کہانی بقر عید کی۔۔۔

531

محمد عمر احمد خان

اُسامہ، ارقم انس، احمر، یاسر، حسّان، عمّار سب ڈرائنگ روم میں محوِگفتگو تھے۔ موضوع تھا کہ ہم اپنے جانور کی کس طرح زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے اللہ کی خوش نودی حاصل کریں۔۔۔ ابھی بحث ومباحثہ جاری تھا کہ خاور انکل ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ سب نے باآوازِ بُلند انہیں سلام کیا۔ سلام کا جواب دینے کے بعد خاور انکل صوفے پر بیٹھ گئے اور بچوں سے پوچھنے لگے:
بھئی تم لوگ کس بات پر لڑرہے تھے؟
اُسامہ نے مسکراتے ہوئے کہا: خاور انکل آپ غلط سمجھے، ہم لڑنہیں رہے، بلکہ قربانی کے جانور کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کی تراکیب پر بات کررہے تھے۔
خاور انکل یہ سُن کر بولے:
ارے، کیوں اتنے ہلکان ہوتے ہو، جانور تو اللہ کا مہمان ہے، جس نے اس کی معمولی سی بھی خدمت کرلی، بس اس نے اپنے اللہ کو خوش کردیا۔
پیارے انکل، عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے، کیا آپ ہمیں اس کے بارے میں اہم باتوں سے آگاہ کریں گے؟ حدیقہ اور سمیّہ نے ایک آواز ہوکر کہا تو خاور انکل نے کہا:
ہاں بھئی، آپ سب بچوں کی آگاہی کے لیے کچھ نہ کچھ تو بتانا پڑے گا۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئے، جیسے لفظوں کی کڑیاں جوڑ رہے ہوں۔ تمام بچے ان کے اردگرد پروانوں کی طرح جمع ہوگئے تھے اور ان کی گفتگو سُننے کے لیے ہر ایک بے چین نظر آرہا تھا۔ خاور انکل ہر موضوع کے حوالے سے دل چسپ معلومات رکھتے تھے پھر ان کے بتانے کا انداز نہایت سادہ اور عام فہم ہوتا تھا۔
خاور انکل نے بات شروع کرنے سے پہلے گلا کھنکھارا پھر گفتگو کا آغاز اس طرح کیا:
پیارے بچّو! بقر عید کو عیدِ قرباں، بڑی عید اور قربانی کی عید بھی کہاجاتا ہے۔ ہم ہر بقرعید پر اونٹ،گائے، بچھڑے، مینڈھے بیل اور بکرے اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ بچے قربانی کے جانوروں سے بڑی محبت کرتے ہیں، محبت ہونی بھی چاہیے، کیوں کہ قربانی کا جانور اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ بچے بڑے ذوق وشوق سے جانوروں کی خدمت کرتے ہیں، انہیں کھلانا، پلانا اور سیر کروانے کے لیے ہر بچہ پیش پیش رہتا ہے، لیکن بچوں کو ان جانوروں کے بہت قریب جانے سے احتیاط برتنی چاہیے، کیوں کہ جب جانور منڈی سے نیا نیا آتا ہے تو انجان لوگوں میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، وہ گھبرایا ہوا ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کو قریب پاکر خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی اچانک قریب چلا جائے تو ٹکر مارکر اسے زخمی بھی کرسکتا ہے۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے پیار ومحبت سے خود سے مانوس کریں، پھر اس کے نزدیک جائیں۔۔۔
انکل، پچھلے ادوار میں لوگ قربانی کے جانور بہت پہلے لے آتے تھے، اس کی کیا وجہ تھی؟ یاسر نے انکل کی خاموشی کے دوران ایک سوال پوچھا۔
خاور انکل بولے: آج کل لوگوں کی اکثریت قربانی کے جانور اس وقت خریدتی ہے، جب بقرعید میں چند دن رہ جاتے ہیں، گذشتہ ادوار میں ایسا نہیں ہوتا تھا، لوگ قربانی کا جانور ایک سال، چھ مہینے پہلے ہی خرید لیتے تھے۔ اس طرح جانور ان کی محبت، وشفقت کے سائے میں پل کر خوب صورت اور زورآور ہوجاتا تھا پھر یہ کہ گھر کے سارے لوگ اس سے دلی محبت کرنے لگتے تھے، یہاں تک کہ جب اس کی قربانی دی جاتی تو گھر والے رو پڑتے۔۔۔ تو اللہ پاک بندے سے ہمیشہ اس قربانی کا تقاضا کرتا ہے، جو اس کی پسندیدہ ہو۔ آج کل کے تیز رفتار دور میں ہم سنت ابراہیمی تو پوری کرلیتے ہیں، لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ قربانی کس طرح کرنی چاہیے۔
