فاروق ستار کی عادت

143

تنویر نذر سانی

فرد،افراد،جماعت کی گاڑی اگر مغالطے کی پٹری پر چل پڑے تو پتہ ہی نہیں چلتا اور مغالطے میں مسافر مبتلا غلط سمت میں سفرکرتا رہتا ہے۔
ایک مغالطے میں اہل کراچی گزشتہ تیس برسوں سے مبتلا ہیں کی جنرل ضیاء الحق نے مہاجر قومی موومنٹ بنائی جس کا مقصد مذہبی جماعتوں کو کراچی سے بے دخل کرنا تھا میرے پاس اس دعوے کو مسترد کرنے کے کوئی شواہد تو موجود نہیں لیکن میں ان حالات اور حادثات کا شاہدضرور ہوں جن کے مقبرے پر ایم کیوایم کا محل تعمیر ہوا تھا۔
کراچی کے مٖضافات لانڈھی، چراغ ہوٹل مارکیٹ کے ساتھ ایک چھوٹا سا روڈ تھا اس روڈ پر C-2 نمبر کی ایک منی بس چلتی تھی روڈ آج بھی ہے اور C-2 کی کچھ گاڑیاں آج بھی ہیں لیکن یہ گاڑی اب چراغ ہوٹل سے نہیں جاتی، جو رویہ آج کی منی بسوں کے عملے کا ہے اس سے بہت زیادہ برا رویہ آج سے تین دہائیوں پہلے تھا، منی بس کے ڈرائیور گاڑیاں لڑاتے تھے اور زیادہ پسنجر کی ہوس اور پہلے ٹوکن لے کر پہلے اپنی گاڑی کا نمبر لگانے کی کوشش کرتے تھے، مسافر اور ٹوکن کی اس دوڑ میں وہ سامنے آنے والے کسی انسان جانور کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
گاڑی لڑانے، ٹوکن لینے، اپنا نمبر پہلے لگانے، زیادہ مسافر بیٹھا کر زیادہ پیسہ کمانے کے جنون میں مبتلا ایک منی بس ڈرائیور نے چراغ ہوٹل پر ایک چھوٹی بچی کو اپنی گاڑی سے روند ڈالا اس حادثے میں بچی مر گئی، کیوں کہ اہل کراچی دل ہی دل میں ان منی بسوں کے خلاف نفرت پال رہے تھے لہٰذا آناًفاناً مقامی آبادی نے گاڑی کے عملے کو مارا پیٹا اور گاڑی جلا دی، ایک انسانی جان جانے اور پہلے سے موجود بیزاری کے بعد ایسا ہونا فطری تھا اور اگر گاڑی جلانے اور مارپیٹ کرنے کو اس حادثے کا ردعمل سمجھ کر برداشت کرلیا جاتا تو ممکن ہے ایم کیوایم کی بنیاد میں اس حادثے کی کوئی اینٹ نہ لگی ہوتی، لیکن حق و ناحق کو دیکھے بغیر مطلق بدلے کے غرور میں مبتلا لوگوں نے اس حادثے کو محض حادثہ اور اُس کا ردعمل نہ سمجھا اور گاڑی کو آگ لگانے والوں اور آگ نہ لگانے والوں میں فرق کیے بغیر پوری آبادی پر یلغار کرکے اُنھیں چھٹی کا دودھ کروا دیا۔
ایم کیوایم بننے سے پہلے اہل کراچی کسی بھی طرح کے قانونی اور غیر قانونی اسلحے سے واقف نہیں تھے اور نہ ہی اردو بولنے والے سکھوں کی طرح کرپان کومذہب کا حصّہ سمجھتے تھے اور نہ ہی اسلحہ سازی اور اسلحہ فروشی اہل کراچی کی معاشرت کا حصّہ تھی ،ان کے گھروں میں وی سی آر، ٹی وی جیسی چیزیں تو ضرور تھیں لیکن ڈرانے کو نقلی پستول بھی ان کے گھروں میں نہ تھا لہٰذا سیکڑوں ہزاروں نہتے لوگوں نے بچی کی ہلاکت کے رد عمل میں سڑک پر جلاو گھیراو شروع کردیا اور لانڈھی تھانے کا گھیراو کرکے پولیس کو تھانے کے اندر قید کردیا، اس حادثے میں جنرل ضیاء الحق کا ہاتھ کہاں نظر آتا ہے ؟۔
اس سے بڑا واقعہ گولی مار میں واقع سرسید کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی کے ساتھ پیش آیا یہاں بھی ٹوکن اور زیادہ مسافروں کے جنون میں مبتلا ایک بس نے بشریٰ زیدی کو بس سے کچل کر ماردیا یقیناً اس ڈرائیور نے بھی جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر طالبہ کو نہیں کچلاہوگا، آج کی طرح اُس زمانے میں واٹس اپ، فیز بُک وغیرہ موجود نہیں تھے لہٰذا کسی بھی حادثے کی اطلاع اگلے دن اخبار کے ذریعے ملتی تھی یا سینہ با سینہ پھیلتی تھی لہٰذا نہ جانے اس طرح کے کتنے واقعات اور ہوئے ہوں گے جن سے آج تک ہم لاعلم ہیں لیکن ہر واقعے نے اپنے اردگرد کے ماحول کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔
عصبیت، محرومی کے احساس کی وجہ سے کراچی کاماحول گرم ہوگیا تھا اوراس گرمی کی بُو الطاف حُسین نے بھی سونگھ لی تھی ممکن ہے وہ بھی کسی محرومی کا شکار ہوئے ہوں لہٰذا اُنھوں نے اس جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام شروع کردیا جب چنگاری شعلہ بنی تو حسب فطرت اس آگ کو پروانے بھی مل گئے اور پکی پکائی کھانے کے شوقین لوگوں نے اس آگ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کرنا شروع کردیا، جیسے روس کی افغانستان میں مداخلت کے موقعے پر امریکہ نے مجاہدین کی کامیاب جدوجہد کو اپنے لیے استعمال کیا تھا، مجاھدین نے جہاد کا آغاز اس لیے نہیں کیا تھا کہ انھیں ڈالر اور اسٹنگرز میزائل مل گئے تھے یہ دونوں چیزیں مجاھدین کوبعد میں ملیں تھیں، ممکن ہے بلکہ ایسا ہی ہوا گا کہ ایم کیوایم بن جانے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اسے کراچی کا ضمیر مارنے یا خریدنے کے لیے استعمال کیا ہو۔
اس سارے فسانے میں مخالطہ یہ ہے کہ کراچی کی مذہبی جماعتوں نے یہ طے کرلیا کہ ایم کیوایم حالات کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ ایک فوجی کی سازش تھی لہٰذا جس طرح کے اقدامات سازش کو رفع کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں وہ کیے گئے، گلی گلی عوام کو اس سازش سے آگاہی دی گئی، اور جو سلوک سازشیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی سلوک سازشیوں کے ساتھ کیا گیا، آج تیس برس گُزر جانے کے بعد ان اقدامات اور سلوک کا نتجہ نوشتہ دیوارہے۔
جس طرح حالات اور واقعات جامد نہیں ہوتے اسی طرح فیصلے اور اقدامات بھی جامد نہیں ہوسکتے جب زلزلہ آئے گا اُس وقت ہی امدادی کاموں کا فیصلہ کیا جائے گا اور جب بدامنی زیادہ ہوجائے گی تب ہی اس کے سدباب کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، حالات اور واقعات کے اس تغیر میں حال ہی میں ایم کیوایم الطاف حُسین کے افکارواعمال سے لاتعلق ہوگئی ہے ، اب تک تعلق اور لاتعلقی کا کھیل الطاف حُسین کی جانب سے کھیلا جاتا رہا ہے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پارٹی نے اپنے قائد سے لاتعلقی کی ہے لہٰذا ہم عوام کو ایسا لگتا ہے کہ کہیں ایم کیوایم اپنے قائد کے نقش قدم چلتے ہوئے کوئی کھیل کھیل رہی ہے لیکن خدشات کی بناء پر اقدامات سے نہیں رُکا جاسکتا ،خدشات کے اس ماحول میں جناب فاروق ستار کا حادثہ پیش آ گیا یقیناً اس حادثے میں فاروق ستار کی سازش نہیں ہوگی لہٰذا معاشرتی اقدار اس کا تقاضا کرتی تھیں کہ جناب فاروق ستار کی مزاج پُرسی کی جائے اور ایسا ہی نظر آتا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے تمام خدشات کے ہوتے ہوئے فاروق ستار کی عیادت کا اقدام کر کے اپنا سماجی فرض ادا کیا ہے، کوئی یہ کہے کہ اگر یہی کرنا تھا تو تیس سال تک ایم کیوایم سے لڑائی کیوں کی ؟ اور اپنے اتنے کارکنان کیوں شھیدکروائے؟ لیکن تیس سال میں پہلی بار ایم کیوایم پہلی بار اپنے قائد سے لاتعلق ہوئی ہے، تیس سال کی قربانیوں کے بعد الطاف حُسین کا اصل اُن کے کارکنان اور چاہنے والوں پر آشکار ہوا ہے، سیکڑوں شھادتیں تیس سال کے بعد قوم کی حیات بن رہی ہیں، اس صدا کا اب جواب آیا ہے ’’ شھید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ فاروق ستار کی عیادت برموقع اقدام ہے، لیکن اس عیادت کے لیے ایک ہی وفد کافی تھا۔
ایک مخالطہ اور یہ کہ کراچی دینی جماعتوں کا شہر تھا یہ ضرور ہے کہ کراچی میں کسی بھی سیاسی جماعت کی قبولیت نہیں تھی لہٰذا دینی جماعتیں اپنے نظم وضبط کی وجہ سے اور اپنے بے غرض کارکن کی وجہ سے نمایاں اور شھر پر اثراندازضرور تھیں، کراچی میں ایم کیوایم سے پہلے زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی تین نشتیں مذہبی جماعتوں نے جیتی تھیں اور ان تمام نشتوں پر ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد ناظم آباد سے قومی اسمبلی کی نشت جتنے والے اسلم سے کم تھی پھر نہ جانے دینی جماعتیں کیوں ’’کراچی دینی جماعتوں کا شہر ہے‘‘ کا بوجھ اُٹھائے پھرتی رہیں اور ایم کیوایم کا یہ طعنہ سُنتی رہیں کہ ’’ہم نے کراچی تم سے چھین لیا ہے‘‘۔
بساط سے بڑھ کر ذمہ لینا یا بساط سے بڑھ کر دعوا کرنا اکثر اوقات خفت کا سبب ہوتا ہے، ایسے دعوں اور ذموں سے افرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پرگریز کرنا چاہیے۔