آبی جارحیت اور کشمیر پر درندگی بھارت کا پاکستان کے ساتھ دوہرامعیار

192

عارف رمضان جتوئی

بھارت نے اقوام متحدہ سے پاکستانی دریاؤں پر مزید بڑے تین ڈیم بنانے کی اجازت لے لی ہے، جس کے لیے بھارت نے کاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹ تک حاصل کرلیا ہے۔ اس میں اہم اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس اجازت نامے کی انڈس واٹر کمیشن اور وزارتِ پانی و بجلی کے حکام کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوئی۔ میڈیا پر جاری ہونے والی دستاویزات کے مطابق اقوام متحدہ نے دریائے چناب پر ریٹل اور کرتھائی ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھارت کو سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ بھارت میں ان ڈیموں کی تعمیر سے دریائے چناب کا دو کروڑ کیوبک فٹ پانی چوری کیا جائے گا۔ مگر سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت دریائے چناب کا پانی نہیں روک سکتا، لیکن اب سرٹیفکیٹ کے اجرا کے بعد بھارت کو آبی جارحیت کی شہہ مل گئی ہے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارت کو سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد ڈیموں کی تعمیر پر پاکستان کے اعتراضات کمزور پڑسکتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر بھارتی آبی جارحیت کا رونا رویا جائے تو یہ سلسلہ ماضئ قریب کے کئی برسوں سے جاری ہے۔ بھارت نے پاکستان کی مخالفت یا پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ مودی سرکار، اوباما انتظامیہ کی گود میں اس طرح کھیل رہی ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ انہیں مودی کے ساتھ تعلقات پر فخر ہے۔
بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں میں سمندر پار کی آشیرباد بھی اب باقاعدہ طور پر میسر ہے۔ یہ آشیرباد نہ صرف بھارتی آبی جارحیت میں اس کے ساتھ رہی ہے بلکہ حال ہی میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے دوران بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آئی۔ بھارت نے کشمیر میں پُرامن تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے جب آخری حربے تک استعمال کرڈالے اور مظالم کی انتہا کردی تو بلا تفریق رنگ ونسل پوری دنیا میں ایک بے چینی محسوس کی گئی، حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی مظالم کے خلاف مذمتی بیان جاری کیے۔ اس وقت بھی اوباما انتظامیہ کی جانب سے تادم آخر مذمت جیسے الفاظ نہ نکل سکے۔ امریکی دفتر خارجہ اور جان کیری نے اظہارِ تشویش کیا مگر اظہارِ مذمت پھر بھی نہیں ہوسکا۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے معاملے پر بھارت مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے جب بھی مسئلہ پر بات کی گئی تو بھارت نے فوراً ہی اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر بات کرنے سے انکار کردیا۔ بھارت کی خارجہ پالیسی سے لے کر داخلہ پالیسیوں تک پاکستان کی مخالفت، نفرت اور غصہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ نفرت اس قدر عروج پر ہے کہ بھارت میں موجود تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اس نفرت بھرے پروپیگنڈے کا شکار ہیں۔ حکومتی سطح پر بھارت خود کو پاکستان کے پُرامن حریف کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر فورم پر دکھاوا بھی کرتا ہے، تاہم بھارت کی سرشت میں پاکستان سے نفرت اور بغض و عناد بھرا ہوا ہے، اور یہی بات وہاں کی سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اورعسکری و دیگر شعبہ جات کے افراد میں پائی جاتی ہے۔
بھارت کے کشمیر پر مظالم اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارت کے مقامی ریڈیو ویودھ بھارتی کی صحافی خاتون نشتھا شریوستوا سے بات ہوئی، بھارتی خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بچہ بچہ بھارت سے نفرت کرتا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان میں بھارت کے خلاف باقاعدہ اعلیٰ سطح پر سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔ بھارت میں پاکستان کے بارے میں ایک ایسا امیج اور تصور پیش کیا جاتا ہے جس کے مطابق پاکستان صرف اور صرف دہشت کا دوسرا نام ہے۔
