توقیر عائشہ
ایک جنگل میں جھاڑیوں کے درمیان دو بھیڑیے بیٹھے باتیں کررہے تھے: ’’یار! خرگوش اور جنگلی بلے کھاتے کھاتے کتنے دن ہوگئے ہیں۔ آج تو بکری کھانے کا دل چاہتا ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا ’’دوست! بکری کھانا تو اب خواب ہوگیا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب چرواہے اسی راستے سے گزرتے تھے اپنی موٹی تازی بکریوں کو لے کر۔۔۔ اور ہم اپنا حصہ اڑا ہی لیتے تھے۔ اب تو اس نے راستہ ہی بدل لیا۔‘‘
’’ہاں، بڑا ہوشیار ہوگیا ہے وہ۔ مگر آخر ہم کب تک یہ چھوٹے چھوٹے جانور کھاتے رہیں گے! جو مزا بکری میں ہے وہ کسی اور جانور میں کہاں!‘‘بھیڑیے کے منہ سے رال ٹپکنے لگی تھی۔
’’آخر کب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ چلو سردار کے پاس چلتے ہیں۔ اُس سے کہیں گے کہ ہمارے لیے بکری کا انتظام کرے۔‘‘
جب دونوں وہاں پہنچے تو بوڑھا بھیڑیاآٹھ دس بھیڑیوں کے درمیان بیٹھا ہانپ رہا تھا۔ انہوں نے بکری کھانے کا مطالبہ کچھ ایسی شدت کے ساتھ اُس کے سامنے رکھاکہ دیکھتے ہی دیکھتے سب ان کے ہمنوا ہوگئے۔ مختلف تجاویز سامنے آنے لگیں۔
’’چار جوان جائیں اور چرواہے کو مار ڈالیں۔ مگر صرف ڈنڈا ہی نہیں ہمارے لیے تو اُس کے پاس بندوق بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی تو سوچو۔۔۔‘‘
ایک اور نے کہا ’’ہم میں سے ایک باڑے میں چھپ کر بیٹھ جائے، جب چرواہا بکریاں بند کرکے چلا جائے تو وہ دروازہ کھول دے۔ پھر ہم ہوں گے اور ہمارا ڈنر۔‘‘
’’رہنے دو۔۔۔ بکریاں اپنے درمیان بھیڑیا پاکر اتنا شور مچائیں گی کہ چرواہا پلٹ کر آجائے گا اور ہمارا ساتھی مارا جائے گا۔‘‘
ایک نوجوان اور عیار بھیڑیا جس کے کان قدرے مڑے ہوئے تھے، بال ایسے چمکیلے جیسے جیل لگاکر آیا ہو، صاف ستھری تھوتھنی میں سے چمکتے ہوئے سفید دانت جیسے کبھی کسی جانور کی چیر پھاڑ ہی نہ کی ہو، غرض کہ بڑا ہی خوبرو اور اپنے گروہ میں بڑا ہی منفرد۔۔۔ سب کے خاموش ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ اپنی چمکدار آنکھیں سردار پر گاڑ کر توجہ کا طالب ہوا:
’’یہ سب میرے بھائی حملہ کرکے بکری کھانا چاہتے ہیں جبکہ میرے پاس ایک ایسی ترکیب ہے کہ بکریاں خود ہی ہمارے پاس آجائیں گی۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے بھئی؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
وہ بولا ’’اصل میں ہم وہ حالات پیدا کردیں گے کہ وہ خود ہمارے پاس کھنچی چلی آئیں گی۔ میں ان کا خیر خواہ بن کر جاؤں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ جنگل کی مغربی سمت میں کیسی ہری بھری دنیا ہے۔ تمہارا مالک تم کو وہاں نہیں لے جاتا، یہ تو سراسر ظلم ہے۔ دوستو! لالچ اور ہمدردی ہمیشہ سے شکار پھانسنے کا بہترین ذریعہ رہے ہیں۔‘‘
’’ترکیب تو اچھی ہے، تم فوراً اِس پر کام شروع کرو‘‘۔ سردار نے دانت نکوستے ہوئے فیصلہ دے دیا۔
۔۔۔*۔۔۔
شام نزدیک آتے دیکھ کر چرواہے نے اپنی بکریاں سمیٹیں۔ اس کے ہاتھ میں درخت کی پتلی سی شاخ تھی، جبکہ اس کے بھائی نے نسبتاً موٹا ڈنڈا تھاما ہوا تھا۔ اشارہ پاتے ہی بکریوں نے واپسی کی راہ لی۔ دونوں نے بکریاں باڑے کے اندر کیں، بھاری بانس اٹکاکر دروازہ بند کیا اور برابر میں بنے کچے پکے سے مکان کا دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔ بکریاں کچھ دیر ہلچل مچاتی رہیں، پھر اندھیرا گہرا ہونے پر باڑے میں خاموشی چھا گئی۔
