رستے خون سے آبیاری۔۔۔

77

سمعیہ لیاقت

کشمیر ایک جنتِ نظر وادی جسے رب تعالیٰ نے بے انتہا ثمرات کے ساتھ خوب صورت مکین بھی بنا دیے۔۔۔ کشمیر کی 95 فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن اس جنت نظیر وادی کے معصوم اور نہتے لوگ عرصہ 7 دہائیوں سے غلامی کے طوق میں جکڑے ہوئے غاصب ہندو سورماؤں کے زیر تسلط کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔۔۔ آزاد فضاؤں میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ کشمیریوں کے دن رات گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں گزرتے ہیں۔۔۔ کشمیری عورتوں کی دل فگار داستان دل ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ بی بی سی پر گفتگو کرتے ہوئے معصوم بچے وامق فاروق کی والدہ روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میرا بیٹا تیسری جماعت کا طالب علم تھا‘ اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں تھا وہ کوئی جگنجو مجاہد نہیں تھا پھر بھی اسے بھارتی فورسز نے گولیاں مار کر شہید کر دیا اس کی شہادت کے بعد پتا چلا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ اور غلامی کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ اگر ہم آزاد ہوتے تو میرا بیٹا کبھی قتل نہ ہوتا ہم اور کچھ نہیں مانگتے بس ہمیں آزادی دے دو۔۔۔
مقبوضہ کشمیر کی یہ ماں آج پریشان ہے‘ بیٹے کے غم میں نڈھال ہے۔۔۔ اس کی دنیا ہی ویران ہوگئی ہے بھارت کے ساتھ نفرت اور پاکستان کے ساتھ محبت جیسا جذبہ فطری طور پر کشمیری عوام مرد و خواتین اور بچوں میں پیدا ہوتا ہے وہ اس ظالم سامراج کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اسلحہ نہیں تو انہیں پتھر اٹھا کر مارتے ہیں کشمیری عوام پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کلمہ ایک‘ ہمارا قرآن ایک اور ہمارا رسولؐ ایک ہے اور یہ بات ہندوؤں کو آگ لگا دیتی ہے جب تحریک آزادی کے لیڈر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہندو پورے کا پورا سلگ کر رہ جاتا ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کا لیڈر جب کہتا ہے کہ پاکستان ہمارا ہے‘ ہم پاکستان کے ہیں۔۔۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جب مسرت عالم کی دلی وابستی اور جذبے کا اظہار اسے پاکستان زندہ باد کہنے پر مجبور کر دیتا ہے اور کشمیری عوام بھی اس کا ساتھ دے تو اسے قید کرلیا جاتا ہے کشمیری عوام کے ساتھ مائیں اور بہنیں بھی اس تحریکِ آزادی میں بھرپور شریک ہیں۔ محترمہ آسیہ اندرابی کی سرپرستی میں وہ پاکستان کا جھنڈا علی الاعلان لہراتی ہیں اس کے نتیجے میں انہیں جیل کاٹنی پڑی لیکن تحریک آزادی کو دبایا نہ جاسکا۔ اب تحریک آزادی کشمیر کو جس نے جلا بخشی وہ حزب المجاہدین کا کم عمر نوجوان کمانڈر مظفر برہانی وانی ہے اس شیر دلِ نوجوان نے جدوجہد آزادی کو میڈیا کے ذریعے ایک نئی جہت عطا کی۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں اس کے بڑی بھائی کی شہادت نے اسے حیرت انگیز طور پر مسلح تحریک میں شامل کردیا پھر اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہندوؤں کے مظالم پوری دنیا تک پہنچائے اور کشمیری نوجوانوں کو ابھارا۔ عید کے دوسرے دن مظفر وانی کو محاصرے میں لے لیا اور اس کے دو ساتھی بھی ساتھ تھے۔ برہان نے انہیں نکالنا چاہا تو وہ نہ مانے انہوں نے یہ عہد کیا کہ ہم جنت میں اکٹھے ملیں گے۔ برہان مظفر وانی کو شہید کرنا مہنگا پڑ گیا۔ برہان کی والدہ ہاتھ میں اپنے دو بیٹوں کی تصویر لیے کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ہر گھر سے برہان نکلے گا تم کتنے برہان مارو گے۔
