میر قاسم علی ۔۔۔۔جس دھج کوئی مقتل کو گیا

232

عابد علی جو کھیو

بنگلا دیش سے آنے والی خبروں کے مطابق 3 ستمبر2016ء کی رات بنگلادیش جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما جناب میرقاسم علی کو پھانسی دے دی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ برادر محترم میر قاسم علی کو بھی اسی ناکردہ جرم پر پھانسی دی گئی، جس ناکردہ جرم پر ان کے پیش رو قائدین بنگلا دیش جماعت اسلامی کو دی جاتی رہی ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ برادر میرقاسم علی کو ایک ایسے گواہ کی گواہی پر پھانسی دی گئی ہے جو اپنی پیدائش سے سات سال پہلے ہونے والے جرائم کا چشم دید گواہ تھا! وہ پیدا ہوا تھا 1977ء میں اور اس نے 1971ء میں برادر میرقاسم علی کو جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھا تھا! مسز حسینہ واجد! تم نے برادر میرقاسم علی کو آج رات میں پھانسی دلوائی ہے۔ لیکن شاید تمہیں نہیں معلوم کہ تم ان سے بہت پہلے مرچکی ہو! مسز حسینہ واجد! مُردہ انسانوں کی بڑی قسمیں ہوتی ہیں۔ بہت سے انسان اس زمین پر چلتے پھرتے، چرتے چگتے، حتیٰ کہ حکومت کرتے، اور لوگوں کی زندگی وموت کے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں، لیکن وہ زندہ انسانوں میں شمار نہیں ہوتے، وہ مُردہ جسم (body Dead) ہوتے ہیں، جو ہلتے اور حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ اور وہ اس دنیا میں صرف اس لیے باقی رہتے ہیں کہ ان کا پیمانہ اچھی طرح لبریز ہوجائے اور وہ آخرت میں کسی معافی کے مستحق نہ رہ جائیں۔ مسز حسینہ! اگر تم مسلمان ہو اور کبھی قرآن پاک کو ہاتھ میں لینے کی توفیق ہوتی ہے، تو تم دیکھوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو مُردہ بتاتا ہے۔ وہ ایک جگہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے: انک لاتسمع الموتی (تم مُردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے!) حسینہ واجد! تمہاری حالت ایسی ہی ہے۔ جو شخص دینِ حق کے عَلم برداروں، اور پیارے نبی کے پیروؤں کا دشمن ہوتا ہے وہ خود پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہوتا ہے، وہ اللہ کا دشمن ہوتا ہے۔ حسینہ واجد! تم اسی روز مرچکی ہو، جس روز تم نے برادر عبدالقادر ملا کو پھانسی دلوائی تھی۔ اور اب کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی! البتہ جن لوگوں کو تم نے پھانسی دلوائی ہے، قرآن پاک کا اعلان ہے کہ وہ سب لوگ زندہ ہیں۔ اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حسینہ واجد! تمہیں کون بتائے، اور کس طرح بتائے کہ اس وقت وہ لوگ جنت کی کیاریوں میں ہیں، اور جنت کی نعمتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ برادر میر قاسم علی! راہِ حق میں استقامت، اور دین اسلام کے لیے یہ عزیمت تمہیں مبارک ہو۔ ہمیں خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں شہادت کا رتبۂ بلند عطا کیا، جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ یہ رتبہ بلند تمہیں بھی مبارک ہو، تمہارے خاندان کو بھی مبارک ہو، اور تحریک اسلامی کے تمام فرزندوں کو بھی مبارک ہو۔ آج پوری دنیا میں حق و باطل کا معرکہ گرم ہے اور روز شہداء کی لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ شہداء کا یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ظلم وستم کی اس اندھیری رات کے بعد لازماً حق کی سحر طلوع ہوگی۔ ویومئذ یفرح المومنون بنصراللہ۔ (ڈاکٹر محمد عنایت اللہ سبحانی، انڈیا)
*۔۔۔*۔۔۔*
یوم دفاع پاکستان
6 ستمبر 1965ء
بیشک وہ ہماری ایک بڑی کامیابی تھی۔
بھارت کے شب خون کو پاکستان نے خاک میں ملادیا۔
ایم ایم عالم نے جس برق رفتاری سے بھارتی جہازوں کے پرخچے اڑائے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اور تو اور لاہور سے متصل محاذ پر بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بھی یوم دفاع کی ایک یاد ہے۔
بہرحال بھارت اس کا بدلہ لے چکا ہے اور وہ اس جنگ سے زیادہ ہولناک ہے۔
1971ء میں تقسیم پاکستان میں بھارت نے جس طرح حصہ لیا وہ کردار تو مجیب الرحمن اور بھٹو صاحب بھی ادا نہ کرسکے۔
90 ہزار فوجی جوانوں کا گرفتار ہونا ایک سیاہ تاریخ ہے، لیکن جن پاکستانیوں نے ہار نہ مانی وہ استقامت پر رہے۔
پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں عام پبلک، طلبہ اور علماء کو آج تک اذیتوں کا سامنا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر ملا، مطیع الرحمن نظامی، میر قاسم کو پاکستان سے محبت کی وجہ سے تختۂ دار پر لٹکایا گیا لیکن انہوں نے پاکستان کی حمایت کی اور سرفروشوں کی فہرست میں نام لکھوا گئے۔
کیا ان کی حمایت کرنا دفاعِ پاکستان نہیں ہے۔۔۔؟
ان کا دفاع کرنا ہی دفاعِ پاکستان ہے۔۔۔
ہاں وہ عین پاکستانی ہی ہیں جنھیں تمغوں، سلامیوں اور سلیوٹ کے بغیر فقط پاکستان کی محبت کی وجہ سے اذیتیں اور پھانسیاں ملیں۔۔۔
ہاں وہ پاکستانی خون ہی ہے جو بنگال میں بہہ رہا ہے۔
آئیے اسی پاکستان کو تلاش کرتے ہیں جس کی اساس لا الٰہ الااللہ ہے _ (محمد عمر، تلہار)
*۔۔۔*۔۔۔*
جماعت اسلامی بنگلادیش کے 5 رہنما پاکستان کے لیے تختۂ دار پر جھول چکے ہیں۔ ان پر 1971ء میں قیام بنگلادیش کے خلاف مزاحمت اور پاکستان سے وفاداری کا الزام ہے۔ انہیں متعصب بنگالی حکمران غدار کہہ کر سولیوں پر چڑھا رہے ہیں۔ اس وقت بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کا نام لینا دہکتے انگارے منہ میں رکھنے سے زیادہ مشکل ہے، لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کے کسی راہ نما نے لندن کا ویزا لگوایا نہ خودساختہ جلاوطن ہوکر لندن کے کسی پُرتعیش علاقے میں سیکرٹریٹ بنایا۔ 90 ، 90 برس کے بزرگوں کے جنازے اٹھانے کے بعد بھی جماعت اسلامی کی قیادت کارکنوں میں موجود ہے، اللہ بنگال کے قابلِ فخر ’’پاکستانیوں‘‘ کو استقامت دے۔ (احسان کوہاٹی، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
پاکستان کے اصل محافظ