یہ پورے چاند کی رات تھی۔ جنگل کے کسی گوشے سے کبھی کسی اُلّو کی آواز آجاتی ، کبھی کوئی لکڑبگھا ’اوووو۔۔۔و‘ کی لمبی تان لگا کر چپ ہوجاتا۔ ماسٹر مائنڈ اسمارٹ بھیڑیا بڑی نرم چال سے آکر باڑے کی دیوار کے گرد چکر لگانے لگا کہ کہیں کوئی درز، کوئی جھری نظر آئے تو وہ بکریوں کو اپنا پیغام پہنچا سکے، مگر ناکام رہا۔ اس نے دیوار دیکھ کر اندازہ لگایا کہ وہ اس پر اچک کر چڑھ سکتا ہے۔ اس نے دو تین بار کوشش کی۔ دیوار پر پنجوں کی کچ کچ سے بکریاں چوکنا ہوگئیں۔ جوں ہی بھیڑیے کا منہ دیوار پر نمودار ہوا، بکریوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور لگیں شور مچانے۔ بھیڑیے نے بمشکل بکریوں کو خاموش کرایا اور ہلکی آواز میں کہا ’’ میں تمہارا دوست ہوں۔ نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ بہت دنوں سے تم سے بات کرنا چاہتا تھا، آج موقع ملا ہے۔ تمہیں ایک قیمتی راز کی بات بتانے آیا ہوں۔۔۔‘‘ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھاکہ اسے کسی کے پیروں کی آہٹ سنائی دی اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ چرواہا تھا جو بکریوں کا شور سن کر لالٹین اور ڈنڈا لے کر آیا تھا۔ اس نے گھوم پھر کر اچھی طرح دیکھا بھالا اورچلا گیا۔ دوسری شام بکریوں میں ایک تجسس پروان چڑھ چکا تھا۔ وہ آج بھی بھیڑیے کی منتظر تھیں، مگر اس نے بھی دو دن بعد ہی دیوار پر اپنا دیدار کرایا۔ سب شوق سے جمع ہوگئیں تو اس نے کہا ’’تم لوگ کتنی کمزور ہوگئی ہو۔ چرواہا جہاں تمہیں لے جاتا ہے وہاں چرنے کو ہے ہی کیا! کل جانا تو نظر اٹھاکر مغرب کی سمت دیکھنا۔ درختوں کے جھنڈ سے آگے ایک ہری بھری دنیا ہے۔ دبیز گھاس، نرم جھاڑیاں اور چھوٹے درخت۔۔۔ جہاں سے دل چاہے پتے توڑو، ساتھ ہی ندی کا ٹھنڈا پانی۔ تم تو بس قریب سے ہی منہ مار کر آجاتی ہو۔‘‘
ایک بکری نے کہا ’’وہاں تو بہت بڑی دلدل ہے، جو اس میں گرتا ہے غائب ہوجاتا ہے۔ ہمیں تو مالک نے کبھی وہاں جانے نہیں دیا۔‘‘
بھیڑیا بولا ’’ارے سب کہنے کی باتیں ہیں، ایک بار وہاں جاؤ تو واپس آنے کا دل ہی نہ چاہے۔ تمھارا مالک تو ایک ڈنڈے کے زور پر تمہیں اس باڑے میں بند کردیتا ہے۔ دنیا بڑی وسیع ہے۔ کبھی خود بھی تو دیکھو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔‘‘
اس کے جانے کے بعد عمر رسیدہ بکریوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہیں خطرے کی بو محسوس ہوگئی تھی، جبکہ معصوم میمنوں اور جواں عمر بکریوں کی حالت سے ظاہر ہورہا تھاکہ وہ بھیڑیے کے دام میں آگئی ہیں۔ ایک بوڑھی بکری نے ان کے سامنے سوال بھی رکھا ’’وہ ہمارا دشمن ہے۔ چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ہمدردی کیوں کررہا ہے! ضرور دال میں کالا ہے۔‘‘
مگر بکریاں کچھ سننے پر راضی نہ تھیں۔ بھیڑیے کی طرف داری میں چرواہے کو بھی لپیٹ لیا۔
’’بھیڑیا صحیح کہہ رہا ہے۔ یہ صرف دو آدمی ہیں اور ہم اتنی ساری۔ ایک ڈنڈے کے زور پر ہمارا گلا گھونٹ رکھا ہے۔اپنی مرضی سے تو ہم کہیں سے گھاس بھی نہیں چر سکتے‘‘۔ بھیڑیے کی باتوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بوڑھی بکریاں افسوس کرکے رہ گئیں۔
۔۔۔*۔۔۔
ادھر چرواہے کو ایک آدمی نے بتایاکہ رات تمہارے باڑے کے نزدیک ایک بھیڑیا گھوم رہا تھا، ذرا ہوشیار رہنا۔ ’’اچھا۔۔۔ کئی راتوں سے میں چکر لگاتا ہوں، بکریاں بھی شور کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ باڑے کی دیواراونچی کرلینی چاہیے۔‘‘
