(آٹھواں حصہ (قسط نمبر49
نجیب ایوبی13146لطان مراد خان نے کوسوو کے بیشتر علاقے پر سلطنتِ عثمانیہ کا سکہ جاری کردیا تھا، لیکن البانیہ کا علاقہ ابھی تک شورش زدہ تھا، جہاں عثمانی سلطنت کسی طور کامیاب نہیں ہو پارہی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کی جغرافیائی حالت تھی۔ پہاڑوں اور بلند ترین راستوں میں گھرا ہوا البانیہ عثمانی سلطنت کے لیے دردِ سر بنتا جارہا تھا۔ اگرچہ البانیہ کو ترکوں نے عرصہ پہلے ہی فتح کرکے صوبے کا درجہ دے دیا تھا، مگر اس صوبے کا انتظام قدیم فرماں روا خاندان کے ذمے ہی تھا، جو عثمانیوں کو جزیہ ادا کرتا تھا۔ اس کے بدلے میں والئ البانیہ جان کسٹرائٹ نے اپنے چار بیٹوں کو سلطان کی ینگ چری فوج میں داخلے کے لیے روانہ کیا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جان کسٹرائٹ کے تین چھوٹے بیٹے کسی بیماری میں مبتلا ہوکر وفات پاگئے، جس پر جان کسٹرائٹ سلطان کی طرف سے بدگمان ہوگیا کہ سلطان نے سازش کے تحت میرے لڑکوں کو مروایا ہے۔ اس بات کا سلطان کو بھی بے حد ملال تھا۔ چنانچہ اس نے زندہ بچ جانے والے لڑکے جارج کسٹرائٹ کو سلطانی محل میں اپنے زیر نگرانی رکھا اور بیٹوں کے ساتھ شاملِ پرورش کیا۔ اس کا اسلامی نام سکندر بیگ رکھا گیا، جو لارڈ سکندر بے کہلایا جاتا تھا۔ اس کی تربیت بھی شہزادوں کی طرح ہوتی رہی۔ جب سکندر بیگ اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچا تو اس کو مختلف اضلاع کا انتظام دیا گیا۔ اسی دوران جان کسٹرائٹ کا انتقال ہوگیا، مگر سلطان نے سکندر بیگ کو باپ کی جگہ فرماں روائے البانیہ مقرر نہیں کیا۔
سلطان کے دماغ میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ کبھی شہزادوں اور بیٹوں کی طرح پرورش پانے والا سکندر بیگ بھی سرکشی اور بغاوت پر آمادہ ہوسکتا ہے۔ سکندر بیگ کے دماغ میں بغاوت کا خناس تو اُس وقت ہی بھر چکا تھا جب جان ہنی ڈیزیا کے ہاتھوں پہلی بار ترک افواج کو شکست ہوئی تھی۔ اُس وقت رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاکر سکندر بیگ میر منشی کے خیمے میں جا پہنچا اور تلوار کے زور پر اس سے تحریر لکھوائی کہ ’’میں میر منشی سلطان مراد خان البانیہ کے صوبیدار کو لکھ کر دیتا ہوں کہ سکندر بیگ کو بطور وائسرائے قبول کیا جائے‘‘۔ اس مضمون پر سلطانی مہر لگوا کر سکندر بیگ نے میر منشی کو قتل کردیا اور جعلی حکم نامہ لے کر راتوں رات البانیہ کے پہاڑوں کی جانب نکل گیا۔
البانیہ کے صوبے دار نے شہزادہ سکندر بیگ کے ہاتھوں فراہم کی جانے والی تحریر اور مہرِ سلطانی دیکھتے ہی بلا کسی تامل کے البانیہ کی حکومت سکندر بیگ کے حوالے کردی۔
حکومت پر براجمان ہوتے ہی سکندر بیگ نے دینِ اسلام سے مرتد ہوکر عیسائی مذہب اختیار کرنے کا اعلان کیا، اور اس کے ساتھ ہی البانیہ میں ترکوں اور مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام شروع ہوگیا۔ ترکوں کے لیے البانیہ کی سرزمین تنگ کردی گئی۔
سلطان مراد خان کے انتقال تک سکندربیگ کی شورش کو دبایا نہیں جا سکا تھا۔ 855 ہجری میں سلطان مراد خان کے انتقال کے بعد محمد خان ثانی تخت نشین ہوا۔ (فاتح قسطنطنیہ) سلطان محمد خان، سلطان مراد کی زندگی میں دو مرتبہ تخت نشین رہ چکا تھا، مگر اس وقت وہ کم عمر اور ناتجربہ کار تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں تھا۔ شروع میں تو سلطان محمد خان ثانی نے سکندر بیگ سے معاہدہ کیا کہ وہ امن و امان برقرار رکھے اور جزیہ دے، اور ترکوں کا قتل عام روکے۔ مگر جب سکندر بیگ کی اکڑفوں برقرار رہی تو مجبور ہوکر سلطان محمد خان ثانی نے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ البانیہ پر چڑھائی کی اور البانیہ کو فتح کرکے مکمل طور سے عثمانی سلطنت میں داخل کیا۔ سکندر بیگ نے بھاگ کر وینس کے علاقے میں پناہ لی۔ 872 ہجری میں ترک سپاہیوں نے اس کی لاش کی باقیات وینس کے علاقے سے بازیاب کیں۔ قسطنطنیہ کی فتح کا احوال قارئین تاریخ خلافتِ عثمانیہ کی ابتدائی قسط میں تفصیل کے ساتھ پڑھ ہی چکے ہیں، لہٰذا اس واقعے کے بعد کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
