زمین تو عوام پر تنگ ہے

156

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ سندھ کی زمین دہشت گردوں پر تنگ کر دیں گے۔ انہوں نے امن و امان کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے پولیس میں 20ہزار نئی بھرتیاں کرنے اور اہلکاروں کو جدید تربیت دینے کا اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ نے سیلز ٹیکس اور کراچی میں ترقیاتی پیکیج کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن ان کے اعلان کا اہم ترین حصہ سندھ کی زمین دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد پر تنگ کرنے سے متعلق ہے۔ ایسا لگ بھی رہا ہے کہ سندھ میں زور دار آپریشن ہو رہا ہے۔ ایسا آپریشن جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس آپریشن میں بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ کئی انکشافات بھی ہوئے ہیں۔ مقدمات بھی قائم ہوئے ہیں اور جے آئی ٹی بھی بنائی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ اس شہر کراچی میں کرکٹ کھیل کر تعلیم حاصل کر کے گئے ہیں۔ اب ان کو کراچی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ اب وہ کراچی کے مرکز میں ہیں لیکن کراچی سے کٹ چکے ہیں ۔ ان کو جو رپورٹ دی جاتی ہے وہی سچ ہوتی ہے۔ ان کے اچانک دورے بھی ان کی بیورو کریسی کی جانب سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ جب ہی تو وہاں کئی ٹی وی چینلز کی گاڑیاں موجو د ہوتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طویل آپریشن کے باوجود اہل سندھ کے لیے زمین تنگ ہے۔ صوبے کے غریب لوگ پانی سے محروم ہیں، سڑکوں سے محروم ہیں ، بجلی سے محروم ہیں ۔ وزیر اعلیٰ صاحب! فی الحال صوبے کی زمین تو عوام کے لیے تنگ ہے۔ اور تو اور اب تک کراچی میں دو ایس ایچ او اغوا برائے تاوان میں ملوث ثابت ہوچکے ہیں۔ بات ثابت ہونے کی ہے ورنہ ایسے ایس ایچ اوز اور افسران کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مجرموں کے لیے زمین تنگ ہونے کا مطلب یہی ہے ناں کہ وہ اس صوبے میں سکون سے نہ رہ سکیں کہیں اور جانے کی کوشش کریں یا گھروں میں دبک کر رہیں ۔ تو جناب ہو تو ایسا ہی رہا ہے لیکن سندھ کے عوام کے ساتھ۔ اگر کراچی سے آگے نکلیں حیدر آباد کی طرف چلے جائیں تو بلدیہ ملازمین کی ہڑتال کے سبب پورے شہر کی گلیاں اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ اب تک کراچی ، حیدر آباد اور کئی شہروں میں بارش کا پانی کھڑا ہے۔ بلدیات کے منتخب نمائندوں کو انتخابات کے 8ماہ بعد ان کے منصب پر بٹھایا گیاہے۔ لیکن اب وہاں کچھ بچا نہیں ہے۔ ایک دو نہیں بہت سے مسائل ہیں۔ سیاسی ریلیاں تو الگ رہیں جب عوامی وزیروں میں سے کوئی یا خود وزیر اعلیٰ سڑک پر نکلتے ہیں تو صوبے کے کسی بھی شہر میں ہوں عوام کے لیے زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ لوگ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے کہ موبائل چھن جائے گا۔ رات کو کسی جگہ نہیں جاسکتے کہ واپسی میں گاڑی ہی چھن جائے۔ اور یہ کام جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر ہی کررہے ہیں لیکن اکثر وہ محکمہ پولیس سے ہی تعلق رکھنے والے نکلتے ہیں ۔
ہمارے خیال میں اگر وزیراعلیٰ صوبے کے عوام کو سکھ کا سانس دینا چاہتے ہیں تو اپنی بیورو کریسی پر اندھا اعتماد کرنا چھوڑ دیں ۔ کسی رات اچانک ،سچ مچ کے اچانک ایک دوگاڑیاں لے کر شہر کا دورہ کریں ۔ شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ، راشد منہاس روڈ، شاہرا پاکستان، لیاقت آباد، گلشن اقبال، ان اکا دکا روشن علاقوں کو چھوڑ دیں ،ہر جگہ گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ اپنی مرضی سے سڑکوں پر گھومیں تو اگلے دن گاڑی کی سروس بھی کرانی پڑے گی ۔ سڑکوں پر گڑھوں کی تعداد گن نہیں سکتے۔ ایک دفعہ ایسا بھی کرڈالیں ۔ عوام کو تنگی سے نکالیں۔