یومِ عرفہ۔۔۔۔ دعاؤں کا دن

96

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

اللہ کے مہمان اس کی محبت اور رفاقت حاصل کرنے کے لیے بے قرار میدانِ عرفات کی طرف جوق در جوق جارہے تھے‘ قافلے کے قافلے بسوں میں‘ گاڑیوں میں پیدل ہر طرح والہانہ انداز سے ایک ہی جذبے سے سرشار چلے جارہے تھے۔ ان کی زبانوں پر ایک ہی ورد تھا لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک۔ ان الحمد و النعمۃ لک و الملک لا شریک لک۔ ان کے دل ایک ہی انداز سے دھڑک رہے تھے۔ سب کو ایک ہی لگن تھی۔ عرفات/یوم نجات/ یوم احتساب۔ آج اللہ کی رحمت مانگنے‘ سمیٹنے کا دن تھا‘ اس سے استغفار‘ بخشش طلب کرنے کا دن جس کا جذب جتنا قوی ہوتا اتنی ہی مغفرت کی امید زیادہ ہوتی۔ آج کے دن اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے جو اس کے لیے گھر بار‘ وطن دیار چھوڑ کر رشتے ناطے بھلا کر صرف اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ ہم دونوں بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ بسیں تو مکتب کے دروازے پر رات کو ہی آ کر کھڑی ہوگئی تھیں مگر فجر کے بعد روانگی تھی۔ ہم دونوں نے بھی وہ رات جاگ کر گزاری تھی۔ جس دن سے مکہ مکرمہ میں قدم رکھا تھا رات کی نیند کو گویا اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ دن میں ہم دونوں اشراق پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے کمر سیدھی کرلیتے تھے پھر چاشت کے لیے اٹھ جاتے۔ ظہر پڑھ کر کسی قریبی ہوٹل میں جا کر کھانا کھاتے اور حرم میں ہی تلاوت کرتے رہتے۔ عصر حرم میں جلدی ہوجاتی تھی۔ عصر کی نماز کے بعد طواف کرتے اور مغرب تک اپنے مرحومین کے لیے ان کے نام کے طواف کرتے رہتے۔ عشاء کی نماز پڑھ کر ہلکا پھلکا کچھ کھا پی لیتے اور اپنی رہائش گاہ پر جا کر سوجاتے۔ تین بجے رات کو پھر اٹھ جاتے۔ تہجد صلوٰۃ التسبیح وغیرہ پڑھ کر حرم چلے جاتے اور فجر تک تلاوت کرتے رہتے۔ فجر کی نماز کے بعد ایک طواف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نذر کرتے۔ یہ تقریباً ہمارا روزانہ کا معمول تھا۔
آج یومِ عرفہ ہے۔ یہی حج کا رکنِ اعظم ہے۔ اللہ کی بے پایاں عنایات اور بے حساب مہربانیوں کا دن۔ اس دن اللہ اپنی نوازشات کا مینہ برساتا ہے۔ جو جتنا طلب گار ہے آجائے اس میں بھیگ جائے۔ اپنی جھولیاں بھر لے‘ اللہ کے حضور روئے‘ گڑگڑائے اور اس کی رحمت و مغفرت مانگ لے۔ وہ غفورالرحیم ہر ایک کو اس کے ظرف سے زیادہ عطا کر دیتا ہے اور دیتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی بندہ فسق و فجور نہ کرے اور بندگ�ئ رب میں مسلسل منہمک رہے تو ربِ کائنات اُسے گناہوں کی آلودگی سے اس طرح پاک و صاف کر دیتا ہے کہ جیسے وہ ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوا ہے۔
ہم دونوں فجر کی نماز پڑھ کر اپنے خیمے سے باہر نکلے حتیٰ کہ وسیع و عریض میدان میں ہر طرف سفید سفید فائر پروف خیمے نظر آرہے تھے۔ ہر مکتب کے باہر مختلف کھانوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے ایک اسٹال سے بسکٹ اور جوس کے چند ڈبے لیے اور ایک اسٹال سے چائے کے دو کپ بنوائے اور مکتب کے باہر کھڑی بس میں آکر بیٹھ گئے۔ نویں ذی الحجہ کو ظہر اور عصر کی نمازیں عرفات میں ادا کی جائیں گی۔ عصر سے مغرب تک قبولیت دعا کا وقت ہے۔ یہاں ہر بندۂ مومن اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنا دامن رحمتوں سے بھرنا چاہتا ہے جھولیاں بھر بھر کے لے جانا چاہتا ہے۔ ہم دونوں نے دو‘ دو بسکٹ کھا کر چائے پی‘ کپ باہر ایک طرف ڈسٹ بن میں ڈالے اور ذکر و دعا میں مشغول ہوگئے صرف ایک چادر اور پانی کا تھرماس ہمارے ساتھ تھا۔ چادر مزدلفہ میں زمین پر بچھانے کے لیے تھی۔ بسوں کو مسافروں سے بھرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ میدانِ عرفات کی جانب پیدل جانے والوں کی بھی بڑی تعداد رواں دواں تھی۔ ہر حاجی احرام میں ملبوس لبیک لبیک کا ورد کرتا جارہا تھا۔ سعودی حکومت نے عرفات جانے والوں کے لیے پورے راستے میں تھوڑے فاصلے پر ٹھنڈے پانی پینے کے لیے نلکے لگا رکھے ہیں۔ پورے میدان میں نیم کے درخت بہت تعداد میں لگائے گئے ہیں تاکہ ان کے سائے میں حاجی آرام کرسکیں اور عرفات کا گرم موسم ٹھنڈا ہوسکے۔ ہر سڑک پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جو کھمبے لگے ہیں ان میں شاور فٹ ہیں جن سے ہلکا ہلکا چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے۔ بسیں قطار در قطار کوئی ڈھائی گھنٹے میں اپنے اپنے مطلوبہ مستقر پر پہنچیں اور مقررہ خیموں کے سامنے رک گئیں۔ ہم دونوں بھی دعائیں پڑھتے ہوئے بس سے اترے۔ ہمارا خیمہ سامنے ہی تھا جس پر ہمارا مکتب نمبر لکھا ہوا تھا۔ ان مکتبوں/خیموں کے باہر ایک طرف کھانے کا انتظام تھا۔ آج کے دن ہر حاجی سعودی حکومت کا مہمان تھا اس لیے وہاں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں‘ جوس کے ڈبے اور چکن بریانی کے پیکٹ حکومت کے نمائندوں کی حیثیت سے معلمین کی طرف سے بانٹے جاتے ہیں۔ یہ ضیافت بہت افراط سے‘ بڑی فراخ دلی سے کی جاتی ہے۔ مکتب کارڈ دکھا کر ہر حاجی اپنے لنچ بکس وصول کرسکتا ہے۔
یومِ عرفہ‘ یومِ مغفرت و رحمت ہے‘ گناہوں سے نجات کا دن شیطان کی چالوں سے ہوشیار رہنے کا دن کہ کہیں وہ اپنی چالوں اور حربوں سے حاجی کو دنیاداری میں مبتلا نہ کردے۔ اس وقت عبادت اور دعا کے وہ لمحے جن سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں۔ کہیں دنیا داری کی نذر نہ ہوجائیں۔ مسجدِ نمرہ جو ہمارے خیمہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر تھی اور اس کے منارے دکھائی دے رہے تھے۔ ہم دونوں نے وضو کرکے اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ قبلہ رو کھڑے ہو کر اس سے مناجات میں مشغول ہوگئے۔ پہلے اپنا اپنا احتساب‘ گناہوں کا حساب‘ غلطیوں‘ کوتاہیوں کا اعتراف اور پھر معبودِ برحق رب العالمین سے طلب مغفرت‘ آنکھوں سے آنسو خود بخود رواں ہوگئے۔ ان لمحات میں پوری زندگی کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔ غلطیاں‘ کوتاہیاں ایک ایک کرکے سامنے آربی تھی۔ اے اللہ ہم توبہ کرتے ہیں‘ تیری طرف رجوع کرتے ہیں‘ تیرے سوا کوئی معبود‘ کوئی سجود نہیں۔ ہماری توبہ قبول فرما‘ ہماری غلطیاں‘ ہماری کوتاہیاں معاف فرما‘ اے اللہ ہم تجھ سے تیری رضا اور خوشنودی طلب کرتے ہیں‘ تو ہم سے راضی ہوجا‘ ہم تجھ سے وہ تمام خیر اور بھلائی مانگتے ہیں جو ہمارے آقا سرکار مدینہ علیہ الصلوٰۃ و السلام تیرے بندے اور رسولؐ نے طلب فرمائی اور ہر اُس شر اور ہر برائی سے پناہ مانگتے ہیں جس سے تیرے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی تھی۔
