تحریر: سمیرا ملک
افضال اور آفاق دونوں بچپن کے دوست تھے۔ وہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز پولیس ڈپارٹمنٹ میں معمولی عہدے پر ملازمت سے کیا۔ چند ہی سالوں میں افضال نے اس معمولی ملازمت سے گھر، کار، بینک بیلنس کے علاوہ اچھے عہدے پر ترقی بھی حاصل کرلی تھی جبکہ آفاق آج بھی اسی عہدے پر معمولی تنخواہ پر ملازم تھا۔ اس کی وجہ اس کی ایمانداری اور وضع داری تھی۔ آج بھی دونوں کی دوستی تر و تازہ تھی۔ اگرچہ افضال معاشی لحاظ سے بہت مستحکم ہوچکا تھا مگر دوستی کے لوازمات کے معاملات میں افضال کوئی بے ایمانی نہ کرتا تھا۔ دونوں دوست اکٹھے گھومتے پھرتے، انجوائے کرتے، مگر ایک دوسرے کے انتہائی ذاتی معاملات میں نہ جھانکتے۔ آفاق اکثر سوچا کرتا تھا کہ افضال کو کیا ہوگیا ہے، وہ ایسا تو نہیں تھا کیونکہ آفاق افضال کو بچپن سے جانتا تھا۔ اسی لیے وہ افضال کی اصلاح کرنا چاہتا تو افضال بات گول مول کردیتا۔ اس طرح وقت گزرتا رہا۔ دونوں کے بچے جوان ہوگئے۔ افضال نے اپنے بچوں کو اعلیٰ ٰتعلیم کے ساتھ زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کیں، جبکہ آفاق اپنی معمولی تنخواہ سے اپنی اولاد کو صرف سرکاری اسکولوں سے پڑھا سکا۔
اس کے دو بیٹے انٹر سے آگے نہ بڑھ سکے۔ افضال کے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ دونوں دوستوں پر بڑھاپے کی آمد ہوچکی تھی مگر افضال اپنی صحت سے اپنی عمر سے کم ہی نظر آتا تھا۔ جبکہ آفاق اپنی عمر سے زیادہ۔ آفاق کی بیوی جب افضال کی بیوی اور بچوں کو دیکھتی تو آفاق سے لڑتی کہ تم آج بھی معمولی کلرک ہو جبکہ افضال بھائی کتنی ترقی کرچکے ہیں، کتنا کما چکے ہیں۔ آفاق بیچارا خاموشی سے بیوی کی ہر بات سن لیتا کیونکہ واقعی افضال نے بہت کچھ حاصل کرلیا تھا۔ افضال کا شمار شہر کے بڑے لوگوں میں ہونے لگا۔ دونوں کی دوستی آج بھی زندہ تھی، لیکن چونکہ اب مصروفیات بہت زیادہ ہوچکی تھیں اس لیے اکٹھے ہونے کا موقع کم کم ہی ملتا۔ لوگ حیران ہوتے تھے کہ دونوں دوستوں میں معاشی لحاظ سے کتنا فرق ہے لیکن دوستی اتنی پکی جیسے ایک جسم اور دو روح۔ افضال آفاق کو سمجھاتا ’’یار ایمانداری کے چکر میں لگے تو کچھ نہ کرسکوگے۔ یہ دور ہی ایسا ہے کہ ہر طرح سے اور ہر طر ف سے کماؤ‘‘۔آفاق افضال کی بات سن کر افسردہ ہوجاتا۔ اب ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ریٹائرمنٹ ہونے والی ہے، اب کیا بے ایمانی کرنی۔ فرض اور ضمیر کی کشمکش میں الجھا ہوا آفاق بہت پریشان رہنے لگا کیونکہ واقعتا وہ اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں کرسکا تھا۔ نہ تو انھیں اچھی تعلیم دے سکا، نہ ہی زندگی کی خوشیاں۔ اس کے دونوں بیٹے بہت محنتی اور فرماں بردار تھے، وہ اپنے باپ کا بہت خیال رکھتے تھے، اچھی جاب اچھی تعلیم سے ملتی ہے اور آفاق کے بیٹوں کے پاس اچھی تعلیم نہ تھی۔ اس لیے انھوں نے ماں کا زیور بیچ کر کپڑے کا چھوٹا سا کاروبار شروع کردیا تاکہ باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد گھر کا خرچہ چلتا رہے۔ دوسری طرف افضال کے بچے اپنے والد کا بالکل خیال نہ کرتے، باپ کا کہنا نہ مانتے اور وہ آزادی کے چکر میں غلط راہ پر چل نکلے۔ اولاد کو یوں تباہ ہوتے دیکھ کر افضال کو بے حد صدمہ ہوتا۔ بیٹی بھی خودسر تھی۔ سمجھانے پر ٹکا سا جواب دے کر چلی جاتی۔ دونوں دوستوں نے چونکہ اکٹھے ملازمت کا آغاز کیا تھا اس لیے اکٹھے ریٹائر ہوئے۔ اب افضال اپنا زیادہ تر وقت آفاق کے ساتھ شطرنج کھیلنے میں گزارتا۔ دونوں اپنے گزرے ہوئے وقت کو یاد کرتے۔ بچپن کی طرح آج بھی ایک دوسرے سے کھیل کر خوش ہوتے۔ آفاق نے ایمانداری کا دامن کبھی نہ چھوڑا جس کی وجہ سے آج وہ بہت پُرسکون اور مطمئن رہتا، جبکہ افضال کو ہر وقت ایک انجانا سا خوف گھیرے رہتا۔ اولاد کی بے رخی نے افضال کو ادھ موا کردیا تھا۔ جب آفاق کے بیٹے آفاق سے گلے ملتے، اپنے باپ سے ہنستے بولتے تو افضال کی آنکھوں میں خودبخود آنسو آجاتے کہ جس اولاد کو اتنی محبت دی انھوں نے مجھے نظرانداز کردیا۔ افضال کے بیٹے ناجائز طریقے سے کما رہے تھے۔ ان کے پاس باپ سے بات کرنے، ان کی طبیعت کے بارے میں پوچھنے کا وقت ہی نہ تھا۔ افضال کو اب احساس ہورہا تھا کہ آفاق نے ایمانداری کا کتنا خوبصورت صلہ پایا ہے۔ اس کی ساری زندگی کی ریاضت کس ٹھکانے لگی؟ اولاد کو حلال کھلانے سے اُن میں والدین کی محبت، رشتوں کا تقدس، انسانیت کے احترام جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ حرام اولاد کے خون میں سرایت کرجائے تو اولاد ماں باپ سے باغی، اْن کے احترام سے ناواقف ہو کر شیطانیت کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اب پچھتانے سے کیا فائدہ! کیونکہ45 سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ کل تک افضال خوش و خرم ہوا کرتاتھا، مگر آج آفاق کے چہرے پر سچی مسرت اس کی خوشی کا پتا دیتی ہے۔