غازی آباد، قاسم پورہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رحم کی اپیل کرانے کی آخری کوشش کے طور پر عوامی لیگ کے اعلیٰ سطحی وفد نے میر قاسم علی سے جیل میں ملاقات کی تھی۔
اس دوران انہیں جاں بخشی سے بھی بڑی پیشکش کی گئی کہ ان کا مغوی بیٹا ایڈووکیٹ احمد قاسم بحفاظت گھر پہنچ جائے گا۔ فقط اپنے ’’جرائم‘‘ پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے صدرِ مملکت سے رحم کی اپیل کردو۔
ذرا سوچنا کہ باپ کے دل پہ کیا کیا نہیں گزری ہوگی اس آفر کو رد کرتے ہوئے۔۔۔؟
کیا اسے اپنی چھاتی پر ننھے احمد کا گداز محسوس نہیں ہوا ہوگا؟
کیا اس کی مٹھیوں کو اپنے چندا کی انگلی کا لمس یاد نہیں آیا ہوگا؟
کیا اس کی سماعتوں میں معصوم قلقاریاں نہیں گونجی ہوں گی؟
پھر اس کونپل کو تن آور درخت بنتے دیکھنا، اور پھر اس کی بقا کا دار و مدار خود پر ہونا۔۔۔ اور پھر باطل کے آگے سر جھکانے سے انکار۔
میر قاسم علی نے سنتِ ابراہیمی سے لے کر سنتِ حسینی تک، سب کی پیروی کی۔
اللہ پاک ان کی عظیم قربانی قبول فرمائے۔ شہید کے درجات تاقیامت بلند فرماتا رہے۔ آمین (فہد عبدالہادی، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟
اس کی پیٹھ خالی ہے؟
اس کو بس اپنے ہی بل بوتے پر جو کرنا ہے سو کرنا ہے؟
اسے کسی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے؟
ان سے بھی نہیں جنہوں نے ان کے ملک و دین کے لیے اخلاص کو ملکہ نورجہاں کی ایک مسکراہٹ جتنی اہمیت بھی نہیں دی؟
جن کی نظر میں ان کا اپنی زندگی سے گزر جانا کسی طوائف کے کوٹھے پر ’’چیچی دے چھلے‘‘ والا گانا گا لینے سے بھی کم اہم ہے؟
ان کے لیے بھی نہیں جو ملک و قوم کے نام پر سیاست کرتے نہیں تھکتے؟
غضب خدا کا، بنگلادیش میں پھانسی گھاٹ پر میرے شہدا کی قطاریں لگی ہیں اور پاکستان میں کوئی پھوٹے منہ ان کا ذکر کرنے کو بھی تیار نہیں!
کوئی بنگلادیشی سفیر کو بلا کر رسمی کارروائی کا روادار نہیں؟
کوئی میڈیا اینکر۔۔۔
کسی سیاسی جماعت کا کوئی ورکر۔۔۔
کوئی تیسرے درجہ کا سیاسی لیڈر ہی سہی۔۔۔
کوئی این جی او۔۔۔
کوئی ادارہ۔۔۔
کوئی بھی نہیں؟
زبانیں گنگ ہیں
قدم زنگ آلود ہیں
کیوں؟
آخر کیوں؟
یارو کچھ تو بولو۔۔۔ یہ قبرستان کی خاموشی کیوں ہے؟
یہ میرا میر قاسم۔۔۔
خدا کی قسم تم ایک تو ایسا پیدا کرکے دکھاؤ۔۔۔
موت کی سزا ہوئی ہے اسے، موت کی سزا!
پتا بھی ہے موت ہوتی کیا ہے؟
مگر وہ کمال کا آدمی مسکرا کر بولا ہے رحم کی اپیل؟
وہ بھی ان ظالموں سے؟
یہ زبان اس کے لیے بنی ہی نہیں۔
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں
یہ وفاداروں کے قبیلے کے لوگ ہیں۔۔۔
یہ نظامِ حاضر و موجود کے باغی ہیں۔۔۔
یہ مودودی کے شاگرد ہیں جس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ زندگی و موت کے فیصلے یہاں نہیں ہوتے۔
یہ اس قافلے کے شہہ سوار ہیں جسے صحابہ کی روایتوں نے قوت اور توانائی فراہم کی ہے۔
ان کی راہیں عارضی، وقتی، فوری مفادات کی بنیاد پر بنتی اور تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ازلی اور ابدی اصولوں سے کشید کی جاتی ہیں۔
