اس دہشت گردی سے کون نمٹے گا؟

142

اوریا مقبول جان

پاکستان کے دور دراز دیہات، چھوٹے قصبوں، یہاں تک کہ کئی تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹروں کے اسپتالوں، اسکولوں، ڈسپنسریوں اور دیگر چھوٹے چھوٹے دفاتر میں جانے کا اگر آپ کو موقع ملے تو ان عمارات کی دیکھ بھال اور ان کی موجودہ حالت دیکھ کر آپ حیرت میں پڑ جائیں گے۔ صرف بجلی کی تنصیبات کو سڑک کے کھمبے سے لے کر کمروں تک غور سے دیکھیں۔ آپ کو ٹرانسفارمر سے لٹکتے ہوئے تار ملیں گے جنھیں بڑی مشکل سے سہارا دے کر مکان تک لایا گیا ہوتا ہے۔ اس مکان یا عمارت کے باہر ایک بوسیدہ میٹر اور اس کے ساتھ مین سوئچ بورڈ موجود ہوتا ہے۔
اس سوئچ بورڈ کی حالت بھی دیدنی ہوتی ہے۔ کہیں تاروں سے فیوز لگائے گئے ہوتے ہیں اور کہیں مختلف سوئچوں کو رسیوں، دھاگوں یا پٹیوں سے باندھا گیا ہوتا ہے۔ ایسے ہی حالات عمارت کے سارے کمروں میں بجلی کے نظام کی ترسیل کو درپیش ہوتے ہیں۔ کہیں براہِ راست تار لگائے گئے ہوتے ہیں تو کہیں لٹکتے ہوئے سوئچ بورڈ کو بصد احتیاط استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود ایک کمرے میں کوئی چپڑاسی یا چوکیدار بجلی کے خود سے بنائے گئے ایک ہیٹر پر صاحب کے لیے چائے بھی بناتا ہے، اپنا کھانا بھی، اور رات کو سردی کا مقابلہ بھی اسی ہیٹر سے کرتا ہے۔
ان تمام عمارتوں میں اکثر شارٹ سرکٹ پٹاخے گونجتے رہتے ہیں لیکن یہ تمام اہلکار ان سے نمٹنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ پٹاخے تار کا تھوڑا حصہ جلا کر یا سوئچ کو پگھلا کر دم توڑ جاتے ہیں۔ بے احتیاطی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان ہیٹروں، ننگے تاروں یا لٹکتے ہوئے سوئچ بورڈوں کے آس پاس ہی فائلوں کا انبار بھی ہوتا ہے، یا لکڑی کی الماریاں بھی، مگر کسی کو پروا تک نہیں ہوتی کہ بجلی کے ننگے تاروں یا ہیٹر وغیرہ کے نزدیک کاغذات پڑے ہیں اور اچانک شارٹ سرکٹ سے آگ بھڑک سکتی ہے۔ ایسی ہی کیفیت بڑے شہروں کے غیر اہم دفاتر کی ہوتی ہے۔
آپ الیکشن آفیسر، سوشل ویلفیئر ڈائریکٹوریٹ، پاپولیشن پلاننگ، ماحولیات یا ایسے ہی کسی غیر اہم محکمے کے اعلیٰ ترین دفتر میں چلے جائیں۔ آپ کو وہاں بھی دیکھ بھال کا عالم ویسا ہی ملے گا جیسا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ شاید ڈائریکٹر صاحب کا کمرہ بہتر مل جائے۔ البتہ اس کے اسٹاف کے کمرے کی وہی حالت ہوتی ہے اور وہاں بجلی کے ہیٹر پر چائے بھی بن رہی ہوتی ہے اور ساتھ ہی میز پر ’’اہم‘‘ امور کی فائلیں بھی پڑی ہوتی ہیں۔
اس ساری غفلت، بے احتیاطی، عدم توجہی اور بجلی کے ناقص نظام کے باوجود ان تمام چھوٹے چھوٹے اسکولوں، ڈسپنسریوں، اسپتالوں یا پھر چھوٹے اور غیر اہم محکموں کے ہیڈکوارٹرز میں کبھی آگ نہیں بھڑکی، کبھی اس قدر شارٹ سرکٹ نہیں ہوا کہ سارا ریکارڈ جل جائے، کبھی ایسی آتشزدگی نہیں ہوئی کہ خس و خاشاک سے کچھ بھی نہ مل سکے۔ پاکستان کی بجلی اور اس کی ترسیل بھی اس قدر چالاک اور ہوشیار ہے کہ تاک کر ان محکموں کو نشانہ بناتی ہے جہاں بددیانتی، کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔
یہ شارٹ سرکٹ مہم ’’کرپشن‘‘ کی اس قدر دشمن ہے کہ ایسی ساری فائلوں کو جلا کر بھسم کردیتی ہے جن میں اس کا ذرا سا بھی ثبوت موجود ہو۔ پاکستان میں سو سے زیادہ ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر ہیں لیکن آگ صرف اور صرف لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں لگتی ہے، اور آگ اس قدر زیرک اور چالاک ہے کہ اس کا نشانہ صرف اور صرف ریونیو ریکارڈ ہوتا ہے۔ پٹواریوں کے گھپلے، زمینوں کی الاٹمنٹ، کرپشن کی داستانیں سب کچھ جل کر خاکستر ہوجاتا ہے۔ اس زمانے کا ڈپٹی کمشنر ایک منظورِ نظر آفیسر ہے۔ وہ اپنی سیٹ پر قائم بھی رہتا ہے اور دو صوبوں کا چیف سیکریٹری بن کر ریٹائر ہوتا ہے۔ ملبہ ایک معصوم سے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پر ڈال دیا جاتا ہے جو بیچارہ مدتوں انکوائریاں بھگتتا رہتا ہے۔
اسلام آباد میں بے شمار محکمے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی اہمیت ہے لیکن وزارتِ داخلہ کس قدر اہم ہوتی ہے اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے، خصوصاً وہ دفاتر جو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس جاری کرتے ہیں جن میں کلاشن کوف اور آٹومیٹک رائفل شامل ہوتی ہے۔ یہ آگ بھی کس قدر چالاک ہے، سارے بلیوایریا میں اسے شہید ملت سیکریٹریٹ ہی نظر آتا ہے جس کی سولہ منزلیں ہیں، لیکن حیرت ہے کہ بجلی کا شارٹ سرکٹ انھیں منزلوں میں ہوتا ہے جہاں وزارتِ داخلہ کے دفاتر موجود ہوتے ہیں۔ کمیٹی بنتی ہے، انکوائری ہوتی ہے اور ایک اور فائل فائلوں کے انبار میں اضافہ کرجاتی ہے۔
لاہور کے ایل ڈی اے پلازہ سے کون واقف نہیں۔ گورنر ہاؤس، الحمراء، ایوانِ اقبال اور امریکی قونصلیٹ جیسی حساس عمارتوں کے جھرمٹ ہیں۔ پلازہ میں دیگر دفاتر بھی موجود ہیں، بلکہ ایک بہت بڑا ایف ایم ریڈیو بھی یہیں کام کرتا ہے، لیکن آگ کی پھرتیاں اور چالاکیاں ملاحظہ کریں۔
آگ انھی منزلوں پر لگتی ہے جہاں ایل ڈی اے کا وہ ریکارڈ رکھا گیا ہے جس میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے لے کر میٹروبس کے لیے زمینوں کی خریداری تک ہزاروں داستانیں موجود ہیں۔ کتنے سالوں کے جرم تھے جنھیں جلا کر ایل ڈی اے کا دامن پاک و صاف کردیا گیا۔ لیکن اس آگ کی سفاکی دیکھیے کہ کتنے انسانوں کو نگل گئی۔ آگ بھڑکی تو لوگ خوفزدہ ہوکر سات منزلہ عمارت سے چھلانگ لگانے لگے۔ آگ سے تو بچ گئے لیکن موت نے انھیں پکے فرش کی سختی پر اپنی آغوش میں لے لیا۔ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔ منظورِ نظر سربراہ ایل ڈی اے ترقی کی منازل طے کرتا رہا اور آج بھی اعلیٰ عہدے پر متمکن ہے۔
