طریقہ ابراہیمی ؑ اعصابی وجسمانی صحت

226

حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے مختلف واقعات ہمیں زندگی گزارنے کے اصول دیتے ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کر کے اعصابی و جسمانی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے واقعات قرآن میں آتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ ایک ایسی قوم یا گروہ کے ساتھ رہے جو ستاروں کی عبادت کرتے تھے۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھتے۔ یہ ستاروں کی خسوصیات بیان کرتے یہ رات کو روشنی دیتے ہیں۔ اندھیری رات میں یہ رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ کون سا راستہ کس طرف ہے۔
ستاروں کے ذریعے سمت معلوم کرنے کا سلسلہ ہزاروں سال تک انسان استعمال کرتے رہے ہیں۔ ستاروں کے دیکھ کر قافلے صحراء میں رات کو سفر کرتے تھے۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جو بالکل صحیح ہیں۔ ابراہیمؑ صبر و تحمل کے ساتھ ان کی گفتگو سنتے۔ کیونکہ اس مٰں حقیقت بھی تھی۔ لیکن یہ غلط نتیجہ وہ ساتھ ہی نکال لیتے کہ ان حقائق کی وجہ سے ہمیں ان کی پوجا کرنی چاہیے۔ جب ستارے غروب ہو جاتے تو ابراہیمؑ انہیں Realize کراتے کہ یہ تو ڈوب گئے۔ اب کون رہنمائی کرے گا۔ راستہ دکھائے گا، انہوں نے اس بات کو کہا یہ تو سچ ہے۔
اسی طرح ابراہیمؑ چاند کو ماننے والی قوم کے ساتھ رہے۔ انہوں نے دلائل دیے کہ یہ روشن ہے۔ رات کو روشنی ملتی ہے۔ اس کے گھٹنے بڑھنے سے مہینہ کی تاریخوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح مہینوں کی پلاننگ کر سکتے ہیں۔ اور زندگی کی پلاننگ کرنا آسان ہے۔ ہم اس کی پوجا کرتے ہیں۔ابراہیمؑ نے تحمل سے ان کے دلائل سنے اللہ کے نبی تھے۔ جانتے تھے یہ یہ سب غلط کہہ رہے ہیں۔لیکن چاند کے جو فائدے انہوں نے بتائے وہ حقیقت تھے۔لیکن پوجا والی بات غلط تھی۔ آپؑ نے ان کی بات سنی۔ ان کے دلائل کے بعد غلط نتیجہ جو انہوں نے نکالا یعنی یہ چاند رب ہے۔ سنا لیکن خاموش رہے۔ جب چاند چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو چلا گیا، اب کیا ہو گا۔ دن میں تو یہکوئی کام نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا یہ تو آپ کی بات صحیح ہے۔ آپ نے پہلے ان کو Observe کرنے۔ خود تجربہ سے گزرنے کا موقع دیا اور پھر جب وہ مشاہدہ کر چکے تو انہیں بتایا کہ غیرمستقل چیز رب نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح حضرت ابراہیمؑ سورج کے پجاری گروہ کے ساتھ رہے۔ سورج کو دیکھ کر آپ نے ان کی اس بات کی تائید کی کہ یہ تو واقعی بہت بڑا اور روشن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سورج زندگی کے مسائل حل کرتا ہے۔ اس کیر وشنی سے پودے، فصلوں کو توانائی ملتی ہے۔ سردی سے ہم بچتے ہیں۔ دن رات کا پتا چلتا ہے۔ ابراہیمؑ نے ان کے مشاہدوں اور تجربات کی تائید کی۔ لیکن جب سورج غروب ہو گیا۔ تو آپ نے انہیں کہا کہاں گیا؟ یہ تو رات کو نہیں ہوتا، پھر یہ غیرمستقل چیز ہے۔ ابراہیمؑ ان کی باتیں سنتے رہے تھے۔ ان کے ساتھ تھے۔ ان کی کسی بات کی مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے بھی آپؑ کی بات سنی اور کہا واقعی یہ تو غائب ہو گیا۔
