ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
اُس وقت وہ چٹاگانگ کے ایک کالج میں سالِ اوّل کا طالب علم تھا۔ اس کی عمر 18۔19سال تھی لیکن اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ البدر تنظیم کا سربراہ تھا اور اس نے ایک عمارت میں عقوبت خانہ قائم کیا ہوا تھا جس میں وہ بنگالی نوجوانوں کو پکڑ کر مارتا پیٹتا تھا اور پھر قتل کردیتا تھا۔ جس وقت اس کو پھانسی پر چڑھایا گیا اُس وقت اس کی عمر 64 سال تھی۔ وہ بنگلہ دیش کی ایک کامیاب اور متمول کاروباری شخصیت تھا۔ بے شمار خیراتی اور فلاحی اداروں کا رکن تھا۔ اس کا اپنا ٹی وی چینل تھا۔ وہ یہ سارا عرصہ بنگلہ دیش میں رہا لیکن کسی نے اس کو قاتل یا دہشت گرد قرار نہ دیا، لیکن پھر اچانک حسینہ واجد برسراقتدار آگئی، اور اس نے ملک کی سب سے بڑی اسلامی تحریک جماعت اسلامی کو ہدف بناکر پوری منصوبہ بندی سے اس کی صفِ اوّل کی قیادت کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ میر قاسم علی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چھٹے قائد ہیں جن کو 3 ستمبر 2016ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ان سے پہلے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر اور سابق وزیر و رکن پارلیمنٹ مولانا مطیع الرحمن نظامی، قمرالزمان، علی احسن مجاہد، صلاح الدین چودھری اور ملاعبدالقادر کو بھی پھانسیاں دی گئی، جن میں سے صلاح الدین چوہدری کے سوا تمام جماعت ہی کے قائدین ہیں۔ صلاح الدین چوہدری کا تعلق پہلے مسلم لیگ اور شہادت کے وقت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے تھا، جس کی قائد بیگم ضیاء الرحمن ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن جس کو اپنے خاندان سمیت گھر میں گولیاں مارکر ہلاک کردیا گیا تھا، اس کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی جو موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد کا باپ تھا، لیکن اس سے پہلے 1971ء کی جنگِ آزادی کے نام پر مخالفین اور خاص طور پر جماعت اسلامی کے لیڈروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
میر قاسم علی جو 31 دسمبر 1952ء کو پیدا ہوئے، ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل تھے۔ وہ بنگلہ دیش کا ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ ان کی شہادت اور عدالتی قتل سے ملک میں سماجی خدمت کا ایک اہم باب بند کردیا گیا ہے۔ وہ دیگانتا میڈیا کارپوریشن کے چےئرمین اور مالک تھے جو ایک مقبول ٹی وی چینل چلاتی تھی اور اخبار نکالتی تھی۔ اس سے پہلے وہ بنگلہ دیش کے کامیاب ترین اسلامی بینک کے ڈائریکٹر بھی رہے تھے۔ ان کا ایک اور بزنس گروپ کیاری لمیٹڈ بھی تھا جو زرعی اور صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرتا تھا۔ وہ ابن سینا فارماسوٹیکل کمپنی کے بھی بانی تھے جو ادویات سازی کے میدان میں ملک میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کے بھی بانی رکن تھے جو سعودی عرب کی ایک بااثر بین الاقوامی تنظیم ہے جس کی اکثر اسلامی ممالک میں شاخیں ہیں۔ وہ کئی خیراتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کے بانی رکن اور مددگار تھے، جن میں ابن سینا ٹرسٹ، فواد الخطیب (جو طویل عرصہ بنگلہ دیش میں سعودی عرب کے سفیر رہے اور اس سے پہلے پاکستان میں بھی رہے) چیریٹی ٹرسٹ، علامہ اقبال سنگساد، دارالسلام یونیورسٹی اور اسلامی یونیورسٹی چٹاگانگ بنانے میں بھی ان کا کلیدی کردار تھا۔ غرضیکہ میر قاسم علی ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔ وہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے رکن تھے اور اس کے سابق مالی تعاون کرنے والوں میں ان کا نام سرفہرست تھا۔ ان کے اوپر 1971ء کی جنگِ آزادی کے خلاف کام کرنے پر جو مقدمہ قائم کیا گیا اُس پر شروع دن سے ہی اعتراضات کیے جاتے رہے۔ صرف مقامی سطح پر یہ اعتراضات نہ تھے بلکہ کئی بین الاقوامی اداروں نے بھی ان پر قائم مقدمات کو خودساختہ اور جعلی قرار دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا ان قائم کردہ وار کرائمز بین الاقوامی ٹریبونل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اس کو عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف قرار دیا۔ ان کے کیس میں خاص طور پر حکومت نے دلچسپی لی اور پہلے دن سے یہ واضح تھا کہ ان کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔
دفاع کے وکیلوں کو نہ صفائی کے لیے کوئی موقع دیا گیا، نہ صفائی کے گواہوں کو پیشی کے لیے بلایا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے چمپا پٹیل نے ان کے مقدمے کے حوالے سے خاص طور پر بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کو دی جانے والی پھانسی کی سزا غلط ہے، مقدمہ صحیح طور پر نہیں چلایا گیا، اس لیے اس کو کالعدم قرار دے کر ازسرنو مقدمہ چلایا جائے۔
ان کے وکیلوں کو مسلسل ہراساں کیا گیا اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی دورانِ مقدمہ ذہنی ٹارچر کیا گیا، تاکہ وہ ان کے کیس کی پیروی نہ کرسکیں۔ ان کے بیٹے احمد کو ماہِ اگست کے شروع میں گھر سے اغوا کرلیا گیا کیونکہ وہ اپنے باپ کی رہائی کے لیے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کررہے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس مسئلے پر احتجاج کیا۔
جن گواہوں نے میر قاسم علی پر الزامات کی تصدیق کی اُن کی عمریں ایسی نہیں تھیں کہ وہ 45 سال پہلے کے واقعات یاد رکھ سکتے۔ وہ اس وقت میر قاسم کو جانتے بھی نہ تھے۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ میر قاسم اس بلڈنگ میں آتا تھا جس میں مکتی باہنی کے پکڑے ہوئے نوجوانوں کے لیے تفتیشی مرکز پاکستان آرمی نے قائم کیا تھا۔ ان گواہوں پر جرح کرنے کے لیے وکلائے صفائی کو موقع بھی نہ دیا اور پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے بھی وکلا کے اصرار پر گواہوں کو طلب کرنے یا ازسرنو مقدمے کو چلانے یا صفائی کا موقع دینے کی کوئی زحمت گوارا نہ کی اور پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔
عجیب بات یہ ہے کہ جن مقتولوں کے قتل کا الزام میر قاسم علی پر لگایا گیا اُن کے اہلِ خاندان اور وارثوں نے بھی گزشتہ 44 سال میں کبھی بھی ان پرالزام نہ لگایا کہ وہ ان کے بچوں یا رشتہ داروں کے قاتل ہیں، یا ان کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ اس پورے عرصے میں ایک بار بھی ان کی جانب سے ایسا کوئی الزام سننے میں نہیں آیا۔ تمام دیگر قائدین کی طرح میر قاسم علی نے بھی رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا اور پھانسی کے لیے بخوشی تیار ہوگئے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے اور راستے سے ہٹانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ دراز ہوتا جارہا ہے اور اس کام میں اس کو بھارتی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے یہ اس کا ایک اہم جزو ہے۔ پاکستان مخالفت میں وہ ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔ وہ علاقائی پاور کے طور پر اس مخالفت کو کچلنے کا ارادہ رکھتا ہے جو اس کے راستے کی دیوار بن سکتی ہے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اس کی راہ کا کانٹا ثابت ہوسکتی ہے، جو ملک میں تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے اور کسی طور پر بھارتی دام میں آنے کو تیار نہیں۔ ایک موقع پر بھارتی حکومت نے اپنے سفارت کاروں کے ذریعے جماعت اسلامی کی قیادت کو پیشکش کی تھی کہ وہ ان کی انتخابی اخراجات کی مد میں مدد کرنا چاہتی ہے اور وہ دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کی مدد کرتی رہی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کی قیادت نے امداد کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ وہ بنگلہ دیش پر بھارتی بالادستی کو تسلیم نہیں کرسکتی۔ وہ بنگلہ دیشی قوم کی آزادی اور خودمختاری کا سودا نہیں کرسکتی۔ اسی لیے حسینہ واجد حکومت کے قائم ہوتے ہی وار کرائمز کے نام پر اس کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اسی حکومت کے دوران بھارت نے بنگلہ دیش سے وہ تمام مطالبات منوا لیے جو بھارت کے مفاد میں تھے اور اس کے بدلے بنگلہ دیش کو کچھ نہ ملا۔ اب بھارتی سرمایہ دار کھلے عام بنگلہ دیش کو ایک گزرگاہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت ان کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قائد اور حسینہ واجد کی سیاسی حریف بیگم خالدہ ضیاء بھی بھارت کا سرکاری دورہ کرچکی ہیں اور وہاں بھارتی سرکار کے ساتھ خیرسگالی کے جذبات کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ اس طرح بھارتی حکومت بنگلہ دیش پر اپنے مکمل کنٹرول کے لیے راستہ ہموار کررہی ہے اور میر قاسم علی کی سزائے موت پر عمل درآمد اس پورے عمل اور منصوبے کی ایک کڑی ہے۔ اب بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت کے خلاف بات کرنے والا کوئی نہ رہا۔
ایک ممتاز سعودی سفارت کار اور سماجی کارکن ڈاکٹر علی الغامدی نے میر قاسم علی کی شہادت پر مضمون میں بتایا کہ میں 1986ء میں اپنی ڈھاکا سفارت خانے میں تعیناتی کے ایک ماہ بعد اس سے ملا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ کاکس بازار لے گیا جہاں برما کے مسلمان پناہ گزینوں کا کیمپ تھا۔ ہم وہاں 3دن رہے۔ یہ عیدالفطر کے دن تھے جو ہم نے ان مظلوم اور مفلوک الحال مہاجرین کے ساتھ گزارے، اور میر قاسم نے ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد اس نے ایک اور دورے کا انتظام کیا جس میں وہ اپنے ساتھ ڈھاکا سے دو ماہرینِ امراضِ چشم لے کر گیا تھا، اور وہاں ایک دن میں 100مریضوں کی آنکھوں کا موتیا کا آپریشن کیا گیا۔ وہ برمی مہاجرین کے ساتھ ساتھ سابقہ پاکستانیوں بہاریوں کے کیمپوں میں بھی خدمت کرتا رہتا تھا اور ہم اس کام میں اُس کا ساتھ دیتے تھے۔
ڈاکٹر علی نے اپنے مضمون کے آخر میں میر قاسم علی کے لیے دعا کی۔ آیئے ہم بھی اس دعا میں اُن کے ساتھ شریک ہوں:
میر قاسم علی، اللہ آپ کو اپنی رحمت میں ڈھانپے اور جنت کے وسیع و عریض باغات میں خوش و خرم رکھے، اور آپ کے خاندان، دوستوں اور ان غریبوں اور ضرورت مندوں کو جن کی آپ اعانت کرتے رہے ہیں، آپ کی شہادت سے جو تکلیف پہنچی ہے، اس پر صبرِ جمیل عطا کرے، اور اللہ ان لوگوں، تنگ دستوں، مسکینوں کی امداد کا کوئی اور ذریعہ بنائے جن کی میر قاسم مدد کرتا رہا ہے۔ آمین ثم آمین
دریں اثنا جماعت اسلامی پاکستان کے قائد محترم سراج الحق نے اسلام آباد میں ایک بڑے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی رہنماؤں کی پھانسی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی 1974ء میں طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