مجھے بتاؤ

236

فرحت طاہر

میں اس کائنات کی سب سے خوبصورت اکائی ہوں۔ میرا وجود اس دنیا کے لیے جزوِ لاینفک ہے۔ دنیا کی ہر چیز میری محتاج ہے۔ میں ایک ایسا ادارہ ہوں جس کے چلانے والے مرد و عورت دونوں ہیں۔ مجھے اردو میں گھر، عربی میں بیت اور انگلش میں ہوم کہتے ہیں، اور یہ گھر پیارا گھر، ہوم سوئٹ ہوم آج کل شدید خطرات کی زد میں ہے!!
نہیں آپ غلط سمجھے! یہ خطرہ ہرگز زلزلے کا نہیں ہے۔ پھر کیا ہے خطرہ؟ یہ خطرہ تنہائی کا بھی ہے، عدم دلچسپی کا بھی ہے، لاپروائی کا بھی ہے اور معدوم ہونے کا بھی ہے! بالکل اسی طرح جیسے جانوروں اور پودوں کی بعض نایاب اقسام کو خطرہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا میرے ذمہ دار عورت و مرد دونوں ہی ہیں، اور قدرت نے ان دونوں کا دائرۂ کار اس طرح تقسیم کیا ہوا ہے کہ مرد کے ذمے باہر کے کام ہوتے ہیں، جبکہ گھر کے اندر کے تمام کاموں کی ذمہ دار عورت ہے۔ یعنی پیسے کما کر لانا اور ضروریات مہیا کرنا مرد کا کام ہے اور پیسے اور چیزوں کو استعمال میں لاتے ہوئے گھر کو درست حالت میں رکھنا عورت کی ذمہ داری ہے۔
دونوں اپنا اپنا کام صدیوں سے خوش اسلوبی سے کرتے چلے آئے ہیں، مگر اب جیساکہ نظام تبدیل ہونے کی بات ہورہی ہے تو عورت ملک کی ترقی کے لیے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہے اور مجھ پر ویرانی سی چھا گئی ہے۔ درو دیوار اداس ہیں، پھول پتے مرجھا گئے ہیں، گھر کے جانور اور پرندے تک دربدر ہورہے ہیں کیونکہ ان سب کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا۔ اور میرا سرمایہ، میری رونق، میری کائنات، میری صنعت بچوں کا تو پوچھنا ہی کیا؟ باپ کی توجہ سے تو وہ پہلے ہی محروم تھے، اب ماں کی صورت کو بھی ترستے ہیں! ماں دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر ان کے مسائل کون حل کرے؟ ان کے کپڑے صاف ہیں یا نہیں؟ ان کا ہوم ورک کروانے والا کوئی نہیں! ایمرجنسی ہوجائے تو کیا کریں؟ یہاں تو ایسا کوئی نمبر نہیں جسے ڈائل کرکے فوری مدد حاصل کی جاسکے۔ بس چیخ و پکار ہی کرسکتے ہیں!! مگر نہیں، ہر مسئلے کا حل تو ضرور نکالا جاتا ہے ناں، تو بس ان مسائل کے لیے بھی آیا، ٹیوٹر ہیں ناں! اور پھر باپ کی بھی تو ذمہ داری بنتی ہے!! گھر سے باہر بہت کچھ کرلیا اب ذرا گھر کے بھی کچھ کام کرلیں! آخر تبدیلی آرہی ہے! لیکن جس طرح ایک چیز کی ترتیب پلٹنے سے ساری چیزیں منتشر ہوجاتی ہیں، اسی طرح سے ماں اور باپ کی ذمہ داریاں تبدیل ہونے سے سب چیزیں الٹ پلٹ ہوچکی ہیں!!!
اب باپ کو کیا پتا کہ بچے کو کھانا کھلانے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں، کتنی کہانیاں سنانی پڑتی ہیں، کتنی خوشامدوں سے ہوم ورک ہوتا ہے، کتنے پیار سے کپڑے بدلوائے جاتے ہیں! وہ تو بیچارہ کھانا لگائے پریشان اور شاکی کھڑا ہے۔ اس کی سمجھ سے باہر ہے کہ ماں اتنے کم وقفے میں تمام کام کس طرح نبٹا لیتی ہے! بچے کو تیار کروا کے ناشتا بنا لیتی ہے، کپڑے دھل کر استری ہوجاتے ہیں اور گھر یعنی مَیں چمک اٹھتا ہوں، اور میرے چمکنے سے ماحول نکھر جاتا ہے۔
