!سفر ابھی تک تھما نہیں ہے۔۔۔۔

138

ربیعہ محمود بٹ

’’ماں ٹھنڈی چھاں ہوندی اے پتر! اودا رُس نہ مول لئیں۔‘‘ (ماں ٹھنڈی چھاؤں ہے اس کی ناراضی نہ مول لینا بیٹے!) ابا حسب معمول من موجی رنگ میں مجھے نصیحت کر رہے تھے جسے میں نے بھی عادتاً ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔ فجر کی نماز کے بعد جیسے ہی اوپر صحن میں چڑیوں کی چہچہاہٹ گونجتی اماں رات کی بچی روٹی اور پانی کو مٹی کی کنالیوں میں ڈال کر صحن کی دیوار پر رکھ دیتیں جب میں اس چوں چوں سے چڑ کر چیختا تو چڑیاں بے چاری ڈر کر اُڑ جاتیں اور اماں مجھے کوسنا شروع ہوجاتیں کہ کیوں بے زبان دماغ بھی چاٹیں اور اگر ان کو بھگا دیا جائے تو بد دعائیں بھی ہمیں ملیں۔ لیکن اماں کے کوسنے کے آگے کون بولنے کی جرأت کرسکتا ہے۔ سو میں بھی کان لپیٹے پڑا رہتا۔ ساتھ ہی ابا کا نصیحت نامہ بھی شروع ہوجاتا کہ ’’پتر جنت نوں ناراض نہ کر بیٹھیں۔‘‘ (بیٹے جنت کو ناراض نہ کر دینا) جب کبھی میری برداشت سے باہر ہوتا تو وہاں سے کھسکنے ہی میں عافیت جانتا۔
۔۔۔*۔۔۔
جانتا تھا کہ ماں اپنے گھبرو پتر کی راہ تک رہی ہوگی اور گھڑی کی چلتی سوئیاں اس کے اندیشوں میں اضافہ کر رہی ہوں گی جب اندر داخل ہوتا تو ماں کہتی صبح کا بھولا اگر رات کو گھر لوٹے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ ابا جیسے ہی نصیحت کے لیے منہ کھولتا اماں اسے چپ کرا دیتی اور کہتی ’’وے منصور حارٹ اتنی دیر سے لوٹا ہے تو اسے کچھ کھا پی تو لینے دے فیر بے شک ڈپٹیں۔‘‘
پتا نہیں ماں کو کیا تھا کہ ہر صبح کا آغاز میرا موڈ خراب کرکے کرتی۔ ماں میری بات سمجھتی ہی نہ تھی کہ باہر کی دنیا کتنی رنگین ہے۔ ہر جگہ اس کی دقیانوسی سوچ تو نہ چلے گی۔
اماں کو میرے فارغ رہنے پر بھی اعتراض تھا۔ کہتی ’’پتر ہتھ وچ ہنر ہو تو بڑی مانگ بے ہنرے کی کوئی وقعت نہیں ہے اس دنیا میں۔۔۔ اپنی ڈگریوں کو کامیابی نہ سمجھ کچھ ہتھ پیر وی ہلا لے۔۔۔ ان نمانی ڈگریوں نے تیرے پیٹ کے دوزخ کو نہیں بھرنا کوشش کرے گا تو ملازمت ملے گی۔۔۔‘‘ اب بھلا میری بھولی ماں کو کون سمجھاتا کہ ان کا پی ایچ ڈی پتر ان دو ٹکے کی نوکریوں کے لیے ہاتھ پاؤں مارے گا جو آئے دن ضرورت ملازمت کے نام سے چھاپی جاتی ہے‘ ان کے بادشاہ پتر کو تو اپنی جیسی نوکری چاہیے تھی جو کوئی دینے کو تیار نہ تھا۔
۔۔۔*۔۔۔
یاروں کی دنیا کا حسین موسم ہر لمحہ مہکتا گلاب ہے‘ جو غل غپاڑی ہم مل کر مچاتے اگر ابا کو اس کی بھنک بھی پڑ جاتی تو میری ٹانگیں توڑ دیتا۔ دنیا کی رنگینی کو کالا سانپ سمجھنے والے ابا کی سمجھ میں شہر کی آزاد زندگی کیسے سما سکتی تھی۔
ابا کبھی کبھی بڑا فلسفی ہوجاتا۔۔۔ کبھی کہتا ’’پتر اپنے ذات کے موتی کو بے حیائی کے پانی سے گدلا نہ کر ورنہ ایمان کی سیپی بند ہو جائے گی اور تجھ سے کبھی نہ کھلے گی۔‘‘ معلوم نہیں ابا کو کیا روگ تھا جو کبھی اس کے گاؤں (بیگھو والا) کے بارے میں زبان پھسل جاتی تو ابا بڑا سیخ پا ہوتا۔ مٹی کو بڑے جذبے سے اٹھا کر کہتا ’’یہ مٹی خونِ شہیداں سے سینچی گئی ہے پتر! اس ملک کی سرزمین کے ذرّے ذرّے کا تو مقروض ہے۔ اب تو خود سوچ تجھے یہ قرض کیسے چکانا ہے۔۔۔ پتر آزادی کو دیوانے کا خوب یا غالب کا دیوان نہ سمجھ یہ تو عبادت ہے جو دین کے لیے ہم نے کی تھی۔ یہ اسلام کا تخم تھا جو ہم نے بویا تھا اور اس کو بار آور ہماری نسلوں نے کرنا تھا۔۔۔ آہ! تیرے عزائم دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھتا ہے۔۔۔ تو مجھے انگریز کا توتا لگتا ہے جسے جو کچھ رٹوایا جاتا ہے وہ بس وہی بول سکتا ہے۔۔۔ تیری سمجھ پر میڈیا کا پردہ ہے پتر! کبھی اس کو اتار کر مردِ مومن بن کر بھی سوچ۔۔۔‘‘