نندی پور پاور پراجیکٹ کے انتظامی دفتر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سیکیورٹی کے دفتر میں آگ تو ابھی کل کا واقعہ ہے۔ کیسے تیل کی خریداری کا ریکارڈ ایک دفتر میں جمع ہوا اور پھر اس دفتر میں آگ لگ گئی۔ آگ بھی اُس دفتر میں لگی جو پورے پراجیکٹ کو سیکیورٹی فراہم کرتا تھا۔ اگر پاکستان کے بڑے دفاتر کی آگ کی داستان بیان کی جائے تو ایک طویل فہرست تیار ہوجائے گی۔ ایک لمبی فردِ جرم۔
لیکن دفاتر کو آگ لگانے کی روایت کا آغاز ایک انتہائی دلخراش واقعہ سے ہوتا ہے۔ قائداعظم نے جب پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا تو ان کی ہدایت کے مطابق لاہور میں علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ایک محکمہ قائم کیا گیا جس کا نام تھا ’’ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘‘۔ یہ واحد محکمہ ہے جو قائداعظم کی زندگی میں پاکستان میں قائم ہوا۔ اس کے اغراض ومقاصد تھے: پاکستان کے لیے ایک اسلامی آئین، اسلامی نصابِ تعلیم، اسلامی نظام معیشت اور اسلامی انصاف کے نظام کے لیے سفارشات مرتب کرنا۔ اس میں اُس دور کے عظیم اسکالر موجود تھے۔
اس کا دفتر لاہور سیکریٹریٹ کے ساتھ اُس عمارت میں تھا جسے بعد میں ایم پی اے ہاسٹل بنایا گیا۔ علامہ اسد نے سفارشات مرتب کیں تو انھیں پاکستان کی سیکولر بیوروکریسی نے ایک فریب سے سفارتی مہم پر بھیجا کہ وہ عرب ممالک سے پاکستان کے تعلقات استوار کریں۔ ان کے جانے کے بعد اس دفتر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اور تمام ریکارڈ جل گیا۔ صرف علامہ اسد کی ریڈیو پاکستان کی تقریریں اور اغراض و مقاصد کا کتابچہ بچ نکلا جو بتاتا ہے کہ کس قدر بڑا کام کیا جاچکا تھا۔ یہ اس ملک کی اساس اور نظریاتی بنیاد پر پہلی دہشت گردی تھی۔
اس کے بعد اس ملک کی تاریخ میں جرم اور جرم کو چھپانے کے لیے ریکارڈ جلانا، گواہ قتل کرنا، رشوت سے منہ بند کرنا، خوفزدہ کرنا، سب کچھ معمول بن گیا۔ جس ملک میں بلدیہ فیکٹری میں چار سو کے قریب لوگ زندہ جل جائیں اور اتنے سالوں بعد یہ طے نہ ہوسکے کہ مجرم کون تھا۔ ہر کسی کی زبان پر مجرموں کے نام موجود ہوں لیکن کوئی ان کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لائے، وہاں ایل ڈی اے کے درجن بھر بے گناہ مقتولین کس گنتی میں آتے ہیں! اور ریکارڈ تو کاغذ ہے، ردی ہے، جل گیا، خاکستر ہو گیا۔
ستّر سال سے اس قوم کی نگاہیں اس منظر کو دیکھنے کو ترس رہی ہیں جب سائرن بجاتی گاڑیوں میں اچھلتے کودتے چوکس سپاہی ان بڑے کرداروں کے گھروں میں بھی اتریں اور صرف ایک فقرہ بولیں: اس آگ کے لگنے سے تمہارا فلاں جرم چھپا، تمہیں اتنا فائدہ ہوا، تم نے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ سب کیا۔ چلو ہمارے ساتھ، انصاف کے کٹہرے میں۔