خاور انکل ایک لمحے کو رُکے تو ارقم نے سوال کیا: انکل میں کچھ بتاسکتا ہوں۔۔۔
ہاں ہاں بالکل اجازت ہے۔۔۔
ارقم نے کزنز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
بہت سے گھروں میں بچے، بڑے قربانی کے جانوروں پر خاص توجہ دیتے ہیں، عید سے قبل جانوروں کو مہندی لگائی جاتی ہے، انہیں خوب سجایا جاتا ہے، ان کے پیروں میں گھنگرو اور گلے میں خوب صورت پٹا ڈالا جاتا ہے، کچھ لوگ انہیں رنگ برنگی چادر اوڑھاتے ہیں۔ جب قربانی کے جانور بچوں کے ساتھ گلی، محلّوں میں مٹرگشت کرتے ہیں تو ایک دل کش سماں سا بن جاتا ہے۔
واہ بھئی واہ۔۔۔ بالکل دُرست فرمایا ارقم بھائی۔۔۔سمیّہ اور حدیقہ نے ستائشی انداز میں ارقم کو جیسے شاباشی دی۔
ارقم خاموش ہوا تو تو خضر نے خاور انکل سے ایک سوال کرڈالا: انکل، یہ عید ہمیں کیا سِکھاتی ہے؟
خاور انکل بولے:
عید قرباں ہمیں ایثار کا درس دیتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اس گوشت کے اصل حق دار غریب، غربا، مساکین اور ہمارے پڑوسی ہیں۔ اس لیے قربانی کرنے کے بعد صرف اپنی ضرورت کے مطابق گوشت رکھیں اور باقی سب ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں۔ بعض لوگ قربانی کا گوشت بانٹتے کم اور فریج میں بھر کر رکھتے زیادہ ہیں۔ ایسا کرنا قربانی کی روح کے منافی ہے۔
حدیقہ بولی: ہمارے ابّو گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور فریج میں بھرکر بھی رکھتے ہیں، اس عید پر میں انہیں سمجھاؤں گی کہ فریج کو خالی رکھ کر گوشت دوسروں کو کھلانا زیادہ افضل ہے۔
بالکل، انہیں لازمی سمجھانا! انکل نے کہا۔
اب سمیّہ نے بھی ایک سوال پوچھ لیا:
انکل، قربانی کے دن کی کیا عظمت ہے؟
خاور انکل نے کہا:
حضرت عبداللہ بن قرط روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: اللہ کے نزدیک قربانی کا دن یوم ’’نحر‘‘یعنی سب دنوں سے زیادہ عظمت والا ہے۔ روایت ہے کہ آنحضرت نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے پاس کھڑی رہو، اس لیے کہ قربانی کے جانور کی گردن سے جب خون کا پہلا قطرہ گرے گا تو اس کے بدلے تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گئے اور اس وقت یہ پڑھو۔۔۔میری نماز، ہر عبادت زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے، جوساری مخلوق کا پالنے والا ہے۔ حضور اقدسؐ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا، امت محمدیہ میں سے قربانی کرنے والوں کو کیا ثواب ملے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا ثواب قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض دس نیکیاں ہیں اور دس گناہ مٹادیے جائیں گے اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے۔حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کیا کہ جب وہ قربانی کے پیٹ کو چاک کرے گا تو اس کا کیا ثواب ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اس بندے کی قبرشق ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو بھوک پیاس اور قیامت کے ہول سے محفوظ رکھے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اچھے جانور کی قربانی کیا کرو، قیامت کے دن یہ تمہاری سواریاں ہوں گے، قربانی سُنت ہے، جو شخص قربانی کر سکتا ہے اس کے لیے اس کا چھوڑنا اچھا نہیں۔
