اس سے پہلے کہ انقلاب دستک دے۔۔۔۔

165

زاہد عباس

بڑی خبر یہ ہوئی کہ حالات کو مجبوراً گلے لگانا پڑا ورنہ ہم بہادر قوم کے بہادر سپوت ہوا کرتے تھے، کئی معرکے غیر وں کے کہنے پر لڑے اور غیروں ہی کے کہنے پر ہم بہادر اور غیروں ہی کے کہنے پر ہم بُز دل ٹھہرے۔ اب ہم نے سوچ لیا ہے کہ صرف نوکری کریں، ذمہ داریاں پوری کرنے سے کیا حاصل اور پھر اس میں بُرائی بھی کیا، وفا داریاں نبھاتے ہوئے نوکری پوری کریں۔ دوران سروس خواہ مخواہ کسی مسئلے میں تحقیقات میں سر کھپائیں اور دشمنی مو ل لیں، بہتر نہیں کہ تمام معاملات غیروں کے سپرد کرکے جان چھڑالیں۔ وہ خود ہی تحقیق کریں اور اچھے بُرے کے ذمے دار بھی وہ خود ہی ہوں، کوئی ہم سے پوچھے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ بلند کریں اور اتحادیوں کو اس بات کا یقین دلوانے کی بھر پور کو شش میں لگ جائیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، غیر وں کا حکم مان کر اس بات کا تا ج اپنے سر پر سجانے کی ناکا م کوشش کریں کہ ہم دوستی میں سب سے آگے ہیں، ’’ڈومور‘‘ کی فرمائش ’’خوش دلی‘‘ سے قبول کریں، کیا ہوا، جو اگر حلیف حریفوں سا سلو ک کرے، بس ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمار ی ’’بات چیت‘‘ چلتی رہے، کسی شا عر نے ہمارے لیے ہی تو کہاہوگا:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
ویسے بھی تو ہم ادبی لوگ ہیں، ظاہر ہے شعرا کے کلام کو زندہ رکھنا ہماری ذمے داری ہے، ورنہ یہ الزام بھی ہمارے سر ہوسکتا ہے کہ کتنی بے ادب قوم ہے۔ کوئی مرے یا جئے، ہمار ا کیا تعلق، قوم نے یہ حلف لیا ہو تا کہ جان وطن پر قربان ہو، سو اگر کسی کی جان جاتی ہے تو وطن کی امانت تھی، وطن ہی پر قربان ہوگئی، اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے۔۔۔دہشت گرد کہاں سے آئے، کہاں گئے، سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کیافا ئدہ، بالکل اسی مثال پر عمل کر تے ہوئے عقل کا تقا ضا تو یہ ہی ہے کہ شہدا کو میڈل دیں اور بجائے پیچھے دیکھنے کے آگے کی طرف دیکھیں، کسی ما ں کا لعل اگر دہشت گردی میں شہید ہوگیا تو خدا کی رضا کہہ کر آگے کی طرف دیکھیں، ملک میں گر تی لاشوں پر ایک دو اجلاس کرکے قوم کو تسلّی دینے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اپنے بھی دل کو تسلّی دیں کیوں، کہ یہ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فارمولا ہے۔
قا رئین، کیا اس طرح کی صورت حال آج ہمارے ملک کی نہیں۔۔۔کیا حکومتی ادارے کماحقہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں اورکیا مادرِ وطن کے شہری پوری طرح محفوظ ہیں ؟ ۔۔۔یہ حالات دیکھ کردل خون کے آنسو روتا ہے۔ جس ملک میں غربت کے ہاتھوں مجبور عوام خودکشی پر مجبور ہوں، جہاں رات کی تاریکی میں سوئے ہوئے عوام پر آگ کے گولے بر سائے جائیں، جہاں بچوں کو اغوا کر کے ان کے جسم کے اعضا فروخت کر دیے جائیں، جہاں عدل و انصاف اُمر ا کے در کی لونڈی بن کر رہ جائے، جہاں غربت کے نام پر حوا کی بیٹیاں قتل کر دی جائیں اور حکم رانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگیں، مخملی بستروں پر سونے والے حکم رانوں کو زمین کی سختی کا اندازہ نہ ہوسکے تو ظلم وجبر کے نظام کو زیادہ دیر قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا پھر وہاں انقلاب آیا کرتے ہیں۔ اسی بات پر مجھے ایک قصہ یاد آگیا۔
