جہاں ادب

257

ڈاکٹر نثار احمد نثار

معروف شاعر، سعید الظفر صدیقی نے کہا ہے کہ شاعری سے معاشرتی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے، شاعری سچے جذبات کو جنم دیتی ہے۔ شاعری کے ذریعے محبتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے، امن و امان کی بحالی میں قلم کاروں کا کردار ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے نارتھ کراچی میں اعجاز رحمانی کی رہائش گاہ پر ’’بزم قمر جلالوی‘‘ کے تحت منعقدہ محفلِ مشاعرہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعجاز رحمانی ایک معتبر شاعر ہیں اور ہماری زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں انہوں نے اپنے استاد محترم قمر جلالوی کے نام سے بزم قمر جلالوی قائم ہے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے امید ہے کہ یہ بزم ترقی کرے گی اور اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں معاون ثابت ہوگی۔ اس مشاعرے کے مہمانِ خصوصی حیات رضوی امروہوی نے کہا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہے، ادبی اقدار کو زندہ رکھنا ہم سب کا فرض ہے، ادب کے فروغ میں مشاعروں کا حصہ ہے‘ جو لوگ مشاعرے کراتے ہیں وہ اردو ادب کے خدمت گزار ہیں۔ کراچی میں ادبی تنظیموں کے باعث ادبی سرگرمیاں زندہ ہیں لیکن حکومت کی جانب سے شاعروں اور ادیبوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی حکومتی سطح پر شعراء کرام کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ مشاعرے کی نظامت نظر فاطمی نے کی۔ اعجاز رحمانی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاعری روح کی غذا ہے ہر زمانے میں شعراء کرام نے اپنے اشعار کے ذریعے محبتیں تقسیم کی ہیں یہ عمل آج بھی جاری ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے کردار و عمل کو ٹھیک کریں تاکہ معاشرہ ترقی کرے اور برائیاں ختم ہوں۔ اسلامی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ہم اپنے رسول حضرت محمد مصطفےٰؐ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے دین و دنیا میں اپنا نام روشن کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام سنایا ان میں اعجاز رحمانی، قمر وارثی اختر سعیدی، نسیم ساگری، سید فیاض علی، علی اوسط جعفری، عبدالوحید تاج، رشید خاں رشید، محمد علی گوہر، جمال احمد جمال، شاعر علی شاعر، حامد علی سید، آسی سلطانی، عتیق الرحمان، فخر اللہ شاد، عاشق حسین شوکی، علی کوثر، اکرم راضی، زاہد علی سید، احمد سعید خاں اور چاند علی شامل تھے۔
***
بزمِ تقدیسِ ادب ایک متحرک ادبی ادارہ ہے اس ادارے کے تحت ہر مہینے ایک مشاعرہ ہو رہا ہے اس تناظر میں گزشتہ اتوار کو شادمان ٹاؤن کراچی میں اعجاز رحمانی کی صدارت میں محفلِ مشاعرہ منعقد ہوئی۔ اس موقع پر اعجاز رحمانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کے مشاعرے میں بہت عمدہ شاعری پیش کی گئی اس کا کریڈٹ بزمِ تقدیس ادب کے عہدیداران و اراکین کو جاتا ہے کہ ان کا سلیکشن اچھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعروں کا انعقاد، اردو ادب کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے، مشاعرے ’’Get to gather‘‘ کا ایک ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ، معلومات فراہم کرنے کا ایک اہم باب ہے، ہر شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے ایسے مضامین سامنے لائے جو کہ معاشرتی اقدار کی بحالی میں معاون و مددگار ہوں۔ اس مشاعرے کے مہمانِ خصوصی لیاقت علی عاصم تھے جب کہ قمر وارثی، مہمانِ اعزازی تھے، اکرم راضی نے نعتِ رسول پیش کی، احمد سعید خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرنے کے علاوہ نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزازی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ فیاض علی فیاض، شاعر حسین شاعر، عبدالوحید تاج، عبدالمجید محور، عتیق الرحمان، صفدر علی انشاء، نظر فاطمی، فخر اللہ شاد، نشاط غوری، کشور عدیل جعفری، صدیق راز ایڈووکیٹ، حامد شیخ، ابراہیم نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