ہمارے خیمے کے سامنے دوسرا وسیع و عریض خیمہ تھا یہی کوئی ڈیڑھ دو سو حاجیوں کے سما جانے کے لائق‘ وہاں کچھ لوگوں نے نماز باجماعت کا انتظام اور وعظ و دعا کا میگا فون پر اہتمام کر رکھا تھا۔ ہمارے اور اس خیمے کے درمیان صرف دو قدم کی گلی تھی۔ ہمارے وہاں پہنچتے ہی ایک بجے جماعت کا اعلان ہوا۔ ہمارا خیمہ چونکہ مسجدِ نمرہ سے قریب تھا اس لیے خیمہ سے ہمارے ساتھیوں میں سے تین چار مرد اور خواتین مسجد نمرہ گئے اور ڈھائی بجے فارغ ہو کر آئے۔ ہم لوگوں نے خیمے میں ہی وقوف کو ترجیح دی ایک تو اس لیے کہ وقوف مسجد میں نمرہ نہیں ہوسکتا‘ دوسرے مسجد میں رش کی وجہ سے سکون و انشراح قلب حاصل نہیں ہو پاتا اور ذاتی‘ نجی دعا و استغفار اور شخصی الحاح و زاری میں پوری توجہ نہیں ہو پاتی۔ جب کہ خیمے میں ظہر کے وقت ظہر کی نماز اور عصر کے وقت عصر کی نماز پڑھنے سے پورا وقت تسلسل کے ساتھ مل جاتا ہے چنانچہ مسجدِ نمرہ جانے والے جانے سے پہلے بھی سوتے رہے اور وہاں سے آنے کے بعد تھکن کے مارے پھر سو گئے۔ چونکہ وہ ظہرین (ظہر اور عصر ملا کر) 12189 ‘ ایک بجے کے درمیان پڑھ چکے تھے اس لیے اصل وقوف کے وقت سستی کا شکار ہوگئے۔ اس لحاظ سے ہمارا پروگرام بفضل تعالیٰ درست رہا۔ خیمے میں پہنچنے کے بعد ہم لوگ نماز ظہر سے پہلے تک دعا و اذکار اور نوافل میں مشغول رہے پھر سامنے والے بڑے خیمے میں تقریباً دو سو افراد کے ساتھ ظہر کی نماز با جماعت ادا کی۔ نماز کے بعد خطیب صاحب ہدایات اور مسائل بیان کرتے رہے۔ ہم لوگ کھڑے ہو کر تکبیر و تہلیل‘ توبہ و استغفار اور الحاح و زاری کرتے رہے۔ اللہ کے حضور اپنی سیاہ کاریوں پر ندامت اور اس کی رحمت و مغفرت طلب کرتے رہے۔ نماز عصر کے بعد امام صاحب نے اجتماعی دعا کرائی اور ایسی دل سوزی کے ساتھ کرائی کہ خیمہ میں موجود ہر شخص کی آنکھ پرنم تھی۔ ہر شخص اپنی بے کسی و بے بسی اور نافرمانی و سرکشی پر شرمسار تھا۔ التجائیں دل سے نکل رہی تھیں اور رحمت و مغفرتِ خدا وندی طلب کر رہی تھیں۔ اپنے آپ کو بدلنے کا عزم‘ اپنی زندگی میں اطاعت و فرمانبرداری اپنانے اور شرک و بدعت سے بچنے کا پختہ ارادہ ہر ایک کی آرزو تھی۔
ہم دونوں بھی ایک دوسرے کے سامنے اپنی اپنی خطاؤں اور غلطیوں پر شرم سار کھڑے تھے۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگی۔ آج کے دن کی اس بابرکت لمحے میں میری تمام غلطیوں‘ نافرمانیوں اور کوتاہیوں کو معاف کردیجیے‘ میں نے شادی سے لے کر اب تک نہ جانے کتنی بار آپ کا دل دکھایا ہوگا‘ اپنی اَنا کا بھرم رکھنے کے لیے کتنی ہی غلطیاں کی ہوں گی‘ سچے دل سے مجھے معاف کر دیں آپ نے اگر آج مجھے معاف نہ کیا تو شاید میرا خدا بھی مجھے معاف نہ کرے‘ میرا حج قبول نہ کرے۔ میری آنکھیں آنسوؤں کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ آفتابِ غروب ہو رہا تھا‘ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ تم بھی مجھے معاف کر دو‘ میں نے ہمیشہ اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے تمہیں نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ تمہیں ناقص العقل سمجھ کر ہمیشہ تمہیں دھتکارا مگر تم مجھے معاف کرو گی تو میرا بھی حج مبرور ہوگا ورنہ ہم دونوں ہی خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ اے اللہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو معاف کیا تو بھی ہمارے چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف کردے۔