امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ ملک کو مودی سے زیادہ اس کے یاروں اور وفاداروں سے خطرہ ہے ۔ حکمران بلٹ پروف گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں جبکہ عوام کو جان ، مال اور عزت کا تحفظ حاصل نہیں ۔ ہم آئندہ نسلوں کو محفوظ اور مستحکم پاکستان دیناچاہتے ہیں ۔ عوام جاگ رہے ہیں جبکہ حکمران سو رہے ہیں ۔ حسینہ واجد بھارت کے ایماپر جماعت اسلامی کے قائدین اور پاکستان سے وفا کرنے والوں کو پھانسیوں پر لٹکارہی ہے جبکہ حکمران اس کےخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کو تیار نہیں اور اس کو بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دے رہے ہیں ۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے اسلام آباد میں وزیراعظم سیکرٹریٹ کے باہر دیے گئے احتجاجی دھرنا کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ دھرنے سے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ ، قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی پاکستان کے پارلیمانی سیکرٹری صاحبزادہ طارق اللہ ، میاں محمد اسلم ، امیر جماعت خیبر پختونخوا مشتاق احمد خان ، زبیر فاروق اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔دھرنے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔
سینیٹرسراج الحق نے کہاکہ مطیع الرحمن نظامی اور جماعت اسلامی کے قائدین نے متحدہ پاکستان کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر کے کوئی جرم نہیں کیا تھا ، انہوں نے ایک نظریے اور عقیدے کا ساتھ دیاتھا ۔ وہ پاکستان کو مدینہ کے بعد لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والی واحد ریاست سمجھتے تھے اور اس کی حفاظت کے لیے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو بچانے کی جدوجہد کرنے والے محب وطن کارکنوں کے خلاف 1971 ءسے ہی ظلم و جبر کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ مکتی باہنی اور انڈین ایجنٹوں نے معصوم بچوں کو تندوروں میں زندہ جلایا، مگر ان بچوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا ۔
امیرجماعت اسلامی نے کہاکہ آج پاکستان کے نوجوانوں کے نعروں سے بنگلہ دیش میں بیٹھے انڈین ایجنٹ کانپ رہے ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں پر عوام کی چیخ و پکار کوئی اثر نہیں ہورہا ۔ انہو ں نے کہاکہ لیڈر وہ نہیں ہوتا ، جو محض ایک حلقے سے انتخاب جیت لے بلکہ اصل قائد وہ ہوتاہے جو قومی امنگوں کے مطابق فیصلے کرتاہو۔ انہوں نے کہاہم ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں اور اپنے آنے والی نسلوں کو ایک باعزت اور محفوظ پاکستان دیناچاہتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ میں نے بنگلہ دیش میں ظلم رکوانے کے لیے وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور سرتاج عزیز سے بھی بات کی مگر حکومتی ایوانوں میں قبرستان کی سی خاموشی رہی اور مجھے کہا گیا کہ ہم ٹکٹ دیتے ہیں آپ جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے عالمی عدالت میں چلے جائیں ۔
سراج الحق نے کہاکہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔ کراچی ، کوئٹہ ، پشاور ہر حصہ میں دہشتگردی ہے اور حکمران اس دہشتگردی پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔ نہ وہ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہیں اور نہ اندرونی جارحیت پر قابو پار ہے ہیں ۔ عوام کو امن ملتاہے نہ روزگار اور انصاف ۔ عوام اس حکومت سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں ۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ بنگلا دیش بھارت کی مدد سے بنا جس کا اعتراف مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر کیا ،اس لئے اگر بنگلا دیش یا پاکستان کی وزارت خارجہ کہے کہ یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ ہے تو اسے کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ دھوکہ اور فریب ہے ۔جب پاکستان انڈیااور بنگلادیش میں پانے والے معاہدے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے اس بات کی توثیق کی کہ آئندہ پاکستان بنگلا دیش اور انڈیا میں جنگی بنیادوں پرکسی کے خلاف مقدمات نہیں چلیں گے تو پاکستان نے بنگلا دیش کو تسلیم کرلیا۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ آج جن بزرگوں کو بنگلادیش کی آزادی کی راہ روکنے کے جرم میں پھانسیاں دی جارہی ہیں وہ مجرم نہیں ،انہوں نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے اور بھارتی جارحیت اور توسیع پسندی کے عزائم کے مقابلہ میں اپنا قومی فریضہ انجام دیا تھااصل مجرم بھارت کی مکتی باہنی کے رضاکاراور بھارت کے آلہ کاراور لاکھوں بنگالیوں کے قاتل ہیں ،یہ انصاف اور عدل کا سرعام قتل اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ہم نے یہی مطالبہ عالمی برادری سے کیا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت ظالمانہ ،انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت سے عاری اقدامات کررہی ہے ۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی سیکرٹری صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہم نے قومی اسمبلی میں مذمت کی کئی قرار دادیں پاس کیں مگران قراردادوںسے بنگلا دیش میں پھانسیوں سے کوئی کمی نہیں آئی اور ہمارے کئی قائدین کو پاکستان کی محبت میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا مگر ہمارے حکمران خاموش بیٹھے رہے ۔ہم نے اسلامی و یورپی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کرکے اس عدالتی قتل عام پر احتجاج کیا اور ان سزاﺅں کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل کی تو انہوں نے کہا کہ جب تک آپ کے وزیر اعظم اس سلسلہ میں کوئی احتجاج نہیں کرتے اور عالمی برادری سے اس ظلم کو رکوانے کی بات نہیں کرتے ہمارا احتجاج بے معنی ہوگا۔