***
حریم ادب اور جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کے زیرِ اہتمام آرٹس کونسل کراچی میں حجاب مشاعرہ، منعقد ہوا، اس پروگرام کے دو حصے تھے۔ پہلے دور میں صائمہ اسماء نے یومِ حجاب کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی معاشرہ اسلام میں دیے گئے عورتوں کے حقوق سے خوف زدہ ہے۔ مغربی ممالک میں اسلامی عقائدو رسومات ادا کرنے میں دشواریاں حائل ہیں خواتین پر حجاب استعمال کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں جب کہ حجاب پہن کر بھی خواتین، کاروبار زندگی چلا رہی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ حجاب دراصل ایک تعارف ہے، اسلامی معاشرے کا، یہ صرف ایک پہناوا نہیں ہے بلکہ یہ ایک شناخت ہے مسلم خواتین کی۔ حجاب ایک ذمے داری ہے اور ہر مسلمان لڑکی ہر مسلمان عورت کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ فرحانہ اورنگ نے عالمی یومِ حجاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں پردے یعنی حجاب پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ حجاب کی حمایت اور مخالفت میں اپنے اپنے موقف پیش کیے جارہے ہیں۔ آج مسلم دنیا میں حجاب ڈے منانے کا رواج فروغ پا رہا ہے جس کا مقصد، پردے کی افادیت و اہمیت کو تمام دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلم خواتین، حجاب میں رہ کر بھی زندگی کے معاملات بہ حسن و خوبی انجام دے سکتی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ شرعی پردہ خواتین کو جسمانی اور روحانی تحفظ پیدا کرنے کے علاوہ خواتین کے وقار میں اضافہ کرتا ہے اور حجاب میں رہ کر وہ لوگوں کی بری نظروں سے بھی محفوظ رہتی ہیں اس تقریب کے دوسرے دور میں قمر جہاں قمر، طاہرہ سلیم، عشرت لطافت، ذکیہ فرحت، ہاجرہ منصور، ارم خاور، غزل انصاری اور شاہد خورشید کنول نے اپنا پنا کلام نذر سامعین کیا۔
***
بزم یاران سخن کے زیر اہتمام، ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی زیر صدارت، محمد محسن کی رہائش گاہ پر، شعری نشست منعقد ہوئی، پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی، مہمانِ خصوصی تھے، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے نظامت کے فرائض انجام دیے جب کہ سلمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ اس مشاعرے میں صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ڈاکٹر مختار حیات، اختر سعیدی، اجمل سراج، سلمان صدیقی، پروفیسر صفدر علی انشاء، عبدالمجید محور، حامد علی سید، صدیق راز ایڈووکیٹ اور زاہد عباس نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ اس موقع پر سلمان صدیقی نے کہا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ شاعروں اور ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ’’معاشرتی اصلاح‘‘ میں اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کریں کیونکہ یہ طبقہ معاشرے کے معماروں میں شامل ہے جس معاشرے میں اس طبقے کے حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں وہ معاشرہ برباد ہو جاتا ہے۔ صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ بزم یاران بڑی تندہی سے فروغ اردو ادب کے لیے کام کررہی ہے آج کی نشست بہت کامیاب ہے آج بہت عمدہ اشعار پیش کیے گئے یہ چھوٹی چھوٹی نشستیں بہت کامیاب ہوتی ہیں کیونکہ اس قسم کے مشاعروں میں عموماً نیا کلام پیش کیا گیا جب کہ بڑے بڑے مشاعروں میں ہر شاعر، اپنا Selected کلام سناتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ داد و تحسین سمیٹ سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان نسل کو شامل کیے بغیر، اردو زبان و ادب کی ترقی کا سفر رک جائے گا، اس وقت کراچی میں نوجوان شعراء بہت اچھا لکھ رہے ہیں جس سے شاعری آگے بڑھ رہی ہے تاہم پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا اردو ادب سے مخلص نہیں ہے یہ دونوں ادارے اپنے اپنے معاملات پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ادیبوں اور شاعروں کی پروموشن میں اپنا حصہ ادا نہیں کر رہے۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ آج کل مشاعروں کو ’’فیسٹول‘‘ کی شکل دے دی گئی ہے کراچی میں منعقدہ عالمی مشاعرے کے موقع پر لوگ مشاعرہ گاہ میں پوری پوری فیملی لے کر جاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پکنک منانے آئے ہیں کیونکہ وہ اپنے اپنے گھروں سے کھانا لاتے ہیں اور ٹولیوں کی شکل میں جگہ جگہ بیٹھ کر مشاعرے کو ڈسٹرب کرتے ہیں۔ جب تک ہم مشاعروں کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوتے اردو ادب پروان نہیں چڑھ سکتا انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں ادبی فضا، سازگار ہو رہی ہے میں ان تمام ادبی اداروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ اردو کی ترقی کے لیے ہم سب کو متحد ہونا پڑھے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اردو کو عملی طور پر حکومتی زبان بنایا جائے۔ اردو زبان کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ میزبانِ مشاعرہ محمد محسن نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں بزمِ یارانِ سخن کے ساتھ ہوں میری خواہش ہے کہ میں ادیبوں اور شاعروں کی خدمت کروں کیونکہ یہ طبقہ ہمارے لیے بہت قابلِ احترام ہے خاص طور پر شعراء کرام اپنے کلام کے ذریعے ہمیں ذہنی اور فکری آسودگی فراہم کرتے ہیں۔
***
راغب مراد آبادی قادرالکلام شاعر تھے، قلم برداشتہ اشعار کہنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا، انہوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی شاعری کی ان کا ایک مجموعہ پنجابی زبان میں شائع ہو چکا ہے جب کہ اردو زبان میں ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں انہوں نے امن و امان کے حوالے سے مختلف شعراء کا کلام ایک کتابی صورت میں شائع کیا۔ برصغیر ہند و پاک میں رباعیات کہنے والوں میں راغب مراد آبادی ایک اہم نام ہے انہوں نے فی البدہہ نظامت میں بھی نام کمایا۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے وہ سادے کاغذ پر بھی اصلاح دیتے تھے بہت سے شعراء و شاعرات نے ان سے اصلاح لی لیکن ان میں سے بہت سے راغب صاحب کے احسان مند نہیں ہیں۔ انہوں نے راغب اکیڈیمی کی بنیاد ڈالی اس ادارے کے تحت انہوں نے مختلف شاعروں کا کلام شائع کیا اور مشاعرے بھی کرائے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و ادیب اور نقادِ سخن فراست رضوی نے راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) سے ایک ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ راغب مراد آبادی جیسی نابالغۂ روزگار شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ان کی وفات ہمارے لیے بہت بڑا صدمہ ہے وہ ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے ان کا فیضِ عام پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے ملکوں میں جاری و ساری تھا۔ جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں وہاں راغب مرادی کا نام روشن ہے ان کے شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کے باقی ماندہ کام کو آگے بڑھائیں۔ فراست رضوی نے راقم الحروف کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ راغب مراد آبادی بہت نفیس انسان تھے وہ کسی گروہ بندی میں شریک نہیں تھے وہ اپنے سے جونیئر کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور سینئرز کا ادب کرتے تھے وہ جب تک زندہ رہے انہوں نے بغض و تعصبات کی بیخ کنی کی ان کے نزدیک ہر طبقۂ فکر قابلِ صد احترام تھا وہ انسانیت کے علمبردار تھے وہ سچے عاشق رسول تھے ان کے نعتیہ کلام میں محبتِ رسول نمایاں ہے ان کے یہاں وہ تمام مضامین نظر آتے ہیں جو کہ نعتِ رسول کے لیے ضروری ہیں انہوں نے کبھی بھی اپنی نعتوں میں مراتبِ رسول سے تجاوز نہیں کیا وہ ایک عالم فاضل انسان تھے انہیں فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ ایک ماہرِ علم عروض تھے جب کبھی کوئی عروضی مسئلہ درپیش ہوئے تھے ہم ان سے رجوع کرتے تھے وہ دھیمے لہجے کے آدمی تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا۔ جوشخص ان سے ایک بار مل لیتا تھا وہ ان کا معتقد ہو جاتا تھا۔ وہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے تھے دنیا کے بیشتر ممالک میں انہوں نے مشاعرے پڑھے انہوں نے طویل عمر پائی کئی بیماریوں نے انہیں پریشان کیا مگر وہ ثابت قدم رہے اور ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے‘ آمین۔