جس قوم کی ماں کا یہ جذبہ ہو اس کو کوئی ظالم‘ کافر‘ غاصب اور جابر دبا نہیں سکتا۔ عورت نے تختی اٹھا رکھی تھی جس پر درج تھا ’’موت یا آزادی۔۔۔ بھارتیو! واپس دفع ہو جاؤ‘‘ نعرے بھی لگ رہے تھے اور دیواروں پر بھی لکھا جارہاتھا پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے بھی تحریک آزادی کشمیر کے نعرے نے ہندو سامراج اور سورماؤں کی جلتی پر تیل کا کام دیا اللہ اللہ۔۔۔! کشمیر کے دلیر اور بہادر لوگوں نے بھارت اور بی جے پی کے متعصب ہندو بنیے سے کس قدر ناتا توڑا ہے عقل حیران ہوتی ہے کہ آٹھ لاکھ ظالم ہندو فوج کی موجودگی میں اہل جمِوں کشمیر نے عید ہندوستان کے ساتھ نہیں منائی بلکہ اس رویت ہلال کو مانا جس کا اعلان مفتی منیب الرحمن نے کیا۔۔۔ جی ہاں انہوں نے عید پاکستان کے ساتھ منائی۔۔۔ اہل پاکستان سے منائی پاکستان کا ٹائم ہندوستان کے ٹائم سے آدھا گھنٹہ پیچھے ہے۔ اہل کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ اپنے ٹائم کا ناتا بھی توڑ لیا اور ٹائم کو 30 منٹ پیچھے کرکے پاکستان اور اہل پاکستان سے ناتا جوڑ لیا۔ پوری وادی میں اہل کشمیر نے پاکستان کا پرچم لہرا کر پاکستان سے ناتا جوڑا۔۔۔ اور 15 اگست کو یوم سیاہ منا کر ہندوستان کے ساتھ ناتا توڑا۔۔۔ صرف وادئ کشمیر میں ہی ایسا نہیں ہوا بلکہ پورے ہندوستان میں زیر تعلیم طلبہ نے اس ناتے کو جوڑنے کا عملی مظاہرہ کیا اور اس کے نتیجے میں ان کی ہڈیوں کو توڑا گیا۔۔۔ ٹانگوں اور بازوؤں کو مروڑا گیا کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکالا گیا مگ ران کے طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔
بقول سید علی گیلانی ’’ہم سب پاکستانی ہیں۔۔۔ پاکستان ہمارا ہے۔۔۔‘‘ کہ انہوں نے اپنا ناتا انتہائی مضبوطی سے پاکستان کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ برہان وانی کی میت کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا ہے یہ پیغام ہے کشمیری عوام کا پاکستان اور پوری دنیا کہ کہ زندگی میں بھی ان کا ناتا جڑا ہوا ہے اور موت ؒ پر بھی۔۔۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر آہنی و مضبوط عزائم کی حامل قوم کو ان کے حقِ خود ارادیت سے آخر کب تک روکا جاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی کانگریس کے صدر ’’لوک سبھا‘‘ میں بیان دینے پر مجبور ہوگیا کہ کشمیریوں کو انکا حقِ رائے شماری دینا ہوگا مگر بیان دینے پر جب بی جے پی کا دباؤ آیا تو کانگریس کا صدر مکر گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ششمتا سوراج جتنا مرضی شور مچاتی رہیں کہ یہ حق قیامت تک نہیں دیا جائے گا‘ انہیں یہ حق بہر حال دینا پڑے گا اور کشمیریوں کی قیامت جیسی تحریکوں کے سامنے آخر کار جھکنا پڑے گا کیونکہ ہمیشہ آبیاری چمن رستے خون سے کی جاتی ہے اور یہ خون وہ خون ہے جو آزادئ کشمیر کی راہوں میں رائیگاں نہیں جائے گا۔۔۔ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے مسئلے پر چار جنگیں ہوچکی ہیں ہم پانچویں جنگ نہیں چاہتے لیکن بھارت کشمیریوں کو حق نہ دے گا تو یہ جنگ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی وقت چھڑ سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت ہیں ہم ایٹمی اسلحہ چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اب جنگ ہوئی تو زور دار ہوگی۔ بھارت میں بی جے پی جیسی ہندتوا کی علمبردار حکومت ہے تو پاکستان کے عوام میں بھی کشمیریوں کا ساتھ دینے کا عملی جذبہ اور تجربہ موجود ہے۔ فوجوں کے ساتھ اتھ یہ بھی ٹکرائے تو یہ بات ایٹمی جنگ جاسکتی ہے اور اللہ نہ کرے یہ نوبت آگئی تو صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو اس کے بدترین نتائج بھگتنا ہوں گے چنانچہ دنیا کا ہر فرد آگے بڑھ کر حق و انصاف پر مبنی کشمیریوں کے حق رائے دہی کا ساتھ دے۔ چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے مگر کشمیر کے مسئلے پر دونوں مک دنیا کو باور کرائیں خاص طور پر چین دنیا کو بتائے اور باور کرائے کہ میرے دو پڑوسی ملک‘ جو ایٹمی قوتیں ہیں‘ اگر یہ ٹکراتے ہیں تو چین اس ٹکر کے مضمرات سے متاثر ہوگا لہٰذا مسئلہ کشمیر کا ہم فوری حل چاہتے ہیں بدلے میں بھارت کو پاک چین اقتصادی کوریڈور سے منسلک کرتے ہیں اور اس سے بھارت کی معاشی حالت کو پَر لگ جائیں گے یوں جنوبی ایشیا امن کا گہوار بن جائے گا۔ مسلم لیگ جنگی بنیادوں پر مسئلہ کشمیر کو اپنی پہلی ترجیح بنائے مسئلہ حل ہوجائے گا۔