کسی ملک کے باد شاہ کا انتقال ہوگیا، اب کون ملک کا نیا بادشاہ ہو؟ اس بات کو لے کر اختلا فات ہونے لگے پھر تما م لوگ اس نکتے پر متفق ہوئے کے کل جو بھی شخص سب سے پہلے سلطنت کی حدود میں داخل ہوگا، وہی اس ملک کا بادشاہ ہوگا۔ دوسرے دن علی الصبح تمام لوگ اس انتظار میں سر حد کے قریب جمع ہوگئے۔ جو شخص پہلے سرحد میں داخل ہوا ، لوگوں نے ساری حقیقت بتا کر اسے تختِ پربٹھا دیا۔ تخت پر قدم رنجہ ہوتے ہی با دشاہ سلامت نے فرمائش کی کہ حلوہ پکایا جائے، چناں چہ اس پر عمل کرتے ہوئے بادشاہ سلامت کی خد مت میں حلوہ پیش کر دیا گیا۔ باد شاہ نے بڑے شوق سے حلوہ کھایا ۔ ایک دن سلطنت کے وزیرِ باتدبیر نے بادشاہ کو اطلا ع دی کہ پڑوسی ملک کے فوجیں ہماری سلطنت پر حملے کی تیار ی کررہی ہیں، اس سلسلے میں حضور کا کیا فرما ن ہے؟ بادشاہ بولا: حلوہ پکاؤ، خود بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ کچھ ہفتوں بعد و زیر نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ دشمن فوجیں ملک کی جانب پیش قدمی کررہی، ہیں، اب کیا حکم ہے؟ بادشاہ نے پھر حلو ے کی فرمائش کی۔ غرض ایک دن وزیرنے بادشاہ کو بتایا کہ دشمن کی فوج نے محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، حکم فرمائیں کہ کیا‘ کیا جائے؟ بادشاہ نے پھر حلوہ مانگا، یہاں تک کے دشمن فوجوں نے محل پر قبضہ کرکے بادشاہ اور وزرا کوگر فتار کرلیا۔ بادشاہ بولا: بھائی، میں کوئی بادشاہ نہیں، میں تو حلوے کا شو قین ہوں، انہوں نے باد شاہ بنادیا، میرے حلو ے کی خواہش پوری ہوتی رہی، میرا حکومت چلانے سے کیاکام، میں حلوے کی خواہش کہیں اور جا کر پوری کرلوں گا، یہ تخت وتاج آپ سنبھا لیں میرا اس سے کیا تعلق یہ کہہ کر وہ چل دیا۔ سُنا ہے کہ اسی طرح کا ایک بادشاہ اپنے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کے بعد ملک کی سپاہ کی کارروائی کے خوف سے دبئی بھاگ گیا، دبئی میں جب کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے تو برطانیہ دوڑتا ہے تو کبھی امریکا نودوگیارہ ہوتا ہے۔ قصّہ کہانی والے بادشاہ کی طرح یہ بھی ’’حلوہ‘‘ کھانے کا شوقین ہے، اس کی ایک خوب رو کنیز غیرقانونی طور پر’’حلوہ‘‘ اس تک پہنچانے کے جرم میں ملک کی اعلی عدالتوں میں دھکے کھارہی ہے تو یہ بیرونِ ملک بیٹھا مزے سے حلوہ کھارہا ہے۔ حلوہ کھانے کے چکر میں اس نے ملک کا آدھے سے زیادہ خزانہ خالی کردیا ہے، ویسے بھی اِسے ملک چلانے سے کبھی دل چسپی نہیں رہی، حلوہ ہی اس کی زندگی کا مقصود ہے، اسی بادشاہ کا ایک اور بھائی بندملک کے معاملات ایمان داری سے چلانے کی بجائے دشمن ملک سے کاروباری انداز میں چلارہا ہے۔ اُس کی زباں کو ’’حلوے‘‘ کا تو اِس کی زباں کو ’’سری، پائے، نہاری‘‘ کا چسکا لگا ہوا ہے۔ رہا ملک وقوم تو وہ بھاڑ میں جائے، انہیں بات سے اِسے کوئی غرض نہیں۔۔۔
