ساحل پر کشتیاں جلانے والے لوگ

250

فریحہ مبارک

پروفیسر غلام اعظم‘ مطیع الرحمن نظامی‘ علی احسن مجاہد‘ عبدالقادر ملا‘ قمر الزماں کے بعد اب میر قاسم علی نے بھی اپنی کشتی ساحلِ مراد پر جلا دی!!!! اور آج ان سوختہ کشتیوں سے ساحل آباد ہے۔‘‘
یہ سفید ریش تو اب اختتامِ سفر کی جانب گامزن تھے‘ اب تو پاؤں کی تھکن گویا منزل کو چھونے ہی والی تھی کہ ایسے وقت میں انھوں نے منتقم مزاج حسینہ واجد کے تختۂ دار پر جھولنے کو ترجیح دے دی۔ آخر اُس مدمقابل کی ضد ہی کیا تھی؟ ایک معافی نامہ ہی تو لکھ کر دینا تھا ۔۔۔اور اِس کے بعد کا منظر سہانا تھا۔ ’’پنچھی کا صیّاد کی قید سے آزاد فضاؤں میں اڑنے کا پروانہ‘‘۔ میر قاسم کے چہیتے بیٹے کی اغوا سے رہائی، اعلیٰ مناصب اور عہدوں کا لالچ۔‘‘
کیا تھا اگر میر قاسم اپنی کامیاب بزنس ٹائیکون کی بھاری بھرکم حیثیت پر ہی اکتفا کرلیتے؟ ذرائع ابلاغ، تعلیم، صحت، فلاح و بہبود، ترقیاتی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کمال کی مہارت کے حامل۔۔۔ اُن کی سربراہی نے پرائیویٹ سیکٹر میں اسلامی بینک بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا اور تمام کارپوریشنوں میں دوسرا بڑا ٹیکس ادا کرنے والا بینک بنادیا۔ 25 سے زائد ممالک کے دورے کیے اور ان میں بنگلہ دیش کی ترقی اور اسلامی بینکنگ کا درست تصور پیش کرتے رہے۔ امریکا اور یورپ کے تھنک ٹینکس کے اجلاسوں میں شریک ہوکر اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرتے رہے۔ جب حسینہ واجد نے جنگی جرائم کے ٹریبونل میں انھیں بھی نامزد کیا تو وہ ملک سے باہر تھے۔کیا تھا اگر وہ نہ آتے، بھاگنے والے تو ان ممالک سے پناہ کی بھیک مانگتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے ساتھی اہلِ جنوں کی طرح جھوٹے مقدمات کا جواں مردی سے سامنا کرنے کو ترجیح دی اور واپس آگئے۔
دوسری جانب اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے والوں کی رحم کی اپیلوں سے انکارکی تکرار کے مسلسل تازیانے کھاتی حسینہ واجد ہے، جس نے پلٹن میدان میں پاکستانی پرچم لپیٹے جانے کے بعد انتقامی کارروائیوں کو روک دینے کے معاہدے کی دھجیاں اڑا کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھارتی سرکار کی کھلم کھلا آلۂ کار ہے اور بنگلہ دیش میں نفرت کی سیاست کے بیج بوکر پاکستان اور مسلم شناخت سے وابستہ ہر علامت کو مٹا دینا چاہتی ہے۔
بے شک عبدالمالک سے لے کر میر قاسم تک سب دین اور وطن سے محبت کی خاطر قربان ہوگئے، ان کی کشتیاں ساحلِ مراد کی راکھ بن گئیں، لیکن وہ جنگ انھوں نے جیت لی، جو اسلام، نظریہ اور وطن کی محبت کے نام پر لڑی جارہی ہے۔ ہر پھانسی پر حکومتِ پاکستان کی غفلت سے بڑھ کر مجرمانہ خاموشی اور رسمی اظہارِِ افسوس نے بھی ان کے پایۂ استقلال میں لغزش پیدا نہیں کی۔ کیسے کیسے کوہِ گراں تھے جنھیں جابرِ وقت ایک انچ نہ ہلا سکا، نہ جھکا سکا، اپنی پہلی محبت پاکستان کے اسیر۔۔۔ کیوں کہ وہ یہ راز پا گئے تھے کہ جنگ جیتنے کے لیے کشتیاں جلانا ضروری ہے۔ دیرینہ آرزوؤں کی، مصلحتوں کی، مال واسباب کی، اگر مگر کی، کاش اور شاید کی، آج اور کل کی کشتیوں کو تیلی دکھانا پڑتی ہے۔ آخر میں جب یہ ساری جانِ مَن کی کشتیاں جل جاتی ہیں تو پیارے رب کے حضور بڑے ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنی پیاری جان بصد شوق پیش کردی جاتی ہے، وہی سکون جو آخری ملاقات اور دَمِ آخر ان شہیدوں کے چہروں پر ثبت ہوکر رہ گیا تھا، گویا کہیں سے دعوت کا بلاوا آیا ہے، اور ان کی تیاری مکمل ہے، بس اب جانے کی جلدی ہے۔