آپؑ نے ان کے مشاہداتی تجربہ کے بعد انہیں بتایا کہ میں آپ لوگوں سے مختلف رائے رکھتا ہوں۔ جو چیز غائب ہو جائے وہ رب نہیں ہو سکتی۔ رب تو ایسا ہو جو ہر وقت موجود ہو۔
قرآن مجید میں اللہ نے واقعہ بیان کیا یہ ہماری ہدایت کے لیے رہنما اصول دیتا ہے۔ اگر ہمیں کسی قوم، گروہ، افراد چاہے وہ ہم سے، ہماری بات چیت سے، ہمارے ذہن میں موجود طرز زندگی سے، ہمارے مذہب سے۔ کتنا ہی اختلاف رائے رکھتے ہوں۔ ان سب سے اور دیگر افراد سے بھی بات کرنے کے سنہری اصول ہمیں مل گئے۔ یہ اصول وہ ہیٰں جنپر عمل کر کے ہم اپنی اعصابی و جسمانی صحت کا خود بھی اور دوسروں کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کے دیے ہوئے اصول:
1۔ دوسرے کی بات چاہے کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو تحمل سے سننی چاہیے۔
2۔ کسی کی بات کی مخالفت نہ کریں۔ اس کے ذہن میں جو چیزیں ہیں، جو خیالات، جذبات، تجربات، احساسات ہیں وہ فرد یا گروہ اس مطابق بات کر رہا ہے۔ جب ہمیں اس کے دل و دماغ کے اندر کی بات کا معلوم ہی نہیں تو اس کی بات کو ایک دم غلط نہیں کہنا چاہیے۔ چاہے وہ اتنی غلط جتنی یہ چاند، سورج، ستارے کو رب ماننے والے پیغمبر ابراہیمؑ کے سامنے کر رہے تھے۔
3۔ دوسرے افراد، گروہ، خاندان، ملک، جماعت یا جو بھی ہو اس کے ساتھ رہ کر اس کی صحیح باتوں کی تائید کرنی چاہیے۔ اس طرح اس کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وقت گزارنا ضروری ہے اور اسے اپنے سامنے مشاہدہ کروائیں۔ تا کہ جو دلیل آپ کے پاس ہے اسے آنکھوں سے دیکھ لے۔ جیسا کہ ابراہیمؑ نے سورج، چاند ستارے والوں کے ساتھ رہ کر مشاہدہ کروایا۔
4۔ کسی کے ذہن کو بدلنے کی کوشش نہ کریں صرف Observation کرائیں۔ ساتھ رہنے سے وہ آپ کی بات سن سکتا ہے۔
5۔ مشاہدہ کے بعد حکمت سے صحیح بات بتا دیں۔
6۔ ایسے فرد، گروہ، خاندان، جماعت، ملک ے لوگوں پر تنقید نہ کریں۔ دیکھا تم غلط تھے میں ٹھیک تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے ان کی کسی ماضی کی بات کو غلط نہیں کہا بلکہ آپ نے صرف مشاہداتی تجربہ پر بات کی۔
ابراہیمؑ چونکہ ریسرچ کے بانی ہیں۔ اس لیے انسانی دماغ میں معلومات کس طرح استوار ہوتی ہیں۔ کیسے انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق ماڈرن سائنسی تحقیقی کی چند چیزیں بیان کرتے ہیں۔
انسانی دماغ میں مختلف کیمیکلز ہوتے ہیں۔ جس کے ذریعے معلومات منتقل ہوتی ہیں۔ جمع ہوتی ہیں۔ کم اور زیادہ ہوتی ہیں،تبدیل ہوتی ہیں۔ اور ان کیمیکلز کے ننے اور ٹوٹنے میں وقت لگتا ہے۔
ابراہیمؑ نے جو طریقہ کار دیا ہے اس میں دماغ کی کیمیکلز کی تبدیلی میں جو وقت لگتا ہے۔ مشاہدہ سے جو تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان کا خیال رکھا گیا ہے۔
ہم نے اکثر اسپتالوں میں یہ آیت قول ابراہیم دیکھی ’’جب بیمار ہوتا ہوں وہی شفا دیتا ہے‘‘۔ واقعی آپؑ کے اس قول میں وہ سائنسی ریسرچ کا خزانہ ہے۔ جسے ظاہر ہونے میں ہزاروں سال بھی کم ہیں۔
ہم ابراہیمؑ کے دیے گئے ان سنہری اصولوں سے جن پر عمل کر کے اپنی اور دوسروں کی اعصابی و جسمانی صحت کا خیال رکھا جا سکتا ہے بیان کریں گے۔
تا کہ طریقہ طریقہ ابراہیمیؑ کی پیروی کر کے ہم صحت مند رہ سکیں۔