طبی مراکز پر سہولتیں بھی میسر ہونی چاہییں مگر وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر قائم طبی مراکز میں اکثریت جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سہولتیں فراہم کرنے سے عاری ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جی ڈی پی کا 1اعشاریہ 5 فی صد صحت پر مختص ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ حکومت اسے کم ازکم 5پانچ فی صد پر لے جائے تو مناسب چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک میں صحت کی سہولتوں میں نمایاں بہتری لا کر مرحلہ وار اموات کی شرح کو کم کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی آلودہ اور مضر صحت پانی کی فراہمی کو صحت بخش پانی کی فراہمی میں تبدیل کرنے کے لیے اقدامات بروئے کار لائے جائیں تو بیماریوں اور پھر ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح کو قابل ذکر حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