قا رئین، اوپر بیان کیا گیا قصّہ بالکل ہمارے ملک کے حکم رانوں کی طرزِ حکم رانی کی تصویر ہے۔ یہاں بھی باری باری حکومت کے مزے لو ٹنے کے بعد ملک سے بھاگ ( لُٹو تو پُھٹو ) جانے کی روا یتیں قائم ہیں۔ ان جھوٹے محب وطن حاکموں کی ملک سے وفاداری صرف دورے اقتدا ر تک ہی محدود ہوا کرتی ہے، اقتدار ختم ہوتے ہی یہ سیا سی رہنما کسی پرندے کی طرح اڑان بھرتے دیار غیر میں جا بستے ہیں، جہاں قوم کا لُوٹا ہوا پیسا ساری زندگی ان کے آرام کا سامان ہوا کرتا ہے۔ آج کے ہمارے حکم ران بھی حلوے، پائے کے شوقین بادشاہوں کی طرح داخلی و خارجی صورت حال سے بے خبر اقتدا ر کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں، اقتدار کے نشے میں مست حکم ران ’’سب اچھا ہے‘‘ کہ مالا جھپتے نہیں تھکتے، یہ دشمن ملک سے دوستی کی راہیں تلاش کر نے کی ہر ممکن کو شش میں تو رہتے ہیں، مگر انہیں پاکستان زندہ باد کہتے ان نہتے کشمیریوں کی صدائیں سنائی نہیں دیتیں، جنہوں نے ہندوستانی فو ج کی موجودگی میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر بھارت کے ایوانوں میں ہلچل مچارکھی ہے اور پاکستان کی محبت میں روزانہ سیکڑوں جانیں قربان کررہے ہیں۔ ادھر بنگلہ دیش کی حکومت امریکا اور بھارت کی آشیرباد ہی سے 71 کی جنگ میں پاکستان کی حمایت کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنما ؤں کو چُن چُن کر پھانسیوں پر لٹکارہی ہے۔آج ہم سب پاکستانیوں کو امریکا، بھارت اور بنگلہ دیش ٹرائیکا کی بنائی گئی ملک دشمن اور مُسلم کش پالیسیوں کے خلاف میدان عمل میں آنا ہوگا۔
حکم رانوں کے بر عکس ہماری قوم کا جذبہ اس ملک کے ساتھ بڑا مضبوط ہے۔ رواں برس 14اگست پر قوم نے اربوں روپے کی خریداری کرکے ملک دشمنوں کو یہ پیغام دیا کہ پوری قوم پاکستان سے بے حد محبت کر تی ہے۔ وطن عزیز کو جب بھی ضرورت پڑی، قوم نے آگے بڑھ کر ملک کے لیے قربانیاں دیں، روزاوّل ہی سے قر بانیاں دینے والے عوام کا بھی حق ہے کہ ان کے لیے کچھ اس قسم کے اقدامات کیے جائیں، جن سے ان کے حالات کار میں بہتری آسکے ۔ ارباب اختیار کی جانب سے عوام کے لیے ایسے اقدامات اُٹھانے ہوں گے، جن سے قوم کا اعتبار حکم رانوں پر قائم رہ سکے، انہیں یہ یقین دلوانا ہوگا کہ جتنی محبت عوام پاکستان سے کرتے ہیں، اتنی ہی محبت حکم راں طبقہ بھی وطن سے کر تا ہے، خا ص طور پر اس بات کا بھی یقین دلوانا ہوگا کہ حکم راں اپنے وطن ہی میں رہیں گے، اپنے مفادات پر ضرب پڑتا دیکھ کرکبھی ’’ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ اور دشمن ملکوں سے دخل اندازی کی اپیل کرکے ’’غدارِ وطن‘‘ بننے کی ناپاک کوشش نہیں کریں گے۔ حکم رانوں کو ملک سے طبقاتی تفریق بھی ختم کرنا ہوگی، ان ماؤں کی آہ وپکار پر بھی کان دھرنا ہوں گے، جن کے لخت جگر انجانے جرم کی پاداش میں قتل کردیے گئے، حکم رانوں کو غیر ملکی آقاؤں کی خو ش نودی کی روش ہمیشہ کے لیے ختم کر نی ہوگی۔ یہود ونصاریٰ ہمارے کھلے دشمن ہیں، ان عیار دشمنوں کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے رستے پر عمل کرنا ہوگا، راہ خد ا پر چل کر ہی دہشت گردی اور لا قانونیت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے، فر ضی اجلاسوں کے بجائے عملی اقدامات اُٹھانے ہی سے ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور اگر حکم رانوں نے اپنی بے حسی نہ چھوڑی تو تاریخ گواہ ہے، پھر انقلابات کے طوفان آیا کرتے ہیں، جو ظلم وجبر کے معاشرے سے ساری خرافات بہا کر لے جاتے ہیں، پھر نہ حکومت بچتی ہے اور نہ حقِ حکم رانی۔ ایسے انقلاب ظالم و جابر حکومتوں کے تخت و تاج لپیٹ دیا کرتے ہیں۔۔۔تو اس سے پہلے، انقلاب دستک دے، معاشرے سے ناانصافیوں کا خاتمہ کرنا خو د حکم رانوں کے حق میں بہتر ہوگا، ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