بھارتی صحافی کے علاوہ ایک بھارتی فوجی سے بھی بات ہوئی جس کا کہنا تھا کہ ہماری عسکری تربیت میں ہر ہدف پر پاکستان ہوتا ہے، ہر بات میں مخالف پاکستان کو ہی رکھا جاتا ہے۔ اس بات کو لے کر پاکستان میں فوج کے کیپٹن کی تربیت کے مراحل میں ایک جوان سے جب پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ہماری تربیت میں صرف ایک مخالف ہوتا ہے۔ ’’بھارت کو بطور دشمن پیش کیا جاتا ہے؟‘‘ اس سوال پر اس کا کہنا تھا کہ بالکل نہیں، ہمیں صرف دشمن پر وار کرنا سکھایا جاتا ہے، ہماری تربیت میں صرف اپنا دفاع ہے۔
بھارتی ریاست ہریانہ کی ایک بڑی یونیورسٹی کی طالبہ اور طالب علم سے پاک بھارت تعلقات پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، تاہم یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ بھارت میں پاکستان سے ہی دہشت گرد آتے ہیں۔ ممبئی حملہ ہو یا پٹھان کوٹ حملہ، ان سب میں پاکستان ملوث ہے۔
یہ الفاظ ان طلبہ کے ہیں جنہیں مستقبل میں سرحدوں کا دفاع نہیں کرنا بلکہ ایک انجینئر اور دوسرا ڈاکٹر ہے۔ تاہم ان کے ذہنوں میں یہ بات ایسے بٹھائی گئی ہے کہ گویا ہر حملے کے پس پردہ پاکستان ہے۔ اگر ان دو حملوں کی چھان بین اور بھارتی تحقیقات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں حملوں میں حملہ آور پاکستان کے بجائے بھارت کے اپنے ہی شہری تھے۔ بھارت کا وتیرہ رہا ہے کہ حملہ ہو یا دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ، بھارت سرکار اور میڈیا بغیر تحقیق تمام الزام مکمل وثوق کے ساتھ پاکستان پر عائد کردیتے ہیں۔
پٹھان کوٹ کے معاملے پر بھارت نے کبھی بھی پاکستانی وفود کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ الٹا وفود کو بھارت میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ابھی بھارت پٹھان کوٹ واقعے کے شواہد جمع کرکے پاکستان کے خلاف امریکا میں کوئی نیا منصوبہ تیار کرنے روانہ ہوگیا ہے۔
بھارت نے پاکستان سے مخالفت کی انتہاؤں کو اس قدر چھولیا ہے کہ بنگلادیش میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوا، ابھی حسینہ واجد حکومت نے سرکاری سطح پر تحقیقات کے لیے پیش رفت شروع نہیں کی تھی کہ بھارت نے الزام پاکستان پر لگا دیا اور اس کے لیے نہ صرف مہم چلائی بلکہ بنگلا دیش حکومت سے بھی ہمدردی سمیٹنے کے لیے رابطہ کرلیا۔ الزام کی شدت کا احساس کرتے ہوئے حکومتِ بنگلا دیش کو تردید کرنا پڑی اور وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے پاکستان کو فوری بری الذمہ قرار دینا پڑا۔
بھارت کا یہ دُہرا معیار سندھ طاس معاہدے کی مخالفت سے لے کر کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کو کچلنے تک تاحال جاری ہے۔ بھارت میں انتہا پسندی کا عروج نہ جانے کب ختم ہوگا اور کب ایک فوجی، طالب علم اور صحافی کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ کشمیر کے برہان وانی پیدا کرنے میں پاکستان کا ہاتھ نہیں بلکہ بھارتی فوج اور سرکاری فیصلوں میں دبی ہٹ دھرمی کا کردار ہے۔
سندھ طاس معاہدے میں بھارت کا اقوام متحدہ سے اجازت نامہ کس طرح حاصل کیا گیا؟ اس کے لیے متاثرہ فریق پاکستان کے دستخط ہیں یا نہیں ہیں؟ اور اگر ہیں تو حکومتِ پاکستان خود اپنی قوم اور اپنے کسانوں کا زرعی قتل کررہی ہے؟ یہ سب سوال تاحال جواب طلب ہیں۔ اجازت نامے پر جب تک متاثرہ فریق دستخط نہیں کرے گا تب تک یہ اجازت نامہ نہیں مل سکتا، اور اگر حکومتِ پاکستان اس میں شامل نہیں تو پھر یہ اجازت نامہ کیسے مل گیا؟ اس پر حکومت کی خاموشی بھی الگ سوال چھوڑ رہی ہے۔
بھارت کی جانب سے ان ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف پنجاب کی زمینیں بنجر ہوں گی بلکہ بھارت کو شہہ ملے گی۔ اس طرح نہ صرف وفاقی حکومت کی جگ ہنسائی ہوگی بلکہ پوری قوم کی تضحیک ہوگی۔ پاکستان کو اس سے قبل کی گئی بھارتی آبی جارحیت پر مؤثر آواز بلند کرنی چاہیے اور موجودہ اجازت نامے کیسے، کیوں اور کس طرح ملے اس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوری ختم کروانے کے لیے اقوام متحدہ سے بات کرنی چاہیے۔
کشمیر کے معاملے پر بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی قوانین کی دیدہ دلیری سے کی گئی خلاف ورزیوں پر پاکستان کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ محض بیانات اور اونچی آواز میں تقریروں سے کشمیریوں کے خون کا نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