اب مرد بے چارے کو کون سمجھائے کہ یہ عورت کا کوئی کمال نہیں، یہ تو قدرت ہے جس نے عورت کو حسنِ انتظام بخشا ہے، جس کی مسکراہٹ سے کلیاں کھل جاتی ہیں اور بوٹے مسکرا اٹھتے ہیں، پرندے چہچہانے لگتے ہیں، در و دیوار کی ویرانی بہار میں بدل جاتی ہے۔ اس کے ہاتھوں کے لمس سے کھانے میں ذائقہ دوڑنے لگتا ہے، اس کی ہتھیلیاں آٹے میں کون سا جذبہ گوندھ دیتی ہیں کہ کھانے کی اشتہا بیدار ہوجاتی ہے، برتن گنگنا اٹھتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کی چمک میری ساری آلودگی دور کردیتی ہے۔ اور میں نکھر جاتا ہوں، ماحول میں نغمگی آجاتی ہے۔ اس کے وجود سے پھیلتی محبت کی خوشبو روٹھے اور بکھرے ہوؤں کو یکجا کردیتی ہے۔
میری چمک ماند پڑی ہے تو میں بے چاری عورت کو کیوں یاد نہ کروں؟ مجھے نہیں پتا مجھ سے دور رہ کر اس پر کیا گزرتی ہے؟ اس کو کتنے دھکے کھانے پڑرہے ہیں؟ کتنے تھپیڑے اس کو کمہلا رہے ہیں؟ اس کو کیا پتا لوگوں سے کس کس طرح کام کروانے پڑتے ہیں؟ کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں! مجھے تو اپنی فکر ہے، مجھے اپنی بقا عزیز ہے، اور میری بقا جس کے دم سے ہے مجھے اس کی فکر تو کرنی چاہیے ناں! اس کی آنکھوں کے مدھم پڑتے گلاب مجھے خون کے آنسو رلاتے ہیں، اس کا تھکا ہوا پریشان وجود میری ویرانی میں اضافہ کررہا ہے۔ پرندے سہمے ہوئے ہوں تو گل بوٹے بھی نہیں مسکراتے۔ گھر کے برتن خاموش ہوں تو ماحول کا سناٹا کیسے دور ہو!
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کتنے شدید خطرات کی زد میں ہوں، اور یہ خطرہ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
* اب تو آپ مجھے ان تنظیموں سے متعارف کروائیں جو مجھے بچانے کی فکر کریں، بالکل اسی طرح جیسے خطرے کی زد میں آئی ہوئی جانوروں اور پودوں کی بعض اقسام کی فکر ہوتی ہے۔
* میرے اوپر سے اوزون کی تہہ کمزور پڑرہی ہے اور میں ان شعاعوں کی زد میں ہوں جو میرے وجود کو پگھلانے کے لیے کا۔فی ہیں!
* مجھے وہ نمائش گاہ دکھایئے جہاں میں اپنی تباہی کے خلاف ڈسپلے کرسکوں۔
* مجھے اس واک کا راستہ بتایئے جہاں میں چھڑی کا سہارا لے کر اپنے لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ شریک ہوسکوں۔
* میرے لیے سیمینار/ مذاکرے منعقد کروائیں۔ میرے تحفظ کے لیے اسٹیکرز چھاپیں۔
* کچھ تو کریں۔
* میرے ختم ہونے سے میرا سرمایہ تباہ ہوگا۔
* میری کائنات اجڑے گی تو یہ معاشرہ بھی ڈوب جائے گا۔ اور اگر یہ معاشرہ اجڑ گیا تو میری ویرانی کا نوحہ کہنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
*کیا آپ کو معلوم ہے میں اس دنیا کی عمارت کی پہلی اینٹ ہوں اور شاید آخری بھی۔ میری تباہی اس دنیا کی تباہی اور بربادی ہے۔