ان کے پیش رو سید احمد شہید اور ٹیپو سلطان جیسے لوگ ہیں۔
تم انہیں پھانسی نہیں دیتے شہادت کا تحفہ دیتے ہو۔
ان کی زندگی تو امانت ہوتی ہے، اور امانت جتنی اچھی طرح مالک تک پہنچے امین کے لیے اتنے ہی اچھے انعام کا سبب بنتی ہے۔
یہ تو اس روایت کے پیروکار ہیں کہ جب ان کے ایک بڑے کی پھانسی نظربندی میں تبدیل ہوئی تو انہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ
مستحقِ دار کو حکمِ نظر بندی ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
یہ تو اپنا بہترین صلہ پانے جا ہی رہے ہیں۔۔۔
یہ تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف لوٹ رہے ہیں، مگر۔۔۔
تیرا کیا بنے گا حسینہ؟
تُو مودی کے ساتھ ہی اپنا انجام دیکھ لے۔۔۔
اور وہ سب بھی سوچ لیں جنہوں نے اپنی زبانیں بے نام سے مفادات اور سفارتی آداب کی سوئیوں سے سی لی ہیں۔
جلد میرے رب کے پھانسی گھاٹ سجنے کو ہیں۔۔۔
تمہارے اور ان پھانسی گھاٹوں میں فرق بس اتنا ہے کہ تم پھانسی دے کر عزت والی موت سے ہمکنار کرتے ہو، اور میرے رب کی سزا میں موت نہیں آئے گی، ہر لمحہ مرنا اور اذیت ناک مرنا ظالموں کا نصیب بن جائے گا، ان شا اللہ
(زبیر منصوری، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
میر قاسم ہم سے ہوا جدا، ایک اور ستارا ڈوب گیا
بنگال کی جماعت اسلامی کا ایک اور سہارا ڈوب گیا
حسینہ و مودی قاتل ہیں جماعت کے معصوموں کے
اسلامی جمعیت طلبہ کا تھا رہبر پیارا، ڈوب گیا
ظلم پھر آخر ظلم ہے اور ہر ظالم کا مقدر ہے پسپائی
کہنے کو آج تختۂ دار پر وہ ایک قائد ہمارا ڈوب گیا
شہدائے مشرقی پاکستان کو یاد رکھو اے اہلِ وطن
ان کا نعرہ تھا پاکستان زندہ باد، دشمن بیچارہ ڈوب گیا
بنگلا دیش و پاکستان بنیں گے اسلام کے، مضبوط قلعے
خادمِ اسلام کا نعرہ چھا گیا اور کفر کا نعرہ ڈوب گیا
(نبیل وڑائچ)
*۔۔۔*۔۔۔*
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے ایک اور راہنما میر قاسم علی نے پاکستان سے محبت کے جرم کی پاداش میں پھانسی کا پھندا چوم لیا۔ بھارت نواز حسینہ واجد کے ان پے در پے اقدامات پر پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں خاموشی مجرمانہ ہے۔
(میاں مقصود احمد، امیر جماعت اسلامی پنجاب)
*۔۔۔*۔۔۔*
بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کی سزائے موت کے خلاف آخری اپیل خارج کردی گئی۔ انصاف کا خون کیا گیا۔ اب انسانیت کا خون ہونے کو ہے۔ ایک اور بے گناہ، ایک اور عاشقِ پاکستان تختۂ دار پر جھولنے کو ہے۔۔۔ اور اس سے بھی بڑا ظلم کہ جن کی محبت میں راہِ وفا کا یہ مسافر جان دے رہا ہے، وہ دستِ قاتل روکنے کے بجائے پاس کھڑے لاش گرنے کا انتظار کررہے ہیں۔۔۔ (مستنصر خان، گجرات)
*۔۔۔*۔۔۔*
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما میر قاسم علی کو پاکستان سے محبت کے جرم میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔۔۔!
