سالار سلیمان
پاکستان کی 55 فی صد آبادی متوسط طبقے میں شمار ہوتی ہے اور یہاں پراپرٹی کی قیمتیں گزشتہ پانچ سال میں بہت تیزی سے بڑھی ہیں۔ یہاں پرآج بھی گروی یا رہن کے عمل کو ٹھیک نہیں سمجھا جاتا ہے‘ مزید براں یہ ایک پیچیدہ اور مشکل عمل بھی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال قرض گیروں کی شرح میں 3.9فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 70638 سے 67625 پر آ گئی تھیں۔ تاہم‘ اس سال کی گزشتہ سہ ماہی میں اِن میں 3.5فی صد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو گروی کے رحجان کے حوالے ایک امید کی کرن ہے۔
فی الوقت 24کمرشل بینک ‘ ایک مائیکرو فنانس بینک اور ہاوس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ (ایک ادارہ جو صرف گھروں کے لیے قرض جاری کرتا ہے) ہی لوگوں کو ہوم فنانس کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ایچ بی ایف سی ایل ہاوسنگ فنانس کے معاملے میں اولین کمپنی ہے‘ جس کا مارکیٹ کے کل میں سے 24فی صد کا حصہ ہے۔ جنوری2016ء سے مارچ 2016ء کی سہ ماہی کے دوران 46.77فی صد نئے افرادکا ایچ بی ایف سی ایل کے رہن رکھنے کے پروگرام میں اندراج ہو چکا ہے۔ یہ کمپنی اوسطاً 1.7ملین روپے کا قرض فراہم کرتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دیگر نجی بینک 6.3ملین روپے جب کہ 9.7ملین روپے کا قرض اسلامک بینکوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں ایک تجربہ کار بینکر نے اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ کی موجودہ صورت حال اور معاشی بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کل بینک کافی محتاط ہیں۔ یہ بینک چھوٹے کاروباری افرادکے مقابلے میں معقول تنخواہ دار فرد کو ترجیحاً قرض فراہم کرتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ سال میں ہاوسنگ سیکٹر میں 60فی صد قرض تنخواہ دار طبقے کو دیے گئے تھے‘ جو اس بات کا اظہار ہیں کہ بینک معقول تنخواہ دار طبقے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ اس رحجان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معقول تنخواہ دار طبقے کا دیوالیہ ہونے کا امکان چھوٹے کاروباری افراد کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔
گزشتہ سہ ماہی میں 1055افراد کو ہوم فنانس کی مد میں 5.35ارب روپے کی رقم فراہم کی گئی، جن میں سے 60فی صد افراد کا تعلق اس طبقے سے تھا جن کی تنخواہیں کافی معقول ہیں اور وہ متمول زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس امر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مالیاتی اداروں کی توجہ کا بنیادی مرکز وہ تنخواہ دار افراد ہیں‘ جو فی زمانہ اچھی تنخواہ لے رہے ہیں اور اُن کے حوالے سے اس بات کی زیادہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ اُن کو دی ہوئی رقم واپس مل جائے گی۔ اس کے علاوہ‘ نان پرفامنگ لون یعنی این پی ایل میں گزشتہ سال میں 10فی صد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے‘ جب کہ گزشتہ سہ ماہی میں5فی صد کی کمی ہوئی ہے۔گزشتہ سہ ماہی میں ایچ بی ایف سی ایل کے این پی ایل لون میں 16فی صد کی کمی واقع ہوئی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ’’آؤٹ رائٹ پرچیز‘‘کے زمرے کی مجموعی مالیت 63فی صد تھی‘ جس میں 24.9فی صد تعمیرات اور 11.5فی صد ترئین و آرائش کے لیے تھا۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مالیاتی اداروں نے لینڈ اینڈ پراپرٹی کی تعمیر اور تزئین و آرائش کے لیے قرض جاری کرنے میں کم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے جی ڈی پی میں گھروں کو گروی رکھنا کل حجم کا محض0.5فی صد ہے۔ کیا کم آمدنی والے طبقے کے لیے بھی گروی رکھنے کی سہولت ہونی چاہیے؟۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے نا صرف گھروں کی کمی کے مسئلے میں کمی واقع ہوگی بلکہ معیشت کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
بینکوں کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ وہ ہاوس فنانسنگ سے خاطر خواہ منافع کما لیتے ہیں۔ اس معاملے میں بینک ایک ضابطے کے تحت جائداد ضبط کر سکتے ہیں۔ جائداد کو رہن رکھ کے قرض حاصل کرنا بینکوں کے لیے خاصا محفوظ عمل ہے جب کہ ذاتی بنیادوں پر قرض دینا‘ یا کریڈٹ کارڈ پر قرض دینا بالکل بھی محفوظ نہیں ہے۔ رہن رکھ کے قرض لینے کے معاملے میں یہ فائدہ ہے کہ اگر کوئی قرض کی اقساط ادا نہیں کرتا ہے تو مخصوص وقت کے بعد بینک اس کی جائداد سے ہی اپنا نقصا ن پورا کر لیتا ہے۔
ایک عام آدمی کے لیے اپنی جائداد کو رہن رکھ کے قرض لینا آسان نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں بہت سی مشکلات پیدا کی ہیں وہیں عام آدمی کے لیے اپنا گھر ایک خواب ہی بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ پورٹل zameen.com کے پراپرٹی پرائس ڈیٹا کے مطابق‘رہائشی پلاٹس کی قیمت جنوری 2011ء فی مربع فٹ 2203 روپے تھی جو جولائی 2016ء میں 5034 روپے فی مربع فٹ تک پہنچ چکی ہے۔ اس اوسطاً تقابل سے واضح ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں قیمتیں تقریباً دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہیں اور یہ کم آمدنی والے طبقے کی پہنچ سے بھی مزید دور ہو چکی ہیں۔ ایسی صورت حال میں جائداد کو رہن رکھ کے قرض حاصل کرنے کی سہولت کو مزید آسان بنانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ اس سے اُن لوگوں کو بھی فائدہ حاصل ہو سکے۔ فی الوقت ایک عام آدمی کے لیے پنی جائداد کو رہن رکھ کے بینک سے قر ض کا حصول اس لیے بھی خاصا مشکل عمل ہے کیوں کہ اس کا طریقہ کار خاصا پیچیدہ ہے اور اس پر لاگو سود کی شرح بھی بہت زیادہ ہے مزیدبراں اس ضمن میں بینکوں کی کریڈٹ پالیسی بھی خاصی سخت ہے اور اس کے لیے مطلوب شرائط کو پورا کرنا بھی عام آدمی کے لیے دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ مسائل حل ہو جائیں تو جہاں عام آدمی کوفائد ہ ہوگا تو وہیں اس معاشی سرگرمی کا براہ راست فائد ہ ملکی معیشت کو بھی حاصل ہوگا۔