بلریا گنج کے حکیم جی

200

سید خرم عباسی

ایک نمایاں سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے ابا کو بلریا گنج میں تحریک کا کام شروع کرنے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی۔ مخالفت کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ فکر مودودی کی کشش، کچھ ان کا قائدانہ کردار، چراغ سے چراغ جلتا گیا۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ یہ اس علاقے میں تحریک اسلامی کے پنپنے کے دن تھے۔ کارکنان میں ایک نیا جوش اور ولولہ تھا۔ جگہ جگہ اجتماعات ہوتے۔ ذمہ داران کی آمد ہوتی۔ آنے والے قائدین میں مولانا حبیب اللہ ملک قاسمیؒ ، سید حامد حسینؒ ، سید حامد علیؒ صاحبان جیسے بزرگ شامل تھے۔ ان نیک نفوس کی انتھک محنت اور خلوص نیت کے نتیجے میں بہت ہی قلیل مدت میں بلریا گنج اور اس کے اطراف کے مواضعات میں تحریک اسلامی کا پودا ایک تناور شجر کی صورت اختیار کرگیا۔ ابا نے بڑی ہی جانفشانی سے اس شجر کی باریابی کی۔
یہ بتانے والے بزرگ قائدین تو خلد آشیانی ہوئے کہ اس غیر معروف قریہ میں کیا کشش تھی کہ پورے ضلع اعظم گڑھ میں تحریک اسلامی کی توجہ کا خاص مرکز تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلریا گنج تحریک کو اتنا راس آیا کہ بہت جلد ہی یہ نہ صرف اترپردیش بلکہ پورے ملک میں اس کی پہچان بن گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب تحریک اسلامی کی رہنمائی اور تعاون سے اہالیان قریہ نے قدیم مقامی مکتب کو ایک دینی درسگاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹا سا مکتب ایک عظیم الشان دانش گاہ جامعتہ الفلاح میں تبدیل ہوگیا۔
جامعہ کی تاسیس میں ابا کا کیا کردار تھا؟ اس کی تعمیر وترقی میں ان کا کیا تعاون رہا؟ اس کے طلبہ اور اساتذہ سے ان کے تعلقات کی کیا نوعیت تھی؟ ہم یہ تجزیے اوروں کے لئے چھوڑتے ہیں۔ ہمارے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ جامعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی اس سے کیا توقعات وابستہ تھیں؟ ابا کی گفتگو، ان کے خطوط، ان کی تحریریں گواہ ہیں کہ ان کے لئے جامعہ کے درو دیوار سے زیادہ اہم وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جامعہ بحیثیت ایک ادارہ ان کو محبوب تو تھا لیکن اسے اپنا وقت، صلاحتیں اور توانائیاں دیتے وقت ان کے سامنے وہ اعلیٰ نصب العین ہوتے تھے جو تحریک اسلامی میں شامل ہوتے وقت انہوں نے اپنے سامنے رکھے تھے۔ جامعہ کا قیام ان کے نزدیک تحریک اسلامی کے نصب العین کے حصول کا ایک ذریعہ تھا نہ کہ مقصد۔ جامعہ اور اس کے متعلق اداروں سے ان کی دلچسپی کا محور بس یہی پیمانہ تھا۔ وہ ایک طویل عرصے تک جامعہ کی مجلس انتظامیہ اور عاملہ کے ممبر رہے۔ لیکن ان کے پاس کبھی بھی کوئی عہدہ نہیں رہا۔ انتظامی امور میں ان کی کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں تھی۔ لیکن اسے ان کا بھرپور تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔
آیئے جامعتہ الفلاح سے ذرا ہٹ کر بلریا گنج میں تحریک کی سرگرمیوں کا ایک جائزہ لیں۔ ماضی کے دھند لکے سے یادوں کے جگنو چمکتے ہیں۔
***
ابا کا پرانا کھپریل مکان۔۔۔! بڑے سے آنگن میں فرش بچھا ہوا ہے۔ ایک کنارے تخت پر ایک پروقار خاتون بیٹھی درس دے رہی ہیں۔ یہ تحریک اسلامی کی مشہور شخصیت بیگم قیصر نیازی ہیں۔ کان پور سے آئی ہیں۔ پورے گاؤں سے خواتین جمع ہیں۔ سب ہمہ تن گوش۔۔۔!