بھیڑیا اگلے دن آیا تو دیوار اونچی ہوچکی تھی۔ اب جھانک کر خطاب کرنا ممکن نہ تھا۔ اُس نے باہر ہی سے ہلکی آواز میں غرا کر کہا ’’دیکھا! وہ تم پر نئی دنیا کے دروازے بند کررہا ہے۔ باڑ ے کی دیوار اونچی کردی۔ اب خود ہی فیصلہ کرو۔۔۔ گھٹ کر باڑے میں رہوگی یا تازہ ہری گھاس پر کھیلو گی؟ بس کل کا دن ہے تمہارے پاس۔۔۔ رات دروازے کا کھٹکا کسی طرح اتار لو اور نکل آؤ، میں درختوں کے پاس تمہیں ملوں گا‘‘۔ بکریوں میں شوق کی نئی لہر دوڑ گئی۔
دوسرے دن چرواہا حسبِ معمول انہیں اپنی جانی پہچانی چراگاہ میں لے گیا اور خود ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ آج بکریوں کو یہ میدان بہت برا لگ رہا تھا۔ نہ گھاس نہ جھاڑیاں۔۔۔ جانے کیوں اتنے دن اسی میں منہ مارتے رہے۔۔۔ حالانکہ وہ اسی میں چر چگ کے بڑی ہوئی تھیں۔
ایک بکری نے کہا ’’اے بہن! کل ہم نئی زمین، نیا آسمان دیکھیں گے۔ میں ذرا اپنے سینگ اور کھر صاف کرلوں‘‘۔ دوسری نے کہا ’’ہاں میں بھی ذرا اپنے جسم کی مٹی جھاڑ لوں، کیسے روکھے بال ہوگئے ہیں میرے‘‘۔ ایک شوخ سی بکری کہنے لگی ’’میں تو تم سب سے زیادہ صاف اور خوبصورت ہوں۔ گھاس پرقدم رکھنے کی مشق کرلوں۔۔۔‘‘ اور مخملیں گھاس کا تصور کرتے ہوئے لہرا لہرا کر چلنے لگی۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی بکریاں ’’کیٹ واک‘‘ میں اس کا ساتھ دینے لگیں۔ بوڑھی بکریوں کی تمام نصیحتیں رائیگاں جارہی تھیں۔
ابھی سپیدۂ سحر نمودار نہیں ہوا تھا کہ درختوں کے پاس سے بھیڑے کی مخصوص ہوووووو سنائی دی اور بکریاں باڑے کا کھٹکا کھول کر خاموشی سے اپنے ’’محسن‘‘ کی طرف بڑھ گئیں۔ انہیں قریب آتا دیکھ کر بھیڑیے کی رال ٹپکنے لگی۔ آنکھوں کی چمک پر قابو پاکر خوش آمدید کہا۔ یہ تھا بدقسمت بکریوں کا وہ قافلہ جس کی قیادت انہوں نے خود ہی ایک بھیڑیے کو سونپ دی تھی۔ درختوں کے جھنڈ کے پاس آتے آتے بکریوں کا شوق دیدنی تھا۔ تیز قدموں سے چراگاہ میں داخل ہوگئیں۔ وہاں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا بتایا گیا تھا، لیکن بھیڑیے میں سے اٹھنے والی ناگوار بو اچانک بہت تیز ہوگئی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی۔۔۔ ان کا قائد وہاں اکیلا نہ تھا۔ وہاں تو ہر درخت، ہر جھاڑی میں بھیڑیے چھپے بیٹھے تھے۔ انہوں نے بکریوں کے گروہ پر حملہ کردیا۔ بہت دن بعد ان کی پسندیدہ خوراک انہیں ملی تھی۔ بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارے۔ بیشتر بکریاں ماری گئیں۔ چند زخمی گرتی پڑتی باڑے کی طرف بھاگیں اور راستے میں ہی دم توڑتی گئیں، یہاں تک کہ صرف ایک بکری باڑے کے دروازے تک پہنچ سکی۔ حسرت سے باڑے کی محفوظ دیواروں کو دیکھا، دردناک چیخ منہ سے نکلی اور اس نے بھی باڑے کی دہلیز پر دم توڑ دیا۔ چرواہے چیخ سن کر باہر آئے اور باڑے کا حال دیکھ کر سراسیمہ ہوگئے۔ وہاں چند بوڑھی بکریوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ سمجھے رات دروازہ بند کرنے میں کوتاہی ہوگئی۔ ڈھونڈنے نکلے تو راستے میں مری ہوئی بکریاں ملتی چلی گئیں۔ مغرب کی سمت جائے وقوع پر پہنچے تو کہیں ہڈیاں، کہیں کان، کہیں سینگ اور کہیں کھال کے ٹکڑے پڑے ان کے اجڑنے کی داستان سنا رہے تھے۔
اوہ۔۔۔ ! آپ کیا سوچنے لگے۔ میں نے تو بس ایک کہانی لکھی ہے۔