“ایک مسکراتی شام “

283

ظہیر خان

پچھلے دنوں کراچی جیم خانہ میں چند مزاح نگاروں کو مدعو کر کے ایک شام منائی گئی۔ جسے ’’ایک مسکراتی شام‘‘ کا نام دیا گیا۔ کراچی جیم خانہ کے ادبی کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر نفیس مبارک باد کے مستحق ہیں کہ کراچی کے ایسے سنجیدہ اور رنجیدہ ماحول میں جہاں ہمیشہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور رہتی ہے۔ کسی مسکراتی شام کا انعقاد ایک مجاہدانہ عمل ہے۔
دو عدد نثرنگار اور ڈھائی عدد شعر نگاروں نے مسکراتی شام کو قہقہوں کی شام میں تبدیل کردیا۔ ڈھائی عدد کی وضاحت کرتا چلوں کہ دو عدد شاعر اور ایک عدد شاعرہ۔
نثرنگاروں میں احمد حاطب صدیقی جو اسلام آباد سے تشریف لائے تھے اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی۔ یہ دونوں ہی حضرات نامی گرامی ہیں اورکسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں پھر بھی احمد حاطب صدیقی کے بارے میں تھوڑی سی گفتگو اس لیے ضروری ہے کہ موصوف پہلے ابو نثر کے نام سے روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں ’زیرو زبر‘ کے عنوان سے طنز و مزاح پر مبنی کالم لکھا کرتے تھے اور قارئین میں بے انتہا مقبول تھے کہ اچانک غائب ہوگئے اور کچھ عرصہ کے بعد جسارت کے اسی ’زیر و زبر‘ کے افک پر دوبارہ نمودار ہوئے مگر اب یہ ابو نثر نہ تھے۔ بلکہ احمد حاطب صدیقی ہوچکے تھے۔ احمد حاطب صدیقی نے محکمۂ پولیس کو اپنا ٹارگٹ بنایا (ٹارگٹ کلنگ کے لیے نہیں) اور ان الفاظ سے سامعین کو روشناس کرایا جن کا استعمال پولیس والے بے دریغ کرتے ہیں۔ اور یہ الفاظ صرف اور صرف انہیں کی لغت میں پائے جاتے ہیں عام لغت ابھی تک ان الفاظ سے محروم ہے (اﷲ کرے محروم ہی رہے تو بہتر ہے) ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے بالکل نئی تحریر نظرِ سامعین کی اس سے قبل یہ تحریر نہ کہیں پڑھی گئی اور نہ شائع ہوئی۔ عنوان تھا ’’چُل‘‘ یعنی انسان کا وہ عمل جو وہ سوچے سمجھے بغیر کرتا رہتا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ یہ اس کی عادت بن چکی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر ’’چُل‘‘ ڈاکٹر صاحب کی چُل کا بہترین نمونہ ہے۔
نثری دور کی صدارت کے لیے جن خاتون کو مسندِ صدارت پر بٹھایا گیا وہ محتاجِ تعارف نہیں ہیں احمد فراز کا ایک شعر حاضر کررہا ہوں اپنی بات کی وضاحت کے لیے۔
میں اس کا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت ٹی وی کے ایسے ڈراموں کی خالق کہ آج تک اس جیسے ڈرامے نہیں لکھے گئے ماضی میں جب ان کے ڈرامے نشر ہوتے تھے تو خواتینِ خانہ باورچی خانے کا سارا کام مکمل کرکے اپنے گھر والوں کے ساتھ ٹی وی کے آگے اس شوخ چنچل حسینہ کو دیکھنے کے لیے بیٹھ جایا کرتی تھیں جو بے باک بھی ہوتی تھی اور نڈر بھی۔ اور یہی ڈرامے کا اہم کردار ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ کردار تھا جو مدتوں ناظرین کے ذہنوں پر سوار رہا۔ ’شہزوری‘ ’انکل عرفی‘ ’ان کہی‘ جیسے ڈرامے آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ تو قارئین آپ یقیناًانہیں پہچان گئے ہوں گے یہ ہیں محترمہ حسینہ معین صاحبہ۔