ابا بولتا رہتا اور ایسے میں تو اماں بھی ابا کو چپ نہ کراتی لیکن میں کیا کرتا۔ اماں‘ ابا کے لیے اپنے حسین خوابوں کو نوچ تو نہ سکتا تھا لیکن ابا مجھے کنویں کا مینڈک بنانے پر راضی تھا‘ پاکستان سے باہر نکلنے کا سوچنا بھی ابا کے لیے حرام تھا۔
۔۔۔*۔۔۔
جب لاہور میں میری نوکری پکی ہوئی تو اماں بڑی خوش تھی‘ میرے لیے بیگھو والاسے لاہور تک کا سفر کالج کی دی ہوئی گاڑی میں کرنا بڑا حسین تھا اور کالج رتو مجھے بقع نور محسوس ہوتا تچا جہاں کہیں ڈیسنٹ لڑکے دکھائی دیتے تو کہیں رنگ برنگی تتلیاں چلتی پھرتی نظر آتیں جب کہ میرے ابا کو کالج بھی فحاشی کا اڈا لگتا تھا۔
ایک دفعہ ابا کو کالج ساتھ لا کر جو سبکی میں نے اٹھائی تو دوبارہ لانے سے توبہ کی۔ میری فیورٹ اسٹوڈنٹ نے جب مجھ سے بڑی محبت سے پوچھا ’’ایکسکیوز می سر! یہ آپ کے گرینڈ پا ہیں۔۔۔؟‘‘ تو ابا نے اسے ایسی کڑی نظروں سے گھورا کہ بے چاری کا سانس خشک ہوگیا۔ پھر اتنی ہی کڑے تیوروں سے پوچھا ’’بیٹی! تم پاکستان میں رہتی ہوں ناں۔۔۔‘‘ تو وہ گڑبڑا کر بولی ’’جی۔۔۔‘‘ پھر ابا بڑی نرمی سے مخاطب ہوئے ’’بیٹی اپنی زبان اپنا رنگ ہوتی ہے جب اپنا رنگ اتر جائے تو زنگ بڑی جلدی لگ جاتا ہے۔‘‘
میری اسٹوڈنٹ تو ’’سوری‘‘ کہہ کر وہاں سے الٹے پاؤں واپس بھاگی لیکن اتنا ضرور ہوا کہ بریک تک پورے کالج میں یہ ضرور مشہور ہوگیا کہ سر حارث کے فادر ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ ہیں۔
اس کے بعد میں ابا سے ایسا ناراض ہوا کہ لاہور ہی میں رہائش اختیار کرلی اور پھر کبھی بھول کر بھی بیگھو والا کا رخ نہ کیا۔۔۔ البتہ ماں سے ہر جمعہ کو فون پر بات کرلیتا پر ابا کا ذکر کبھی نہ کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
پچھلے جمعے کو اماں نے بات کی تو بڑی آس سے کہنے لگیں ’’مجھے اپنا مکھڑا تو دکھا جا‘ اب تو زندگی کی بتی کا بھی کوئی اعتبار نہیں رہا۔ تیرا ابا تجھے بڑا یاد کرتا ہے۔۔۔ یہ لے اپنے ابا سے بھی بات کرلے۔۔۔ تیری آواز سننے کو ترستا ہے وہ۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ اماں کچھ اور کہہ کر مجھے غصہ دلاتیں میں بولا ’’اماں مجھ سے بات کرنی ہے تو ابا کا ذکر مت کر۔۔۔‘‘ یہ سن کر اماں بے چاری فوراً چپ کر گئی۔۔۔ میں نے فون کھڑاک سے بند کر دیا پر میرا دل بڑا مضطرب رہا‘ ابا کی باتیں بڑی شدت سے یاد آرہی تھیں‘ جب سے میں ابا سے ناراض ہوا تھا‘ ابا نے خود مجھے ایک فون نہ کیا اگر ابا مجھے ایک دفعہ بھی خود فون کرتا تو میں فوراً ابا کے پاس چلا جاتا‘ فون بیل کی آواز نے مجھے سوچوں کے گرداب سے نکالا کبھی دل کی خواہش یوں بھی پوری ہوتی ہے فون اٹھایا تو دوسری طرف ابا تھا۔۔۔ لیکن ابا کی آواز تو آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔
’’کیا ہوا ابا۔۔۔؟‘‘ میرے دل کو فوراً کسی نے مٹھی میں لے لیا۔
’’پتر تیری ماں ہم سے روٹھ گئی ہے‘ تو نے اس کی آنکھوں کو انتظار میں پتھر کردیا ہے۔۔۔ اب وہاں وصل کی رمق باقی نہیں رہی۔‘‘
جب میں بھیگو والا اپنے دروازے کے آگے پہنچا تو مجھے وقت کی سوئیاں رکتی محسوس ہوئی۔ کسی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا نہ کسی نے’’میرا پتر آگیا‘‘ کی صدا لگائی۔ ماں کو لحد میں اتارتے ہوئے میرا دل خون خون ہو رہا تھا‘ شام کو ماں کی قبر پر بیٹھ کر میں ایسا رویا کہ میری چیخوں نے قبرستان کے پرندوں کو اڑا ڈالا۔ ابا میرے کندھے پر ہاتھ کر بولا ’’پتر اب تیرا ماتم اگر مردوں کو بھی رلا دے تو کافی نہ ہوگا۔۔۔ تو نے جنت کو خود ٹھوکر ماری ہے‘ بدبختی کو تیرا رونا ختم نہ کرسکے گا۔‘‘
اس رات جب میں مسجد میں داخل ہوا تو مولوی صاحب نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی‘ تو میں بولا ’’مولوی جی! میری بدبختی آپ کی دعاؤں سے نہ دھل سکے گی۔‘‘ تو مولوی صاحب مبہم سا مسکرا کر بولے ’’حارث بیٹا! رب بڑا غفور اور رحیم ہے وہ پوری زندگی گناہوں میں ڈوبے شخص کو توبہ کرنے پر مغفرت سے نواز دیتا ہے تم اس کی چوکھٹ پکڑو اور زندگی میں کبھی نہ چھوڑنا۔۔۔ میں تمہارے لیے دعا گو رہوں گا۔‘‘
مولوی صاحب کا ایک ایک لفظ میری نارسائی پر امرت بن کر ٹپک رہا تھا‘ مسجد سے واپسی پر جب گھر پہنچا تو ابا کو تاروں بھرے آسمان کے نیچے ٹھنڈے فرش پر لیٹے پایا۔ ابا کی آنکھوں سے جھلکتی میرے دل کے کواڑوں کو چیر گئی۔۔۔ میں بے چین ہو کر ابا کی طرف آیا اور ان کا سر اپنی گود میں لے لیا۔ ابا نے صرف ایک نظر مجھے دیکھا پھر آنکھیں موند لیں اور بڑے کرب سے کہنے لگے ’’حارث پتر! تیری ماں نے ایک خواب بُنا تھا‘ جو کبھی تعبیر نہ بن سکا‘ اس جنت مکانی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی اولاد کا خمیر دین و وطن کی محبت سے گوندھے اور اپنے حصے کا چراغ اپنی اولاد کی صورت میں روشن کرے لیکن تمہاری نافرمانی نے اسے توڑ ڈالا اور وہ اپنی حسرت اپنے ساتھ لیے مٹی کے نیچے چلی گئی لیکن اس نے جانے سے پہلے مجھ سے کہا کہ حارث جب کبھی میرے بعد لوٹے تو کہنا کہ تیری ماں تجھ سے راضی تھی‘ لیکن جس زمین نے اس کو پروان چڑھایا اس کا قرض اسے لوٹانا ہوگا۔‘‘
ابا کی بات سن کر میرے دل میں درد کی لہروں کے مدوجزر اٹھنے لگے‘ ایسے میں مولوی صاحب کی بات نے دماغ پر دستک دی کہ ’’رب کی چوکھٹ پکڑو اور کبھی نہ چھوڑنا۔‘‘
تو دل نے کہا اس سے پہلے کہ سانس کی ڈوڑی کا سرا ہاتھ سے چھوٹے‘ سچے عاشق کی داستان رقم کر جانا۔
اپنے آفس میں بیٹھا میں سوچ رہا ہوں کہ آج جب ابا نے روضۃ الصالحین کا افتتاح کیا تو ان کی آنکھوں سے چھلکنے والی خوشی کے سامنے فانوس اکبر کی روشنی بھی ماند تھی اور ابا نے کتنی محبت سے میرا ہاتھ تھام کر مجھے دعا دی کہ ’’بیٹا آج تم نے اس اسکول کے ذریعے یتیموں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی جو بنیاد ڈالی ہے ان شاء اللہ ل ایک مضبوط عمارت کی شکل اختیار کرے گی۔‘‘ ابا کی دعا یاد آنے پر مین نے بے اختیار آمین کہا اور اپنی آنکھیں موند لیں۔ باہر سنیاسی بڑے جذب سے گاتا جارہا تھا:
تم رستوں پہ چراغاں کیے ہی جانا
سفر ابھی تک تھما نہیں ہے