انکل، آج کل جانوروں میں ایک وائرس کانگو بھی گردش کررہا ہے، سُنا ہے یہ بہت خطرناک ہے؟ حسّان نے سوال کیا تو خاور انکل گویا ہوئے:
جو بچے جانوروں کو کھلانے پلانے اور ان کی خدمت میں آگے آگے رہتے ہیں، وہ ان کی خدمت کے بعد اچھی طرح صابن سے منہ ہاتھ دھولیں تاکہ کانگو وائرس کے علاوہ چھوٹے موٹے وائرس سے بھی بچا جاسکے۔ جانور اگر بیمار ہو تو فوراً گھر کے بڑوں کو بتائیں تاکہ بڑے جانوروں کے ڈاکٹر سے اس کا علاج کرائیں اور وہ صحت یاب ہوسکے۔ بیماری کے دوران جانور سے دور رہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ آرام کا موقع فراہم کریں۔
انکل، کانگووائرس کے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔۔۔ عمّار نے خاور انکل کے سامنے سوال رکھا۔
خاور انکل نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا پھر دوسرے ہی لمحے بولے:
کانگو وائرس کا سائنسی نام ’’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘‘ ہے۔ اس بخارکی 4 اقسام ہیں۔ اگر کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس سے انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ صرف خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ وائرس جانوروں کی کھال سے خون چوسنے والے’’ٹکس‘‘ (جراثیم یا ایک قسم کا کیڑا)کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس( کیڑے) مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی کھال سے چپک کر ان کا خون چوستے ہیں اور جب کوئی انسان مثلاً چرواہا، قصاب یا کوئی بچہ یا بڑا اس کے کنٹریکٹ میں آتا ہے تو یہ ٹکس انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔
ارقم نے سوال کیا:
انکل، اس مرض کی علامات کیا ہیں؟
خاور انکل بولے:
اس مرض کی علامات میں تیز بخار، سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت اور غنودگی، منہ میں چھالے اورآنکھوں میں سوجن ہوجانا ہے۔ بخار اتنا تیز ہوتا ہے کہ جسم میں وائٹ سیلز کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوجاتی ہے، جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ وائٹ سیلز گھٹنے سے متاثرہ مریض کے جسم سے خون اس طرح بہتا ہے کہ کچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جب کہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
انکل، یہ تو بہت خطرناک وائرس ہے، ہمیں تو دور ہی سے اپنے جانور کے جسم کا جائزہ لینا پڑے گا کہ اس کی کھال پر کوئی ٹکس (کیڑا) تو نہیں چمٹا ہوا ہے۔ حدیقہ اور سمیّہ خوف زدہ لہجے میں بولیں تو انکل خاور بولے: اللہ نہ کرے کہ کوئی ٹکس ان کے جسم پر موجود ہو، لیکن پھر بھی جانور خریدتے وقت لوگوں کو یہ چیز باریک بینی سے دیکھنی ہوگی تاکہ خطرے سے بچا جاسکے۔
انکل، آپ نے ہمیں قربانی کی روح کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کانگو وائرس کے بارے میں بھی مفید معلومات سے آگاہ کیا، اس سے پہلے ہم اس وائرس سے بڑے خوف زدہ تھے، لیکن اب اس کے بارے میں جان کر اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہم یہ باتیں اپنے دوستوں سے بھی شئیر کریں گے تاکہ تمام لوگ اس وائرس کے خوف سے نکل سکیں۔ تمام بچوں نے ایک آواز ہوکر کہا پھر تمام نے انکل کا شکریہ ادا کیا اور اپنی گائے کو ٹہلانے باہر نکل گئے، جب کہ حدیقہ اور سمیّہ خاور انکل کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی گئیں۔