ارم فاطمہ
محمد عبداللہ آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ پڑھائی کے علاہ اسے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ مضمون نویسی اور تقریری مقابلے میں کئی انعامات جیت چکا تھا۔
ذوالحج کا مہینہ شروع و چکا تھا۔ عید قرباں کی آمد آمد تھی۔ عبداللہ روز اسکول جاتے ہوئے اور اسکول سے واپس آتے ہوئے اپنے ابو سے پوچھتا “ہم بکرا خریدنے کب جائیں گے”؟
رحمان صاحب اسے بہلاتے اور کہتے “ایک دو دن میں چلیں گے” وہ اس بات کو جانتے تھے جیسے ہی بکرا گھر میں آئے گا اسے کسی بات کا ہوش نہیں رہے گا اس لیے وہ چاہتے تھے عید سے دودن پہلے بکرا خریدیں مگر عبداللہ ضد کرنے لگا کہ جلد ہی بکرا لیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گذار سکے۔
پھر آج شام وہ ابو کے ساتھ بکرا منڈی گیا۔ بڑی مشکل سے اسے ایک بکرا پسند آیا بکرا بہت خوبصورت تھا پورا سفید اور کہیں کہیں بلیک رنگ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے عبداللہ بہت خوش تھا اسکول سے آنے کے بعد اس کا سارا وقت بکرے کے ساتھ گذرتا کبھی اسے چارہ کھلاتا کبھی پانی پلا رہا ہوتا تو کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ شام کو گراونڈ میں سیر کے لیے لے جاتا تھا۔ نہ اسے کھانے کا ہوش ہوتا نہ اسکول کے ہوم ورک کی فکر۔
دادا جان دیکھ رہے تھے انہیں پچھلے سال قربانی کا دن یاد تھا جب بکرے کو ذبح کرنے لے جا رہے تھے عبداللہ کیسے مچل رہا تھا کہ نہ لے کر جائیں اسے سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔
کل قربانی کا دن تھا۔ عبداللہ بکرے کو پیار کرتے ہوئے اداس ہو رہا تھا دادا جان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کمرے میں لے آئے اپنے ساتھ لٹاتے ہوئے کہنے لگے!
دادا جان: عبداللہ! کیا آپ جانتے ہیں مسلمان ہر سال قربانی کیوں کرتے ہیں؟
عبداللہ: جی دادا جان ہم یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یاد میں کرتے ہیں جو انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے کی دی تھی۔
دادا جان نے محبت سے اپنے ذہین پوتے کو دیکھا اور کہنے لگے “اور جسے اللہ نے ایک دنبے سے بدل دیا تھا۔
عبداللہ: جی دادا جان حضرت اسمعیل کی جگہ دبنہ کی قربانی ہوئی تھی۔
دادا جان: کیا آپ جانتے ہو حضرت ابراہیمؑ نے یہ قربانی کیوں دی؟ انہیں اپنے بیٹے سے محبت تھی پھر بھی وہ اللہ کی راہ میں اسے خوشی خوشی قربان کر رہے تھے عبداللہ کو خاموش دیکھ کر کہنے لگے “قربانی کا مقصد صرف اللہ کے حکم کو پورا کرنا نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو قربانی دی وہ اللہ کی محبت میں دی۔ وہ اللہ کے دوست تھے ان کا لقب “خلیل اللہ”
یعنی اللہ کا دوست تھا۔ جو اللہ سے سچی محبت کرتا ہے وہ اپنی عزیز سے عزیز چیز بھی اس کی راہ میں قربان کرتا ہے یہ افضل ترین عبادت ہے”
ایسے بندوں سے اللہ بھی محبت کرتا ہے تبھی اس نے جنت سے دنبہ بھیجا جو حضرت اسمٰعیلؑ کی جگہ قربان کیا گیا عبداللہ نے دادا جان کی طرف دیکھا وہ سمجھ چکا تھا کہ دادا جان اس سے یہ باتیں کیوں کر رہے تھے۔ یہ پہلی عید تھی جب اس نے قربانی کے مفہوم کو سمجھا تھا اور پورے دل وجان سے اللہ کی راہ میں قربانی کی اور اس کے حکم کو پورا کیا۔