***
مغرب بعد کا وقت ہے۔ گھر کے باہر صحن میں کوئی پروگرام ہونے والا ہے۔ کافی لوگ جمع ہیں۔ نیم کے درخت کے نیچے دور تک فرش بچھا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہورہا ہے۔ گیس کے ہنڈے جل رہے ہیں۔ بلریا گنج کی خوش قسمتی کہ معروف عالم دین مولانا جلیل احسن ندویؒ جامعتہ الفلاح میں استاد ہیں۔ آج ان کا درس ہونے والا ہے۔ مولانا چلنے سے معذور ہیں۔ جامعہ کے ایک استاد مولانا کو سائیکل پر لے کر آتے ہیں۔ مولانا کا درس جاری ہے۔ سیکڑوں کا مجمع خاموشی سے سن رہا ہے۔
***
تحریک کے مرکزی قائدین تشریف لائے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز صاحبؒ کی تقریر کے بہت چرچے ہیں۔ بعد نماز مغرب مطب کے صحن میں خطاب عام کا پروگرام ہے۔ اطراف کے مواضعات سے کثیر تعداد میں لوگ سننے کے لئے چلے آرہے ہیں۔ وسیع صحن تنگ پڑ جاتا ہے۔ اسٹیج کے پیچھے بڑا سا بینر لگا ہے۔ ایک خدا، ایک انسان، ایک قرآن، ایک نظام۔
***
سید حامد حسین صاحبؒ کا خطاب۔۔۔! بازار کی مسجد کے سامنے مڈل اسکول کا میدان۔ سید صاحب کا دلکش انداز بیان۔۔۔! تقریر کے دوران رفتہ رفتہ شیروانی کا بٹن کھولتے ہیں۔ دیہی پس منظر میں اردو تقریر کے دوران بیچ بیچ میں انگریزی الفاظ کا استعمال۔ مجمع مسحور ہو کر سنتا ہے۔
***
ناظم ڈویژن مولانا شبیر صدیقی صاحبؒ کا دورہ ہے۔ گاؤں کی مسجد میں آج جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ اتنا موثر، دل کو چھولینے والا انداز۔ شاید ہی مسجد میں کوئی ہو جس کی آنکھیں نم نہ ہوں۔
***
ابا کا نیا مہمان خانہ۔ تاریخی بیٹھک جو بلریا گنج میں تحریک اسلامی کے ارتقاء کی گواہ تھی، اب قابل استعمال نہیں رہی۔ عشاء بعد کا وقت۔ تحریکی کارکنان جمع ہیں۔ درمیان میں ایک میز پر سونی کمپنی کا بنا ٹیپ ریکارڈر۔ ایک کنارے اسٹول پر چائے کی بڑی سی کیتلی۔۔۔ عجب ساولولہ ہے۔ مولانا مودودیؒ کی ایک تقریر ’’جماعت اسلامی کے انتیس سال‘‘ کا کیسٹ آیا ہے۔ قائد سے عقیدت ہے۔ سننے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں۔
***
چاند رات۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے رؤیت کی تصدیق ہوئی ہے۔ حاجی امانت صاحبؒ کی بیٹھک۔۔۔ ابا چند رفقاء کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ارکان جماعت ہی کے لڑکے بھی آئے ہوئے ہیں۔ کوئی غیر متعلق نہیں۔ آٹا اور چاول کی بوریاں سلیقے سے رکھی ہیں۔ صدقۂ فطر کی تقسیم ہونی ہے۔ رسول کریمﷺ کے حکم کی تعمیل ہے۔ خبردار عید کے دن کوئی بھوکا نہ رہ جائے۔ معزز گھروں کے یہ لڑکے رات کے اندھیرے میں سروں پر ٹوکریاں میں راشن کے پیکٹ لئے آہستہ سے ضرورت مندوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ ہدایت ہے کہ بات راز کی ہے پڑوسی کو بھی پتہ نہ چلے۔ عزت نفس کا سوال ہے۔ احترام ضروری ہے۔
***
ابا کا تحریکی سفر حسب معمول جاری تھا۔ باقاعدگی سے اجتماعات میں شرکت کرتے۔ حلقہ کی شوریٰ کے اجلاس میں جاتے۔ دعوتی سرگرمیوں میں مشغول رہتے کہ اچانک ایک تاریخی لمحہ آیا۔۔۔ یہ ۱۹۸۵ء کی بات ہے۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ایک فیصلے کے تحت ارکان جماعت کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر عائد پابندی ہٹالی اور ان کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ ملکی انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرسکتے ہیں۔ ارکان کی ایک بڑی تعداد نے اس تنظیمی فیصلے کے خلاف عدم اطمنان کا اظہار کیا۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ آیا یہ فیصلہ درست تھا یا غلط؟ یہ جماعت کا ایک اندرونی معاملہ تھا، جس پر یہاں ہم بحث کرنے کے مجاز نہیں۔ بات ہے ابا کے موقف کی، وہ ارکان کے اس گروہ میں شامل تھے جو نہایت نیک نیتی سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ فیصلہ جماعت اسلامی ہند کی بنیادی فکر سے متصادم ہے۔ نیز انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ہم سیاسی لیڈروں کے حاشیہ برادر بن جائیں گے اور جماعت دینی تحریک کے بجائے ایک ملی جماعت بن جائے گی۔