بلغراد پر ترکوں کے حملے کی ناکامی اور سکندر بیگ کی بغاوتوں کے سبب فاتح قسطنطنیہ کے طور پر سلطان کا رعب و دبدبہ جو قائم تھا بظاہر کمزور ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ چنانچہ وینس والوں نے جو معاہدہ کیا تھا اس سے روگردانی کی خبریں آنا شروع ہوچکی تھیں۔ سلطان نے اس فتنے کی سرکوبی ضروری سمجھی اور سمندر کی حدود کے ساتھ ساتھ وینس کے بہت سے علاقے فتح کے، اور بہت سے شہروں کو عثمانی سلطنت میں شامل کیا۔
878 ہجری میں سلطان محمد خان فاتح نے اپنے سپہ سالار احمد قیودوق کو وزیراعظم بنایا اور خود بحیرۂ یونان کے جزیروں کی جانب جا نکلا۔ حالانکہ ایران کا بادشاہ حسن طویل ترکمان بھی اپنی فوجیں عثمانیوں کے خلاف تیار کررہا تھا، مگر سلطان نے چاہا کہ مسلمان قوت آپس میں نہ ہی الجھے تو بہتر ہے۔ اس لیے اس کی تمام تر توجہ اٹلی کی جانب مرکوز رہی۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ دائیں بائیں کی سازشوں سے بے خبر تھا۔ حادثۂ بلغراد سے سبق لیتے ہوتے سلطان فاتح نے دریائے ڈینوب کے شمالی صوبوں پر قبضے کو مزید مستحکم کیا۔
اسی دوران اللہ نے سلطان فاتح کے مقدر میں ایک اور بہت بڑی نصرت کا سامان ڈال دیا تھا۔ تفصیل اس فتح کی یہ ہے کہ 879 ہجری میں سلطان نے فتح کریمیا کے بعد اپنا وزیراعظم احمد قیودوق کو مقرر کرتے ہوئے بحر اسود کے محاذ پر روانہ کیا۔ کریمیا جو عرصۂ دراز سے چنگیزی قبائل کے خوانین کی حکومت میں چل رہا تھا، جینوا کے عیسائیوں کے حملے کی زد میں آگیا۔ جینوا والوں نے ان کے جزائر پر قبضہ کرلیا۔ خان کریمیا نے سلطان کو خط لکھا کہ ہمیں جینوا والوں کے ستم سے نجات دلاؤ اور اپنی سرپرستی میں لے لو۔ چنانچہ سلطان فاتح نے احمد قیودوق کی سالاری میں چالیس ہزار کا لشکر روانہ کیا اور چار دن کے محاصرے کے بعد علاقہ یافہ فتح کیا اور جینوا والوں کی متعین افواج کو گرفتار کرلیا۔ یافہ شہر سے بے شمار مالِ غنیمت احمد قیودوق کے ہاتھ لگا جن میں بڑے جنگی جہاز اور سامانِ حرب بھی شامل تھا۔ اس فتح کے ساتھ ہی خان کریمیا نے عثمانیوں کی اطاعت قبول کرلی اور تین سو سال خوانینِ کریمیا سلطنتِ عثمانیہ کے وفادار رہے۔ یافہ شہر کی بندرگاہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سب سے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اسی سال یعنی 878 ہجری کو روس میں زارِ روس کا خاندان برسراقتدار آیا تھا۔
کریمیا، شہر یافہ اور بندرگاہ عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے تو ایران کی حکومت کو سب سے زیادہ پریشانی لاحق ہوئی۔ چنانچہ بادشاہ حسن طویل نے عثمانیوں کے خلاف سازشوں کا جال تیار کرنا شروع کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب عثمانی سلطنت شام سے لے کر بحیرہ ایڈریاٹک تک اپنے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ 885 ہجری میں سلطان نے روڈرس کی عیسائی سلطنت پر حملے کے لیے ایک مہم روانہ کی مگر اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی مہم کے ناکام ہوتے ہی سلطان نے تجربہ کار جرنیل کی سربراہی میں تابڑتوڑ دوسری بحری مہم روانہ کی، روڈرس والوں کو اتنی جلدی دوسری مہم کا شائبہ تک نہیں تھا۔ مگر اچانک بحری جہاز ان کے ساحلوں پر لنگرانداز دکھائی دیئے۔ روڈرس جزیرے پر عثمانی فوج کا قبضہ ہوچکا تھا۔
