خواجہ اظہار کی ڈرامای گرفتاری

194

محمد انور

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکزی ترجمان خواجہ اظہارالحسن کے گھر پر چھاپہ ، پھرمتنازعہ پولیس افسر راؤ انوارحمد کے ہاتھوں خواجہ اظہارکی ڈرامائی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب کراچی میں جرائم پیشہ اور بدعنوان افسران کے خلاف رینجرز اور پولیس کا ’’ کراچی آپریشن ‘‘ جاری ہے۔اطلاعات ہیں کہ خواجہ اظہار کی گرفتاری پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سخت ایکشن لیا اور خواجہ اظہار کی گرفتاری کے طریقہ کارپر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایس پی راؤ انوار کو معطل کردیا ہے جبکہ ڈی آئی جی ایسٹ ڈاکٹرکامران فضل کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نے خواجہ اظہار کی جلد رہائی کا بھی حکم جاری کیا ہے۔وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی برہمی کی وجہ ان کی جمہوری حکومت ہے ، جمہوری حکومت میں کراچی کی ایک بڑی جماعت سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف کو سرے عام سیکڑوں لوگوں اور پارٹی کے قائد ڈاکٹر فاروق ستار کے سامنے گرفتار کرنے کا عمل کوئی ڈرامے سے کم نہیں ہے ۔ ویزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار کی گرفتار ی سے قبل اجازت لینی ضروری تھا ۔ اور گرفتاری کا طریقہ بھی درست نہیں تھا اسی وجہ سے ایس ایس پی کو معطل کیا گیا ہے ۔ تحقیقات کے بعد اس کے خلاف مزید کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔
یہ سب کچھ جمعہ کو محض پانچ گھنٹوں میں ہوا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ راؤانوار نے کس کے اشارے پر اور کیوں کیا تھا، جس کی وجہ سے خود بھی پریشان ہوچکے ہیں۔راؤ انوار وہ پولیس افسر ہیں جو اسی کی دہائی میں براہ راست اے ایس آئی بھرتی ہوئے تھے ۔ وہ سابق ڈی ایس پی محمد شریف کے خاص ماتحت میں شامل تھے ۔ محمد شریف وہ پولیس افسر رہ چکے ہیں جوتعلیمی قابلیت نہ ہونے کے باوجود کسی طرح ڈی ایس پی کے عہدے پر پہنچے بعد ازاں ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر بھی خدمات انجام دیتے رہے ۔محمد شریف اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں تاہم ان کے شاگرد راؤ انوار ترقی کرتے کرتے اب ایس پی بن چکے ہیں ۔ ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے متعدد افسران تاحال ڈی ایس پی سے آھے نہیں بڑھ سکے ۔راؤ انوار کے سیاسی شخصیات سے سی طرح اچھے تعلقات ہیں جیسے ان کے استادچوہدری محمد شریف کے سیاست دانوں سے ہوا کرتے تھے ۔ چوہدری محمد شریف کے محمد نواز شریف اور نے نظیر بھٹو سے غیر معمولی مراسم تھے ۔ اسی طرح راؤ انوار کے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے گہرے مراسم ہیں۔یہ وہ مراسم ہیں جس کی وجہ سے راؤ انوار ہمیشہ ہی اپنی خواہشات کے مطابق پوسٹنگ لیتے رہے ۔
ایس ایس پی ملیر ہوتے ہوئے وہ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کے حکم پر معطل ہوچکے ہیں۔تاہم جمعہ کو معطل ہونے کے بعد راؤ انوار کا لب و لہجہ تبدیل تھا ان کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بغیر انکوائری کے معطل کیا گیا ہے ، میں نے خواجہ اظہار کو قانون کے مطابق گرفتار کیا گیا ہے ۔ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ مجھے قانونی کارروائی کرنے پر سرکاری طور پر دھمکیاں دی جارہی ہیں ، ایسے میں میں اب میں پولیس سروس سے استعفیٰ دینے کا سوچ رہا ہوں ، ہوسکتا ہے کہ میں پولیس سروس چھوڑ دوں۔
راؤ انوار ایک افسانوی کردار کی طرح معاشرے میں پولیس افسر کا کردار ادا کرتے رہے ۔تقریباََ ہر پولیس مقابلہ جو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کرتی رہی وہ متنازع اور مشکوک رہا ۔ جبکہ ایک سے زائد مقدمات کو عدالت بھی جعلی قرار دیگر ایس ایس پی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے چکی ہے۔
اچانک خواجہ اظہار کے گھر چھاپے اور پھر کچھ وقفے کے بعد ان کی گرفتاری کی خبر پرعام لوگوں کا خیال ہے کہ راؤ انوار جو کہ ماضی میں مقدمات کے باوجود عامر لیاقت کو گرفتار کرنے سے گریز کیا وہ بغیر کسی کے اشارے پر خواجہ اظہار کو گرفتار نہیں کرسکتے ۔راؤ انوار نے خواجہ اظہار کو جس انداز سے گرفتار کیا وہ انداز دہشت گردوں کے طریقہ کارسے کم نہیں تھا ۔جس طرح بعض دہشت گردی کے واقعات میں پہلے فائرنگ کی گئی اور بعدازاں لوگوں کے جمع ہونے پر دھماکا کرکے متعدد افراد کو شہید کیا گیا بالکل اسی طرح راؤ انوار کی ٹیم نے جن میں بعض افراد چہرے پر نقاب بھی باندھے ہوئے تھے پہلے خواجہ اظہار اور ان کے پڑوس کے گھروں پر جاتے ہیں ہیں وہاں بغیر وارنٹ کے تلاشی لیکر چلے جاتے ہیں ۔ جب خواجہ اظہار کے گھر پر پولیس کی کارروائی کی خبر عام ہونے پر خواجہ اظہار کے ساتھ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی ان کے گھر پہنچتے ہیں تو ایس ایس پی راؤ انوار اپنئی پولیس ٹیم کے ساتھ خود پہنچ کر خواجہ اظہار کو سب سے سامنے گرفتار کرکے زبردستی لے جاتے ہیں۔جبکہ اس سے قبل خواجہ اظہار کے گھر پولیس کی کارروائی کی اطلاع پر آئی جی سند ھ ، ایس ایچ اور سہراب گوٹھ کو معطل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ انتظامی لحاظ سے کراچی ضلع وسطی کے علاقے بفرزون میں پولیس کے ڈسٹرکٹ ملیرکی پولیس کی کارروائی چونکہ اعلیٰ حکام کی اجازت اور پولیس قانین کے مطابق نہیں کی گئی تھی اس لیے آئی جی نے ایس ایچ اوسہراب گوٹھ کو معطل کیا تھا ۔ ضلع ملیر پولیس نے ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر یہ کارروائی کی تھی ۔جبکہ علاقہ تیموریہ پولیس کو باقاعداہ اس کارروائی سے مطلع بھی نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے چھاپہ مارٹیم میں شامل ایس ایچ او سہراب گوٹھ کو فوری معطل کیا گیا۔ ایس ایچ او سہرا ب گوٹھ کی معطلی پرایس ایس پی راؤ انوار جو اپنے آپ کو چمپئین پولیس افسر سمجھتے ہیں ، خود بھاری پولیس کے ساتھ دوبارہ خواجہ اظہار کے گھر پہنچتے ہیں اور خواجہ اظہارکو سب کے سامنے پولیس کے روایتی انداز میں کھنچتے ہوئے لے جاتے ہیں۔حیر ت اس بات پر تھی کہ راؤ انوار نے قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما اور ایم کیو ایم پاکستان کے قائد ڈاکٹر فاروق ستار کیطرف سے وارنٹ دکھانے کا مطالبہ بھی نظر انداز کرکے خواجہ اظہار کو ساتھ لے گئے ۔ اس کارروائی کے دوران اظہار الحسن کی اہلیہ بہن اور والدہ بھی راؤ انوار کو ایسا کرنے سے روکتی رہیں لیکن پولیس نے کسی کی بھی نہیں سنی۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
راؤ انوار نے خواجہ اظہار کو کیوں اور کس کے اشارے پر گرفتار کیا؟
اس واقعہ پر باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ راؤ انوار بلا خوف و خطر ’’ پولیس ایکشن ‘‘ اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں براہ راست پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ’’ سیاسی حالات ‘‘ کو تبدیل کردینے کا جادو رکھنے والی مذکورہ شخصیت نے کراچی آپریشن کو متنازع بنانے کے لیے یہ کارروائی کی ۔ تاکہ کسی بھی طرح کراچی میں جاری آپریشن التواء کا شکار ہوجائے ۔ کریمنل اور کرپٹ افراد کی گرفتاریوں کاس سلسلہ ختم ہو ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وجہ سے راؤ انوار نے خواجہ اظہار کی گرفتاری کے لیے دو مرحلوں میں کارروائی کی ۔ذرائع نے بتایا ہے کہ راؤ انوار کو یہ توقع نہیں تھی کہ اس ’’ ڈرامائی ‘‘کارروائی کے اثرات ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہونگے اور انہیں فوری طور پر معطل کردیا جائے گا۔شائد یہی وجہ ہے کہ راؤ انوار نے اپنی معطلی کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں نے جو کارروائی کی قانون کے مطابق کی مگر مجھے گرفتارکرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب تو میں پولیس سروس سے مستعفی ہونے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ‘‘۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
ڈی آئی جی ڈاکٹر کامران اور راؤ انوار
راؤ انوار کے ساتھ ڈی آئی جی کامران افضل بھی اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کے گھر چھاپے کی کارروائی کی زد میں آگئے ہیں ۔ راؤ انوار کی طرح ڈی آئی جی کامران کو بھی سیاسی شخصیت کی پشت پناہی حاصل تھی جس کی وجہ سے گزشتہ دو سال سے وہ ایک ہی ضلع میں تعینات تھے ۔ مذکورہ ڈی آئی جی کی خدمات وفاق کے حوالے کردی گئی ۔موصوف اپنے ایک عزیز ایس پی کو بھی اپنے ہی ماتحت رکھا کرتے تھے تاہم چند روز قبل ان کے رشتے دار ایس پی کو محکمہ جاتی انکوائری کے بعد پولیس ہیڈکوارٹر بھیج دیا گیا تھا ۔کامران افضل جب تک ڈی آئی جی ایسٹ رہے تھانوں کی پولیس کی طرف سے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرکے بھاری رقوم رشوت کا سلسلہ جاری رہا ۔ خیال ہے کہ اب یہ سلسلہ بند ہوجائے گا اور ضلع کے لوگ سکون کا سانس لیں گے۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
خواجہ اظہار کی رہائی ۔ پولیس کی اندھا دھن کارروائیوں کی ناکامی ۔
پولیس نے جمعہ کی شب تقریباََ آٹھ بجکر 20منٹ پر خواجہ اظہار الحسن رہا کردیا گیا ۔ اس طرح خواجہ اظہار تقریباََ پانچ گھٹنے پولیس کی تحویل میں رہے ۔اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری اگرچہ پولیس کی جانب سے قوانین کے خلاف کارروائیوں کاسلسلہ کا حصہ تھی تاہم سچ تو یہی ہے کہ خواجہ اظہار الحسن کی رہائی سے اس غلط روایات کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ۔ جبکہ ساتھ ہی مراد علی شاہ نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے استحکام کے لیے سرگرم ہے اور وہ جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں۔