نظامت بھی ایک خاتون کے حوالے تھی۔ بہت اچھی شاعرہ ہیں ڈاکٹر نزہت عباسی کئی شعری مجموعوں کی خالق ہیں ادب میں پی ایچ ڈی ہیں۔ درس و تدریس سے تعلق ہے کراچی کے ایک کالج میں لیکچرر ہیں کسی کو مائیک پر آنے کی دعوت ایسے دل کش انداز میں دیتی ہیں کہ آنے والا بھی خوش اورسامعین بھی خوش۔ ان کی نظامت نے مسکراتی شام کی فضا کو اور بھی زیادہ خوش گوار بنا دیا۔ شعری دور کے آغاز سے قبل صدارتیں تبدیل ہوئیں، جناب اکرام الحق شوق کی صدارت میں اس دور کا آغاز ہوا۔ روبینہ بینا نے چند قطعات سے سامعین کو محظوظ کیا اس کے بعد سعید آغا صاحب مائیک پر تشریف لائے۔ سعید آغا کا اشعار پڑھنے کا ایک مخصوص انداز ہے مستقل مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہوتی ہے۔ دلاور فگار کے شاگردوں میں ہیں اشعار میں طنز کے ساتھ مزاح بھی ہوتا ہے پھکڑ پن نہیں ہوتا۔ الفاظ کا استعمال مناسب اور معقول ہوتا ہے۔ جس مشاعرے میں کلام پڑھتے ہیں جان ڈال دیتے ہیں۔ ان کے مداح بے شمار ہیں قطعات دورِ حاضر کے مسائل کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ قطعات حاضرِ خدمت ہیں۔
ہسپتالوں کے ہی چکر نہ مقدر ہوجائیں
کس کڑے وقت میں یورو کی مدد پائی ہے
جب سے ڈالر کے مثانے میں ہوا انفکشن
یورولاجی بھی معیشت میں چلی آئی ہے
*
کاتب کا یہ کرشمہ بھی کیجیے ملاحظہ
یوں خاک میں ملادیا اتنے گریڈ کو
نکتہ عجب سُجھا دیا نکتہ بڑھا کے ایک
بیورو کرپٹ کردیا بیورو کریٹ کو
اسد جعفری کو پہلی مرتبہ تفصیل سے سننے کا اتفاق ہوا۔ اچھی شاعری کرتے ہیں مگر گوشہ نشین ہیں مشاعروں میں نظر نہیں آتے۔ پہلے سنجیدہ شاعری کرتے تھے۔ مگر بقول ان کے سامعین کو ان کی سنجیدہ شاعری پسند نہ آئی اور داد کم اور بے داد زیادہ ملتی تھی لہٰذا انہوں نے غیر سنجیدہ شاعری شروع کردی اور اب بڑی سنجیدگی سے غیر سنجیدہ شاعری کررہے ہیں اور کامیاب ہیں۔ چند قطعات ملاحظہ کیجیے۔
چور جب پکڑا گیا گھر میں تو شاعر نے کہا
آؤ تم کو ہم نئی غزلیں سنانے لے چلیں
چور نے ہنس کر کہا میں اتنا پاگل تو نہیں
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو آپ تھانے لے چلیں
*
کلامِ حضرتِ اقبال پڑھنے کو پڑھا سب نے
اگر ان کو نہیں سمجھا تو پھر کاوش ادھوری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی
مگر اس پر عمل پیرا نہ نورا ہے نہ نوری ہے
*
اک سائلِ مجبور نے رشوت کا لفافہ
افسر کو ادباً میز کے نیچے سے دیا ہے
ہے طُرفہ تماشا کہ اُسی میز کے اوپر
تختی پہ لکھا ہے کہ ’’خدا دیکھ رہا ہے‘‘
اسد جعفری کے کلام پڑھنے کے بعد ڈاکٹر نفیس نے احباب کا شکریہ ادا کیا اور سب کو چائے کی دعوت دی ڈاکٹر نفیس نے ہائی ٹی کا زبردست اہتمام کیا تھا پکوڑے کیا شاندار تھے اور دہی پھلکی کا تو جواب ہی نہیں۔
مسکراتی شام زیرِ لب مسکراتی ہوئی آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی حاضرینِ محفل خوش تھے ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اس طرح کی محافل سامعین کے لیے ٹانک کا کام کرتی ہے۔ محفل اپنے اختتام کو پہنچی مگر ایک مجمع تھا جس نے مزاح نگاروں کو گھیرا ہوا تھا۔ لوگ طرح طرح کے سوالات کرکے اپنے آپ کو مطمئن کررہے تھے۔ کچھ ایسے بھی جو ان کے ساتھ تصاویر بنوا کر فخر محسوس کررہے تھے۔ مجھے علّامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا۔
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
اب اس خاکسار کو اجازت دیجیے‘پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