یہ چھو ٹے بڑے ڈان – اور کراچی

211

ڈاکٹر صغیر افضل

بہت کڑا اور نازک وقت ہے ان دونوں پر میرا مطلب ہندوستان اور پاکستان سے ہے۔ ایک جانب ہندوستان کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں مسلمان کشمیریوں کی مسلسل مزا حمت اور بے جا تسلط کے خلاف تحریک سے خائف ہے دوسری طرف پاکستان میں متحدہ قومی موومنٹ نے ” باسی کڑی میں ابال ” جیسی کیفیت پیدا کردی ہے۔۔
ہندوستان میں کشمیریوں کی جدوجہد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ غاصبانہ قبضے کے فورا بعد ہی وہاں کے کشمیری ا ب تک سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے الحاق اور ہندوستان سے آزادی کی اس تحریک میں کشمیریوں نے اپنی دو نسلوں کی قربانی دی اور اب تک دے رہے ہیں۔ مگر پاکستان میں اور باالخصوص پاکستان کے معاشی حب کراچی میں حالات نہ صرف یک دم بگڑے بلکہ خاصی حد تک پاکستان مخالف تحریک میں تبدیل ہوتے دکھائی دیے جب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پاکستان کی عسکری قیادت اور پھر اس سے بھی چار ہاتھ آگے نکلتے ہوئے پاکستان کے خلاف کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ کراچی میں جاری دہشت گردی اور بھتہ خوری کے خلاف رینجرز کے آپریشن اور اس کے نتیجے میں اس جماعت کے کارکنوں( جسے رینجرز اور شہر کی سیاسی قوتیں اور متحدہ مخالف قوتیں دہشت گرد کہتی ہیں ) اور ٹارگٹ کلرز کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہوئی اور ان میں سے کچھ ماورائے عدالت قتل بھی ہوئے۔ ماورا ئے عدالت قتل (ایکسٹرا جوڈیشنری کلنگ )کا یہ ہتھیار ہندوستان اور پاکستان دونوں میں یکساں مقبول ہے۔ دونوں ممالک اس ہتھیار کی افادیت سے بخوبی واقف ہیں۔ کراچی آج سے نہیں گزشتہ تیس سالوں سے خوف دہشت اور بھتہ خوری جیسے عذابوں سے دوچار ہے۔ ” منزل نہیں رہنما چاہیے ” ایک نعرہ یا جذبات ابھا رنے والے ترانے کا محض ایک مصرعہ نہیں تھا۔ اس کی پوشیدہ پراسرار معنویت آج سمجھ میں آرہی ہے جب الطاف حسین مائنس فارمولے پر عملدرامد کیا جانے والا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان میں فاروق ستار جو پارٹی کے ابتدائی دنوں کے زندہ رہ جانے والے مخلص ترین ساتھیوں میں سے ایک ہی رہ گئے ہیں، کو متحدہ کی قیادت سونپنے کا اعلان کیا۔ اور اپنے آپ کو پاکستان کے سیاسی معاملات سے الگ کرنے کا اعلان فرمایا۔ کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کارکنوں سے خطاب فرماتے ہوئے جناب نے پہلے تو معاملات کو مس ہینڈل کرنے پر فاروق ستار اینڈ کمپنی کی اپنے ” مخصوص ” اسٹائل میں کلاس لی۔ اور پھر کارکنوں کے جذبات کا رخ میڈیا کی جانب موڑتے ہوئے چینلز کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ اس کے بعد ہڑتالی کیمپ سے ڈنڈے، لوہے کی سلاخیں اور ہتھیار برآمد ہوئے اور بھوک ہڑتالی نوجوان اور خواتین قریبی چینل کے دفتر میں جا گھسے۔ اس کے بعد کے تمام تر واقعات میڈیا پر رپورٹ بھی ہوچکے ہیں اور ان پر تادیبی کاروائی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔ رات ہی رات میں فاروق ستار کو ٹھاکر کپتان نے گرفتار کیا، عامر لیاقت اور دیگر بھی اٹھے۔ مگر دو تین گھنٹوں میں چائے پانی توا ضع کے بعد واپس بھی چلے آئے۔ کانٹی نینٹل ہوٹل سے پریس کلب اور پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب میں لندن والوں سے لاتعلقی اور پاکستان سے وفاداری کا ا علان فرماتے ہوئے گزشتہ رات واقعات سے اپنی لاتعلقی کا اعلان بھی کیا۔ اگر انجانے میں کوئی غلطی ہوئی تو اس کی معافی بھی مانگی، یہی کام لندن میں بیٹھے ” بہت بڑے بھائی ” نے بھی کیا اور معافی مانگی۔ لیکن آج گفتگو کا اصل محور واقعیات کی تکرار نہیں بلکہ کراچی اور اس سے وابستہ پاکستان کی مستقبل میں دکھائی دیتی صورتحال ہے۔ متحدہ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ تو ہونا ہی تھا۔ 1992 میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت میں جنرل( ر ) نصیر الل? بابر کے ہاتھوں اس وقت کی ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ پر آپریشن ہوا تھا۔ جس نے دم توڑتی پارٹی میں جان ڈال دی۔ سندھ شہری اور دیہی علاقوں میں عملا تقسیم ہوگیا۔ اور مہاجر موومنٹ بلا شرکت غیرے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی۔ اور اسی” بھائی مینڈنٹ ” کے بھرم کے ساتھ کراچی حیدرآباد اور سندھ کے تمام شہری علاقوں پر ایک ایسے دور کا آغاز ہو تا چلا گیا جس میں انھوں نے حکومت میں شامل رہتے ہوئے تمام شہری علاقوں کی مئیر شپ، وزارتیں،تھانے، پارک اور پارک سے لیکر ہسپتال، ندی، نالے، چوبارے فٹ پا تھ، ٹی وی چینل، اخبارات سرکاری ادارے ہر جگہ پارٹی کا ہولڈ قائم کرلیا۔ یہ وہ قوت بن کر ابھرے جس میں جس چیز کی خواہش کی گئی وہ منہ سے لفظ کے ادا ہونے کے ساتھ ہی پوری کردی جاتی۔ مثلا ان کو اگر مرکز میں فلاں وزارت چاہیے ۔۔۔ مرکز نے کہا حاضر جناب اس ادارے میں ہمارا ایم ڈی ہونا چاہیے۔۔۔۔ آپ نے پہلے بولا ہوتا ” بھائی ” ! لیجئے ایم ڈی لگا دیا پارک میں کارکنوں کے لیے آفس ہونا چاہیے۔۔۔۔ کوئی مسلہ نہیں۔۔۔۔ پبلک پراپرٹی پر آپ سے زیادہ کس کا حق ہے ؟ الغرض مرکز سے جو ما نگا ملتا چلا گیا۔۔۔ عوام سے مانگنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔۔ چھین لیا جاتا ایسا نہیں کہ یہ کام ” بھائی پنتی ” میں اکیلے اکیلے ہوگیا ہو۔۔ زرداری حکومت نے بھی اس ہی نقش قدم پر چلتے ہوئے کام دھندے کی نئی راہیں تلاش کیں۔ بلڈنگز۔ پلاٹ۔ قبضہ گیری۔چائنا کٹنگ چھوٹے اور بڑے بھائی مل جل کر باہمی رضامندی سے کرتے رہے۔ ان جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ بارہ مئی کے الزام میں وسیم اختر اکیلا ہی فٹ کیوں ہو؟۔۔ پرویز مشرف کو کلین چٹ کیوں ملی ؟ بلدیہ فیکٹری کے ڈھائی سو سوختہ بدن ؟؟؟؟ ان کا وکیل کون بنا ؟ کراچی کو جب بھی اصل مرض سے ہٹ کر صرف دانے پھنسی کے علاج والی دوا سے مرض اپنی جگہ موجود بھی رہا اور جلد کی ایسی تیسی الگ ہو تی رہی۔ پاکستان کو گالی کیا پہلی مرتبہ دی گئی ہے ؟ عسکری اداروں اور رینجرز حکام کے نام لے لے کر دھمکیاں اور قتل کرنے کی ہدایا ت بھی پہلی مرتبہ جاری نہیں کی گئیں۔ موصوف بھائی نے زمانہ طالبعلمی میں ہی پاکستان کے جھنڈے کو نذر آتش کرکے غیر ملکی قوتوں کو اپنی جقنب متوجہ کرلیا تھا۔ مگر کتنا عجیب لگتا ہے کہ جس کو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ وہ ہی بے خبر رہے !!! بوگس ووٹر لسٹوں کے خلاف رٹ، پرچے، درخواستیں عدالتی احکامات ہر چیز ردی کی ٹوکری میں اور اس پر اب تک مردم شماری کا نہ ہونا مزید پریشانی میں مبتلا کرتا ہے۔ چلیں اب تک جو ہوا، سو ہوا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب آگے کیا ہوگا ؟ الطاف حسین کے پاکستان کے مخالفت میں بیانات۔ ہرزہ سرائی اور امریکہ اسرائیل سے مدد مانگنے کی اپیل، پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اس پر اپنے رد عمل کا مظا ہرہ کیا، اور کرنا بھی چاہیے تھا مگر جو شدید رد عمل جماعت اسلامی نے دکھایا، اس جیسا تو حکومت بھی دکھانے میں ناکام رہی ہے جماعت اسلامی کا رد عمل سمجھ میں آتا ہے۔ پاکستان کے لیے ان کی قربانیاں اور خاص کر سابقہ مشرقی پاکستا ن کے لیے 1970 سے آج تک جان کی بازی لگانا اور اس کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہنا یہ جماعت اسلامی کا ہی جگرا ہے۔ اس میں کوئی ابہام و شک نہیں ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی نے پاکستان کی محبّت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا اس جماعت نے ہی ایم کیو ایم کے ہاتھوں کراچی میں اپنے بیشمار کارکنان اور قائدین کی قربانی دی۔ ایک نہیں درجنوں کارکن ایم کیو ایم کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اس لیے جما عت اسلامی کا رد عمل سمجھ میں آتا ہے، مگر تھوڑی دیر کیلیے خود کو جذبات اور دلی کیفیات سے الگ رہ کر سوچیں، (گو کہ یہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ مگر اس کے بناء4 بات بنے گی نہیں)۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج جو کچھ بھی آپریشن کے نام پر کراچی میں متحدہ کے ساتھ ہورہا ہے، ماضی میں بھی ہوا، جس کے مثبت نتائج نہیں نکلے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ مزید مستخکم لسانی قوت بن کر سامنے آئے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جو برا ہے وہ برا ہے۔ کوئی رو رعایت والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر آپریشن کے باوجود ان کے افراد کو کام کرتے رہنے کی آزادی ان معنوں میں کہ وہ فسطا ئیت کا مظا ہرہ کرتے پھریں، ان کو کوئی روکنے والا نہ ہو۔ سیاسی مصلحتوں کے نام پر پرویز مشرف، زرداری اور شریف سب نے اپنے الو سیدھے کئیے۔ آج جو بھی کچھ ہوا کیا ایک دم اچانک ہوگیا ہے ؟ یقیناًایسا نہیں ہے۔ اس کی بہت عرصے سے منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ بیرونی عوامل کو نظر انداز کرکے پاکستان اور کراچی کے مسئلے کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین نامزد ہیں، مگر حکومت برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس پر ہی معاملے چھوڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اگر کوئی گورا ان کے اپنے ملک کا یہ کام کرواتا تو کیا اب تک کھلا گھوم رہا ہوتا ؟ مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ یہ شہری جس کی قومیت کے خانے میں برطانیہ بھی لکھا ہے ایک ایسا گائڈڈ میزائل ہے جو کسی بھی وقت پاکستان پر چھوڑا جاسکتا ہے۔ اور اسی لیے اس قیمتی اثاثے کی اتنی حفاظت بھی کی جارہی ہے منی لانڈرنگ کی سزا تو جرمانہ اور چند سال کی قید ہے، جو عین ممکن ہے جرم ثابت نہ ہونے پر دی ہی نہ جا سکے۔ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں۔ کراچی کے لوگ اس بارے میں اس پروپیگنڈے سے متا ثر ہیں کہ آپریشن اگر شہری علاقے میں ہو رہا ہے تو دیہی علاقوں میں بھی فرشتے نہیں بستے۔ یہ آپریشن صرف مہاجروں کے خلاف کیوں ہورہا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کے شہری غلط سوچ رہے ہیں ؟؟؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں کراچی میں امن نظر آرہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اب شاذ و نادر ہوتی ہے، یہاں کی راتوں کی رونق واپس آرہی ہے۔ اب موبائل فون لیکر آزادانہ گھومنا پھرنا قدرے آسان ہوگیا ہے۔ مگر ایک خاص ڈائریکشن میں افراد کو گھروں سے اٹھانا، غائب کرنا اور پھر پولیس مقابلے میں جان سے مار دینا، اس کا بھی ایک اثر ہے جو بہرحال پڑتا ہے۔اور یہ مزید نقصان پیدا کرے گا۔ ویسے اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اغوا۔ قتل ڈکیتی۔یہ سب منصوبے وڈیروں کی اوطاقوں میں بھی بن رہے ہیں۔ لیاری گینگ وار کے پیچھے کس کا، کن کا ہاتھ ہے ؟ یہ بھی جاننا ضروری ہے، اور جاننا بھی کافی نہیں ان کے خلاف بھی اسی شدت سے آپریشن ہونا چا ھیئے موجودہ حالا ت میں لیکن سیاسی جماعتوں اور خاص کر جماعت اسلامی کو، (کیوں کہ صرف جماعت اسلامی سے ہی یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ زخموں پر مرہم رکھے گی ) مقتدر قوتوں کو مل جل کر اس سازش اور بیرونی عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا منصوبہ بنانا ہوگا جس سے ہاتھوں سے بگاڑا ہوا گیم درست کیا جا سکے۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگ رہا کہ متحدہ کے ہی لوگ پہلے ملک سے باہر نکلتے ہیں . جن پر کئی کئی مقدمات قائم ہیں، مگر جب وہ اس پارٹی سے لاتعلقی کا علان کرکے واپس آتے ہیں تو ایک دم سے شریف اور پاک باز بن جاتے ہیں۔ پھر ان کو پاکستان سے بھی زیادہ معتبر نام دیا جاتا ہے ” پاک سر زمین۔ جس کا جھنڈا بھی پاکستان ہی ہے۔ اس کے بعد اسی گراونڈ پر دوسری ٹیم سے کہا جاتا ہے اب کھل کر جو دل میں ہے بولو ! نتیجہ یہ کہ بھرپور انداز سے پاکستان ناسور ہے کا نعرہ مار دیا گیا۔ ایک بار نہیں بلکہ مسلسل تکرار کے ساتھ یہی بات اپنے مزید خطبات میں دھرائی جاتی رہی۔ اس سمپل سی میتھیمیٹکس کا حاصل ضرب یہ نکلا کہ پاکستان کے مخالف ذہن رکھنے والے ایک طرف ہوگئے اور محبّت کرنے والوں کے پاس پاک سرزمین کا آپشن تو موجود ہے ہی ! آپریشن کرنے والے چورنگیوں سے الطاف کے پوسٹر بیننرز اور تصاویر اتار رہے ہیں اور مکا چوک کو لیاقت چوک میں بدل رہے ہیں۔ کیا واقعی آج کے دور میں نام بدلنے سے چیزیں بدل جاتیں ہیں ؟ میرا سوال ہے ہوسکتا ہے غلط ہو۔ اس کا امکان بھی موجود ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس تجربے میں جیت کس کی ہوگی ؟ کتنے چھوٹے ڈان اور کتنے بڑے ڈان بنیں گے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ آنے والے دنوں میں کراچی بڑے ڈان سے نکل کر کئی چھوٹے ڈانوں کے چنگل میں پھنستا چلا جائے گا۔