لفظوں کے جادوگر

261

صالحہ عزیز صدیقی

اداسیاں رقص کررہی تھیں، تنہائیوں کا ایسا ہجوم کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ خاموشی کے دشت میں خودکلامی کی سرگوشیاں شور مچا رہی تھیں، دہکتے سورج کی حدّت ہرے لان کو جھلسا رہی تھی، چہار جانب لو کا عالم تھا۔ اپنوں کی بے وفائی دل پگھلا رہی تھی۔ اندر ہُو کا عالم تھا۔ ویران کمرے میں بے مقصد چلتے اچانک نظر کھڑکی کے پار جامن کے پیڑ پر مچلتی فاختاؤں کی دلآویز محفل پر جا ٹھیری۔
دل کو بھاتا یہ منظر اردگرد دندناتی اداسیوں سے جھگڑنے لگا تو دور کھڑی غم زدہ سی خوشی بے اختیار مسکرانے لگی۔ پیاری فاختاؤ! تمہارا شکریہ، تم نے میری تنہائی کے کینوس پر کیا حسین رنگ بکھیرے ہیں۔ دل انجانے سے لطف سے سرشار ان کا ممنون ہورہا تھا کہ اچانک نظر نے کروٹ لی اور سڑک کے پار نفرت کے سمندر میں ڈوبتے دو نفوس پر جا ٹھیری۔ دماغ خوامخواہ ہی سانپ سے بدتر زہر اگلتے انسانوں کا موازنہ خوشی کے شادیانے بجاتی امن کی ان فاختاؤں سے کرنے لگا۔ عین اسی لمحے ضمیر کے شفاف شیشے میں میرے دل کا عکس مجھے اپنی ہی نظروں میں شرمسار کرگیا۔ دم توڑتی ہمت کو یکجا کیا، ضمیر کی انگلی تھامے محتاط نگاہوں سے دل کے دروازے پردستک دی۔ دروازہ کھلتے ہی اندھیرے نے استقبال کیا۔ البتہ کونوں کھدروں میں ٹمٹمانے کی امید پر پاؤں پڑگئے۔ بس پھر کیا تھا، ندامت کے بادل گرج اٹھے اور اشکوں کی ایسی جھڑی لگی کہ آنکھوں کے کٹورے ابل پڑے۔ اشکوں سے تر رحمت کی طلب میں اٹھے ہاتھ لرزنے لگے، سانسیں ہچکیوں میں بدل گئیں، سسکیوں کا سیلاب رؤف و رحیم ہستی کی بے پایاں رحمت کے سمندر میں ڈبوتا چلا گیا۔
نہ جانے کب سکون کا تحفہ لیے نیند کی پری آئی تھی، آنکھ کھلی تو گہرے سکون کی چادر اوڑھے خود کو جائے نماز پر پایا۔ امید کے دیے اطمینان کی شمع بن کر دل کی تاریکیاں دور کررہے تھے اور میں سوچ رہی تھی: جو اللہ کو دوست بنا لے وہ کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ بے شک دل کا سکون اس کے ذکر میں پنہاں ہے۔