کسی مومن کی جب شہادت ہوتی ہے
اک دائمی زندگی کی ولادت ہوتی ہے
کبھی ملتی نہیں عام لوگوں کو وہ
شہید کو نصیب جو سعادت ہوتی ہے
(نعمان ستی)
*۔۔۔*۔۔۔*
میر قاسم علی بنگلا دیش کے ایک بہت بڑے بزنس مین اور جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما۔۔۔ ان کی اپیل آج سے تین دن پہلے مسترد کردی گئی تھی، ان کو کسی وقت بھی پھانسی دی جا سکتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان پر جو الزامات ہیں وہ تمام جھوٹ پر مبنی ہیں۔ (وقاراحمد نظامی، راولپنڈی)
*۔۔۔*۔۔۔*
میر قاسم۔۔۔ ہم شرمندہ ہیں۔
تم ’پاکستان زندہ باد‘ کہتے رہے۔
ہمارے پالیسی ساز ’پاکستان مُردہ باد‘ کہنے والے سانپوں کو پالتے رہے۔
لٹا سکو تم بھی جاں تو آؤ
کہ ہم سوئے کربلا چلے ہیں۔ (اسرار احمد ظفر)
*۔۔۔*۔۔۔*
بنگلا دیش سے ایک اور شہادت کی اطلاع آئی ہے۔ وہاں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما، عظیم دانشور، مدبر، ماہرِ اقتصادیات جناب سید میر قاسم علی (ولادت 31 دسمبر 1952ء) کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اس طرح وہ بھی قافلۂ شہداء میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل اسی طرح ایک ایک کرکے چار رہنماؤں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ سب کا تعلق ایک دینی جماعت سے ہے، سب ایک ہی فکر کے علم بردار ہیں، سب کا جرم ایک ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھنے والے اور حق کے پرستار ہیں۔
یہ کائنات فطرت کے اصولوں سے جکڑی ہوئی ہے۔ جس طرح زمین میں اگائی جانے والی کھیتی پانی پاکر تازگی حاصل کرتی ہے، اسے جتنی کھاد اور پانی دیا جائے اتنا ہی وہ لہلہاتی ہے، اسی طرح ایمان کی کھیتی خون سے لہلہاتی ہے، اس کی راہ میں جتنی قربانیاں اور جتنی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں اتنا ہی اس کی شادابی، جمال و رعنائی اور استحکام میں اضافہ ہوتا ہے۔ بس دیکھنے اور جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی تحریک سے اپنی وابستگی کا اظہار کررہے ہیں، کہیں ان کے عزائم میں کمزوری اور ارادوں میں فتور تو نہیں آ رہا ہے۔
غزوہ احد (3ھ) میں 70 مسلمان شہید ہوئے، بہت سے مسلمان زخمی ہوئے، قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش ہوا، بیواؤں اور یتیموں کے مسائل پیدا ہوئے، اس کے 2 سال بعد پورا عرب ایمان والوں کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنے کے لیے چڑھ دوڑا۔ ایسے انتہائی نازک حالات میں ایمان کے عَلم بردار کن جذبات سے سرشار تھے، قرآن نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنے عہد کو پورا کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے، انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘ (الاحزاب :23)
روایات میں آتا ہے کہ جب کسی صحابی کو اللہ کی راہ میں شہادت نصیب ہوتی تو دوسرے صحابہ کہتے: ’’یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا ہے۔‘‘
بنگلا دیش کی سرزمین بھی گواہ ہے کہ اس کے جیالوں نے اللہ سے جو کچھ عہد کیا تھا، اس کو سچ کر دکھایا ہے۔ انھوں نے اس راہ میں ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی اور آزمائشوں، مصائب، قید و بند، پھانسی کے پھندوں، کسی سے وہ نہیں گھبرائے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اپنی نذریں پوری کردی ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے دعووں پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے اور بقیہ کے قدم بھی راہِ استقامت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کے عزائم میں ذرا بھی ڈگمگاہٹ نہیں آئی ہے۔
اے اللہ! ہم نے بھی حق کی حمایت اور طرف داری کا اعلان کیا ہے۔ اے اللہ! تُو ہمیں بھی استقامت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمیں جتنے دن بھی زندگی عطا فرما، اسلام پر قائم رکھ، اور جب موت آنی ہو تو ایمان کی حالت میں ہمیں اٹھا۔ آمین، یارب العالمین! (رضی الاسلام ندوی، انڈیا)