بابل کے گھر سے لاش ہی نکلے اب۔۔۔۔

217

آسیہ شاہین

روشنی کسی سے روٹھنا یا اسے منانا نہ جانتی تھی۔ نہ کسی کو اپنی بات پہ قائل کرتی تھی۔ بس ہر بات پر خاموشی سے سر جھکا دیتی تھی۔ وہ انتہائی درجے کی ڈرپوک لڑکی بن گئی تھی، حالانکہ وہ پہلے ایسی نہ تھی۔ وہ تو ایک خودمختار اور باہمت لڑکی تھی، مگر دلہن بن کر نکلتے وقت اُس کے کان میں کہہ دیا گیا تھا کہ ’’مٹ کر رہنا، اب تمہارا گھر وہی ہے جہاں جا رہی ہو، اپنے ماں باپ کی عزت رکھنا اور تمہارا جنازہ اسی گھر سے اٹھنا چاہیے۔‘‘
سسرال میں آتے ہی اس کی اَنا، خودداری سب کو ان لوگوں نے کچل ڈالا تھا۔ اسے اپنی مرضی کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔ جس کا جی چاہتا اسے بے عزت کرکے رکھ دیتا۔ اگر اس کے میکے سے کوئی آجاتا تو روشنی کو ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا کہ وہ ان کو یہاں مت بلایا کرے۔ اپنے گھر والوں کو منع کرے کہ یہاں مت آیا کریں۔ اس کے شوہر نے اسے سب کے سامنے بولا ’’مجھے نفرت ہے تمہارے گھر والوں سے، یہ لوگ دوبارہ مجھے یہاں نظر نہ آئیں، سمجھیں تم۔‘‘
روشنی کا دل جل کر کوئلہ بن گیا مگر وہ کچھ نہ بول پائی۔ اس کی آنکھوں میں آئے آنسو ساحلؔ کو اپنی غلطی کا احساس نہ دلا پائے۔ وہ اسے دھتکار کر چل دیا۔ روشنی کے الفاظ کوئی اہمیت نہ رکھتے۔ وہ اپنا سارا غصہ اپنی ڈائری پر نکالتی تھی۔ آج بھی اس نے ایسا ہی کیا۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اس نے ڈائری نکالی اور اپنا غم ڈائری سے بانٹنے لگی۔ وہ اکثر دل پر لگنے والے ہر گھاؤ پر اسی طرح مرہم لگاتی تھی اور دل ہلکا کرلیتی۔ روشنی نے ڈائری نکالی اور لکھنے لگی، اسے کہیں پڑھا ہوا ایک شعر یاد آیا:
’’ہر آہ میری جاتی ہے افلاک پہ عہبر
ہر شخص میری زندگی سے کھیل رہا ہے
عورت، جس کو اللہ نے ہر روپ میں مرد کو اپنے دل کے قریب رکھنے کو کہا ہے۔ چاہے وہ ماں ہو، بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہا گیا ہے۔ تو پھر کیوں یہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں جی رہے ہیں! میری زندگی مجھ سے سوال کررہی ہے کہ تم نے مجھے دوسروں کے رحم و کرم پہ کیوں چھوڑ دیا ہے؟ کیوں میں نے اپنی زندگی کی طنابیں کسی اورکے ہاتھ میں دے رکھی ہیں کہ جس کا جی چاہے طناب کھینچ کر مجھے اوندھے منہ گرا دے۔‘‘
وہ بنا سوچے اپنے جذبات کاغذ پر اتارنے لگی۔ اس کی آنکھ سے آنسو نکلا اور ڈائری کے صفحے میں جذب ہوگیا: ’’کہتے ہیں مایوسی کفر ہے۔ تو انسان کو زندگی سے بیزار اور مایوس کرنے والے انسانوں کے بارے میں کیا فتویٰ ہے! اباکہتے تھے ’’بیٹی! امید آدھی زندگی ہے اور مایوسی آدھی موت ہے‘‘۔ کیا میں مر رہی ہوں؟ کیوں کہ مجھے زندگی سے کوئی امید باقی نہیں رہی‘‘۔ وہ زیرلب ایک شعر پڑھنے لگی:
ہم ہیں سوکھے ہوئے پیڑ پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
اسی وقت ساحل کمرے میں داخل ہوا تو روشنی نے ڈائری جھٹ سے تکیے کے نیچے رکھ دی۔ ساحل سیدھا واش روم نہانے چلاگیا۔ اندر پانی نہ پاکر وہ بڑبڑاتا ہوا باہر آیا:
’’تم سارا دن کرتی کیا ہو سوائے بیٹھے رہنے کے؟ کبھی کوئی کام بھی کرلیا کرو۔ جا کے ٹنکی دیکھو اور بھرو اسے۔‘‘
روشنی کمرے سے باہر نکل گئی۔ ساحل نے روشنی کے جاتے ہی تکیہ اٹھایا اور ڈائری اٹھاکر اس کی تحریر پڑھنے لگا۔ وہ غصے سے لال پیلا ہونے لگا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ڈائری کا ایک ایک صفحہ پھاڑ ڈالا اور ڈائری زمین پر پھینک دی۔ جب کچھ دیر کے بعد روشنی کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے پاؤں کے ساتھ کچھ ٹکرایا۔ جوں ہی اس نے زمین پہ دیکھا، اس کے ہوش و حواس گم ہوگئے۔ وہ خالی خالی نظروں سے اپنی ڈائری کو صفحہ صفحہ ہوا دیکھ رہی تھی۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے اس نے صفحے اٹھانے شروع کیے تو اسے اپنا آپ بہت حقیر لگا تھا۔
’’اس طرح کی بکواس باتیں لکھنی ہوں تو اپنے باپ کے گھر دفع ہوجاؤ‘‘۔ وہ پے در پے روشنی کے دل پر وار کیے جارہا تھا۔
’’ہمارے خلاف اتنا زہر بھرا ہوا ہے تمہارے دل میں۔ بہت میسنی ہو تم‘‘۔ وہ دھاڑتا ہوا اس کے کان کے بالکل پاس آکر چیخا ’’ہمارے گھر میں رہنا ہے تو ہماری طرح رہو ورنہ۔۔۔‘‘ وہ چٹکی بجاتا دروازے کی طرف انگلی سے اشارہ کرنے لگا ’’نکل جاؤ ہمارے گھرسے‘‘۔
عورت کی انا کو سب سے زیادہ ٹھیس اس بات سے پہنچتی ہے جب اسے دروازے کا راستہ دکھایا جاتا ہے اور بات بے بات اسے باور کروایا جاتا ہے کہ یہ اس کا گھر نہیں ہے۔
’’یہ میرا گھر نہیں کیا۔۔۔؟‘‘ روشنی سوچ کر رہ گئی۔ ’’عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا کیا۔۔۔؟ شوہر کہتا ہے باپ کے گھر جا، اور باپ کہتا ہے شوہر کے گھر جاکر رہو، اب وہی تمہارا گھر ہے‘‘۔ روشنی نے پورے ضبط سے آنسو اندر اتارے اور ڈائری کے پھٹے ہوئے صفحات اٹھا لیے اور خاموشی سے باہر نکل گئی۔
ڈائری جلاتے ہوئے اس کی آنکھ اشک بار تھی۔ اس کے کانوں سے پھر وہی الفاظ ٹکرائے ’’تمہارا جنازہ اسی گھر سے نکلنا چاہیے۔ ماں باپ کی عزت رکھنا۔ مٹ کر رہنا۔‘‘
وہ حرفِ غلط کی طرح مٹا دی گئی تھی۔