آرزوئے تشنہ

116

عطیہ جمال

ذی الحجہ کا مہینہ آتے ہی عافیہ کے دل کی حالت ہی عجیب ہو جاتی آنسو جاری رہتے، اللہ کے گھر کو ایک نظر دیکھنے کی تڑپ اسے ہر حال بے کل رکھتی، حالات ایسے نہ تھے کہ سفر خرچ برداشت کر سکتی ہر بار رقم جوڑتی اور ہر بار کسی نہ کسی انسانی ضرورت کے پیش نظر وہ ٹوٹ جاتی۔ اس کے آنسوؤں کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا۔ مگر اس کی سوچ اور دل کی حالت سے ہر فرد بے خبر تھا۔
قربانی کرنی ہے۔ اللہ کے گھر جانے نذر مانی ہے، دیکھو اللہ کب پوری کرتا ہے۔ وہ تو جانور قربان کرنے کا سوچتی ہی رہتی مگر عمل کی نوبت ہی نہ آتی۔ وجہ مہنگائی کا ناختم ہونے والا سلسلہ اس کے خواب پورے ہی نہ ہونے دیتا۔ اس کی بے کلی کلویے وہ ایک روزہ اپنے محلے میں ہونے والے درس کے حلقے میں چلی گئی۔
وہاں قربانی کا جو مفہوم اسے سمجھنے کو ملا وہ کہیں نہ ملا تھا۔ باجی نے درس کے دوران کہا تھا۔ توحید خالص تو یہ ہے کہ اللہ کو رب مان کر راضی ہوجانا اور اس کے لیے ہر جذبے اور ضرورت کو قربان کرنے کے لیے تیار رہتا۔ بالکل ویسے ہی ہمارے باپ نبی ابراہیم نے کی اولاد کے دائرے اختیار میں ویسی جیسے اسماعیل نے کی اور عورت کے دائرے اختیار میں اماں ہاجرہ نے کی۔
حضرت ابراہیم بھی دین حنیف کے ماننے والے تھے۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر اللہ کے بن گئے تھے۔ یہی ان کی قربانی کا اصل مفہوم تھا۔ ان کی تمام وابستگی اللہ کے حوالے سے تھی۔ ان کی تمام وابستگیاں[ وطن گھر خاندان اور کل امور کو خدا کے حوالے سے دیکھنا اس کی ہدایت کے معیار پر پرکھنا ہی قربانی کا اصل مفہوم ہے۔
کیونکہ حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم نے خاصل توحید پر عمل کرتے ہوئے اپنی قربانی کو رہتی دنیا تک کے لیے امر کر لیا۔ اور یوں وہ خدا کے محبوب بندے بن گئے۔
عافیہ اکثر اپنے خیالوں میں اپنے آپ کو خدا کے گھر کے گرد چکر کاٹنے اور لبیک اللہم لبیک کہتے محسوس کرتی۔ مگر جوں ہی اس مادی دنیا کی طرف لوٹتی جو اس کی خیالی دنیا سے مختلف تھی پھر ایک بار جذبوں کی شدت کو محسوس کرتی اور خدا کے حضور اشکوں کا نذرانہ پیش کرنے لگتی باجی کے درس کے حلقے میں یہ اس کی دوسری نشست تھی۔ اس بار بھی ماہ ذی الحج کی نسبت سے دوسری نشست میں بھی قربانی اور اس کے پرمزید گہرائی سے بات سمجھائی گئی۔
بیت اللہ کے لیے حج کو جانا اور عمر میں ہر وقت اس خواہش کو دل کے آئینہ خانہ مین سجائے رکھتا اور اسی کے لیے سلگتے رہنا ایک بندہ مومن کے دل کی آرزو ہوتی ہے۔
بدھ کی نشست کا اس شدت سے انتظار رہتا جہاں اب کی بار اسے باجی نے ماں اور بچے کی مثال سے اسے فلسفے کو سمجھایا، باجی نے کہا غور سے سنیے ماں ہر وقت اپنے بچے کے لیے ایثار اور قربانی دینے کے لیے تیار رہتی ہے کیونکہ اس کی محبت مفادات سے پاک ہوتی ہے، خالص ایثار کا پیکر ماں کا چلتا پھرتا وجود اس کی گواہی دیتا ہے۔ خود کے لیے میں سوجاتی ہے اور بے لوث ہو کر بچے کے لیے ایثار کرتی ہے۔ خدا۔۔۔ تو ہمارے لیے ستر ماؤں سے زیادہ رحیم ہے وہ کریم اور کرم والا ہے۔ اس لیے اس کی بے لوث محبت پر غور کریے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں صاف نظر آنے لگے گا دل کی آنکھیں کھول کر دیکھیں۔ اگر ہم غور کریں تو حج کی ساری سعی وجہہ اور لبیک لبیک پکارنا اور تڑپ تڑپ کر پکارنا انسان کی بے خودی کو ظاہر کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو رب کعبہ کی محبت کے لیے پیش کر دیتا ہے اور اس کی محبت جنونی بن جاتی ہے۔ وہ ہر لمحہ اپنی ہر خواہش کو رب کی رضاء پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے،
کیونکہ اس کا اتنا لمبا سفر طے کرنا خرچ برداشت کرنا اسی رب کی خاطر ہوتا ہے۔ مگر ہمارے کردار میں حج کے بعد کوئی تبدیلی نظر نہ آئی اور ہمارا کردار ویسا ہی رہا جیسے پہلے دنیا داری والا رہا تو اتنا سب کچھ بے کار جاتا ہے یہ سب سن کر عافیہ نے سجدے کر ڈالے سوہنے رب کا صد شکر کہ اس نے اپنے گھر بلانے سے پہلے سارے آداب سکھائے، اگر یوں ہی چلی جاتی تو سب کچھ اکارت چلا جاتا سچ ہے وہ مجھ سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے جو مجھے آداب سے آگاہ کردیا۔۔۔!