اس غیر مطمئن گروہ میں کون کون سے قائدین شامل تھے؟ انہوں نے کن ذرائع سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے جذبات میں آخر جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی؟ افہام وتفہیم کی کتنی کوشش ہوئیں؟ کتنے سخت خطوط کا تبادلہ ہوا؟ مرکز نے کیا تادیبی کارروائیاں کیں؟ ان باتوں کے ذکر کا یہ محل نہیں۔ ذکر ہے ابا کے رویے کا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس فیصلے کے خلاف ان کے جذبات بہت شدید تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار پر فورم پر کیا۔ مرکزی قائدین کو سخت خطوط لکھے۔ اجتماعات میں سخت موقف اپنایا۔ ارکان کے اجلاس میں کھل کر فیصلے کی مخالفت کی۔ لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تأمل نہیں ہے کہ ان کا سخت موقف نظم جماعت کے اندر رہ کر تھا۔ انہوں نے قائدین کا احترام بہتر صورت ملحوظ خاطر رکھا۔ نظم جماعت کے باہر زندگی کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کے متعلق جب اس طرح کی باتیں منسوب کی گئیں تو انہیں بہت تکلیف پہنچی۔ ایک اعلیٰ مرکزی ذمہ دار کو بڑے ہی درد بھرے لہجے میں لکھا۔
’’ان شاء اللہ آپ ہم کو ہرحال میں صابر پائیں گے۔ ہم جماعت کی نچلی سیڑھی پر بھی بیٹھ کر ان شاء اللہ اسی طرح جماعت کی خدمت کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو جماعت سے اپنی بات کو منوانے کے لئے بار بار جماعت سے باہر نکلنے کی دھمکی دیں۔ استعفے پیش کریں اور شدت جذبات میں آکر باہر نکل جائیں۔ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ بے جماعتی کی زندگی گزاریں۔‘‘
جماعت کے اندر جینے اور جماعت ہی کے اندر مرنے کا آرزو مند
حکیم محمد ایوب
اس بات کو ایک مدت بیت گئی۔ رفتہ رفتہ نظم جماعت، شوریٰ کا فیصلہ، اطاعت امیر جیسے بھاری تنظیمی دباؤ میں آکر اختلافی لہجے سرد ہوتے گئے۔ لگتا تھا ابا مطمئن تو نہیں ہوئے ہیں لیکن نظم جماعت کے پیش نظر فیصلے کو قبول کرلیا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ وہ جماعت سے کچھ ناراض سے ہیں۔ اسی دوران ارکان جماعت کے کل ہند اجتماع کا اعلان ہوا۔ ایک دن ڈاک سے ان کے نام ایک خط آیا۔
مکرمی ومحترمی حکیم محمد ایوب صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ رحمت وعافیت اور مزید توانائی سے نوازے۔
اس اجتماع ارکان ۱۹۹۷ء کے میدان اور آڈیٹوریم اور قیام گاہوں کے انتظامات کے دوران آپ اور مولانا صدرالدین صاحب یاد آتے رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو اس میں شرکت کا موقع عطا فرمائے۔ میں نے بطور خاص آپ جیسے بند بزرگوں کے لئے الگ سے دو تین ویسٹرن اسٹائل بیت الخلاء کا انتظام بھی کیا ہے اور آپ کا قیام آڈیٹوریم سے قریب پختہ بلڈنگ میں اترپردیش کے رفقاء کے ساتھ کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو مشکور فرمائے۔
میری طرف سے اپنے فرزندوں اور دختراں اور گھر والوں کے علاوہ رفقاء کی خدمت میں سلام مسنون۔
عبدالعزیز
ناظم اجتماع ورکن شوریٰ