ایسے موقع پر جب فوج روایتی لوٹ مار میں مصروف ہونا چاہتی تھی، کمانڈر نے رتی بھر کی لوٹ مار سے بھی ہاتھ روکنے کا حکم دیا جس سے فوج میں بددلی پھیلی اور خدمات انجام دینے سے پہلوتہی برتی جانے لگی۔ فوج اور سپہ سالار کی ناچاقی سے یہ کامیاب مہم بھی ناکام ہوگئی اور فوج کو جزیرہ چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔ روڈرس ایک بار پھر بچ گیا۔
سلطان کی عجیب و غریب حکمت عملی دیکھیے کہ ایک جانب پے درپے روڈرس پر مہم بھیج رہا تھا، دوسری طرف خاموشی کے ساتھ احمد قیودوق فاتح کریمیا کے ہمراہ ایک بڑا فوجی لشکر اٹلی کے جنوب میں روانہ کردیا۔ چنانچہ احمد قیودوق نے اٹلی کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتے ہی بے شمار جزائر کو قبضے میں لینا شروع کردیا۔ اٹلی کے باب الفتح شہر آرٹینٹو کا محاصرہ کرلیا گیا۔ شہر آرٹینٹو کے فتح ہونے کا مطلب تھا کہ اٹلی پر مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہوجاتا۔ 885 ہجری بمطابق 1480 عیسوی 11 اگست کو احمد قیودوق کی سربراہی میں عثمانی فوج نے شہر آرٹینٹو کو مکمل طور پر فتح کرلیا اور بیس ہزار سے زیادہ فوجی گرفتار کرکے تہہ تیغ کرڈالے۔ پورا اٹلی خوف سے کانپ اٹھا۔ روم کا پوپ بوریا بستر لپیٹ کر بھاگنے کی تیاری کرنے لگا۔
ادھر سلطان کو جب روڈرس کی دوسری مہم کی ناکامی کا احوال معلوم ہوا تو اس نے تازہ دم لشکر کو تیاری کا حکم صادر کیا۔ اب سلطان فاتح کے سامنے بایزید یلدرم کا یہ خواب تھا کہ عثمانی سلطان شہر روما میں داخل ہوکر اپنے گھوڑے کو بڑے گرجا گھر میں دانہ کھلائے۔
سلطان فاتح نے اس ہنگام کے ساتھ جنگی تیاریاں کیں کہ عیسائیوں کی بچی کھچی سلطنتوں میں کہرام مچ گیا۔ سلطان نے آبنائے باسفورس کے ساتھ ساتھ جنگی عَلم لہرا دئیے جو اس بات کی علامت تھے کہ سلطان فاتح کے ارادے بہت خطرناک ہیں۔
سلطان کے سامنے بیک وقت تین بڑی مہمات تھیں۔ ایک ایران کے بادشاہ شاہ حسن طویل کو سبق سکھانا، کہ اس نے شہزادہ بایزید کے مقابلے میں چھیڑخانی اور لڑائی شروع کی تھی، دوسرے جزیرہ روڈرس کو فتح کرنا، اور تیسرے اٹلی کو مکمل طور پر فتح کرکے شہر روم میں فاتحانہ داخل ہونا۔
سلطان کے ارادے کیا تھے؟ اس بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ تھی۔ سلطان جنگی ضروریات کے مطابق سامان جمع کررہا تھا۔ افواج سلطنت کے چپے چپے سے قسطنطنیہ پہنچ رہی تھیں۔ تیاری اس قدر غیر معمولی تھی کہ ظاہر تو یہی ہوتا تھا کہ براعظم یورپ اور براعظم ایشیا میں عثمانیوں کی فتوحات کا سلسلہ دراز ہونے جارہا ہے۔ ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ لشکر کی روانگی کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا، قیافہ شناس اندازے لگا رہے تھے کہ سلطان سب سے پہلے شاہ ایران کو سبق سکھا کر روڈرس کی جانب جائے گا۔ پھر اٹلی میں داخل ہوگا۔ یہاں احمد قیودوق سلطان کا شہرآرٹینٹو میں منتظر تھا۔ قسطنطنیہ سے افواج کو کوچ کا حکم مل چکا تھا۔
مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فوج کے روانہ ہوتے ہی سلطان پر ایک جان لیوا بیماری کا حملہ ہوا۔ 886 ہجری بمطابق 3 مئی 1481 عیسوی کو سلطان محمد فاتح کو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا حکم نامہ مل گیا۔ اور یوں یہ عظیم الشان جنگی مہم ملتوی ہوگئی۔ سلطان فاتح کی تدفین قسطنطنیہ میں کی گئی۔ سلطان محمد فاتح نے 53 سال کی عمر پائی اور تقریباً 31 سال حکمرانی کی۔
(جاری ہے )