ننھے سائنس دان کا انوکھا تجربہ

260

محمد عمر احمد خان

یاسر کا پسندیدہ مشغلہ کھانا اور صرف ’’کھانا‘‘ تھا۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا تھا۔ دنیا میں لوگ جینے کے لیے کھاتے ہیں، لیکن وہ اپنے بڑے پھوپھا کی طرح صرف کھانے کے لیے جیتا تھا۔ پھوپھا کو کسی سے ملنا جلنا اتنا پسند نہ تھا، جتنا ملنے والے کا کھلانا پلانا۔ لیکن پھوپھا یاسر کی طرح ہر وقت نہیں کھاتے تھے، صرف دعوتوں میں کھاتے تھے، لیکن اتنا کھاپی لیتے تھے کہ ان سے چلا تک نہ جاتا، چناں چہ ان کے بچے گاڑی میں ڈال کر بڑی مشکلوں سے انہیں گھر لاتے اور کارمینا کی کئی گولیاں کھاکر ان کے حلق میں پھنسا ہوا کھانا نیچے اُترتا تھا، گولیوں سے افاقہ نہ ہوتا تو انہیں پاکولا کی کئی بوتلیں پلائی جاتیں۔ پھوپھا کی عادت تھی کہ کہیں جاتے اور کھانا نہ ملتا یا کھانے میں دیر ہوجاتی تو وہ چیخنا چلّانا شروع کردیتے اور بدتہذیب بچوں کی طرح بدتمیزی پر اُتر آتے۔ اس معاملے میں وہ چھوٹے بڑے، کسی کا بھی ادب لحاظ نہ کرتے۔ کھانا جیسے ہی ان کے پیٹ میں اُترتا، اُن کی روح کو جیسے شانتی مل جاتی اور وہ گھر والوں سے کہتے، گاڑی میں چل کر بیٹھو اور فوراً گھر چلو۔ خاندان بھر میں وہ ’’صرف کھانے والا آدمی‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ایک بار تو انہوں نے حد ہی کردی، ایک جگہ دعوت میں گئے، کھانے میں ابھی کچھ دیر تھی، قریب میں ان کی ایک خالہ کا گھر تھا۔ انہوں نے بچوں سے کہا کہ گاڑی لے کر ذرا خالہ کے گھر چلو، وہاں دعوت سے پہلے کچھ کھاپی لیں گے۔ وہاں پہنچے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا پارہ چڑھنے لگا، کیوں خالہ نے اب تک ناشتا نہیں لگایا تھا۔ وہ جو خالہ پر گرم ہوئے تو ایک طوفانِ بدتمیزی مچا ڈالا: خالہ آپ مہمانوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہیں، پانی تک کو نہیں پوچھا۔
خالہ نے کہا: بیٹا تمہارا ہی گھر ہے، اگر ناشتا پانی میں کچھ دیر سویر ہوگئی تو دُم کٹے چُڑے کی طرح اتنا شوروغُل میوں مچارہے ہو؟
خالہ، میں کوئی دُم کٹا چڑا نہیں، آخر کو انسان ہو۔۔۔
خالہ نے چشمہ سرکا کر انہیں کھاجانے والی نظروں سے گُھورا اور کہا: نصیر احمد ، وہ تو تم کہیں سے نہیں لگتے۔۔۔لوگ سچ کہتے ہیں، تم ’’صرف کھانے والے آدمی‘‘ ہو، کھانا جلدی نہ ملے تو اپنے بڑوں سے بھی بدتمیزی کربیٹھتے ہو۔
ناشتا کرکے پھوپھا جیسے ہی دعوت میں جانے کے لیے نکلے، خالہ اور ان کے تمام گھر والوں کے دل سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل گئے۔
یاسر بھی کھاتے رہنے اور دوسروں پر لدکر کھانے پینے کی بُری عادت کی وجہ سے اپنے بہت سے دوستوں کے دل سے نکل چکا تھا، صرف لے دے کہ احمر ہی بچا تھا، جو اس کی اس عادتِ بد کو نظرانداز کرتا تھا، البتہ کبھی کبھی اسے سمجھاتا کہ کم کھایا کرو، زیادہ کھانے کی وجہ سے تم بیمار پڑ جاؤ گے۔
احمر کے ماموں ملک کے مایا ناز سائنس دان تھے ۔انہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے بہت سی چیزیں ایجاد کی تھیں اور احمر کو تجربات کا شوق ان ہی کو دیکھ کر ہوا تھا۔ گھر کے باغ کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرا تھا، جس میں اس نے اپنی ایک تجربہ گاہ بنائی ہوئی تھی۔ اسکو ل سے آنے کے بعد وہ اس میں چھوٹے موٹے سائنسی تجربات کیا کرتا تھا۔ یہیں اس نے کریم کیک تیار کرنے والی مشین بنائی تھی، جو مزے مزے کے کیک بناتی تھی، ایک بار اس میں یہ خرابی ہوئی کہ اسے روکنے والا بٹن ڈھیلا پڑگیا، چناں چہ وہ دھڑا دھڑ کیک بنانے لگی، یہاں تک کہ پورا کمرا کیکوں سے بھرگیا، لیکن صفائی احمر کو کرنی پڑی، نہ ہی ماسی کو، بلکہ یہ بیڑہ یاسر پیٹو نے اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے کمرے سے تمام کیک ڈکار گیا۔ احمر نے ایک سائیکل بھی بنائی تھی، جو بریک لگانے سے چلتی اور پیڈل مارنے سے رُک جاتی تھی، اس نے ایسا بلب بھی بنایا تھا، جو کبھی فیوز نہیں ہوتا تھا اور رنگ برنگی روشنیاں بکھیرتا تھا۔ اس نے ایسے کئی بلب بناکر دوستوں میں بانٹے تھے۔ اس نے یاسر کے غُبارے کی طرح پُھولے جسم کو کم کرنے کے لیے سِلم کیپسول بھی بنائے تھے، لیکن بدقسمتی سے یاسر کو کھلانے سے پہلے اس کے کزن، عمّارکا بکرا کھا گیا، جسے اس کے ابّو قربانی کے لیے لائے تھے اور سارے کیپسول ایک ہی ساتھ کھانے سے وہ ایک چھوٹے مُرغے کے برابر ہوگیا اور قربانی کے لائق ہی نہ رہا۔ مُرغے کے برابر قد والے اس بکرے کو بعد میں اس کے ابو نے ایک سرکس کے حوالے کر دیا، جس نے اس پر ٹکٹ لگا کر خوب خوب پیسے کمائے۔
اپنے پیٹ میں کیپسولزجانے کے بجائے، بکرے کے پیٹ میں جانے سے یاسر، کافی دن اُداس رہا، کیوں کہ دن بدن اپنے پُھولتے ہوئے جسم کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہوگیا تھا،اب نہ تو وہ کھیل کُود سکتا اور نہ ہی تیز دوڑ سکتا تھا۔ ذرا سا تیز چلتا، تو اس کاسانس پُھولنے لگتا تھا۔ وہ اسکول اور محلّے میں گیس کا غُبارہ اور ٹینکی کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ سارے لڑکے اس کے موٹاپے کا مذاق اڑاتے تھے، لیکن احمر کو یاسر عرف ٹینکی سے ہم دردی تھی۔ اسی ہم دردی کے پیش نظر کئی دنوں کی محنت کے بعد، اس نے یاسر کو دُبلا بنانے والی مشین ایجاد کرہی ڈالی۔ جب اس نے یاسر کو دُبلا ہونے کی نوید دی تو وہ خوشی سے ناچنے لگا ۔ جلدی سے بن کباب کا آخری ٹکڑا منہ میں ٹھونستے ہوئے اس نے کہا: اگر تمہاری مشین نے مجھے دُبلا کر دیا تو میں اخبار میں یہ خبر تمہاری ایک عدد تصویر کے ساتھ لگوادوں گا۔ اس کے چاچو اخبار میں ایڈیٹر تھے اور وہ بات بات میں ہر کسی پر اُن کا رعب جھاڑا کرتا تھا۔
مجھے اپنا موٹاجسم کم کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ بڑی بے صبری سے یاسر نے احمر سے سوال کیا۔
بس تمہیں اس مشین کے آگے بیٹھنا ہوگا۔ احمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بیٹھنا تو کیا، میں لیٹ بھی جاؤں گا، لیکن ایک کام نہیں کروں گا۔
کون سا کام؟ حیرت سے احمر نے پوچھا۔
یاسر نے کہا: میں اپنے کھانے پینے میں کوئی کمی نہیں ہونے دوں گا۔
ٹھیک ہے، جیسا تم چاہو، میں ڈاکٹر کی طرح تمہیں پرہیز نہیں کراؤں گا۔
احمر نے یہ جملہ ا دا کیا تو مارے خوشی کے یاسر نعرے لگانے لگا: ہپ ہپ ہرّے……..پھر کمرے میں گول گول ناچنے لگا۔
اگلا دن اتوار کا تھا۔ احمر نے یاسر کو علی الصبح اپنی چھوٹی سی لیبارٹری میں پہنچنے کی ہدایت کی، جو یاسر نے اس شرط کے ساتھ قبول کی کہ احمر اسے صبح انڈے پراٹھے کا زبردست ناشتا کرائے گا۔احمر نے وعدہ کرلیا۔
چھٹی والے دن یاسر دیر تک سویا پڑا رہتا تھا، لیکن انڈے پراٹھے کے شوق میں علی الصبح اپنے امیّ ابوّ کو حیرت زدہ چھوڑ کر احمر کے گھر پہنچ گیا، جو نماز فجر ادا کرنے کے بعد لیبارٹری میں مشین کا سامان چیک کررہا تھا کہ فضلو بابا نے اسے ٹینکی کے پہنچنے کی اطلاع دی۔ چناں چہ خود ’’ہلکا پھلکا‘‘ اور ٹینکی کو ’’زبردست‘‘ ناشتا کروانے کے بعد وہ اپنی چھوٹی سی تجربہ گاہ میں پہنچ گیا۔ اس نے ایکسرے نما مشین کے سامنے یاسر کو کھڑا کردیا اور اس سے کہا کہ وہ تیار رہے۔
کیا سانس روک لوں؟ یاسر نے پوچھا۔
نہیں ، اس کی ضرورت نہیں۔
ٹھیک ہے، مشین چلادو۔ یاسر نے کہا۔
تیار رہو، میں بٹن دبا رہا ہوں ۔
احمر کا یہ جملہ سنتے ہی ٹینکی نے سانس روک لی۔ اسی وقت احمر نے سرخ رنگ کا بٹن دبا دیا۔۔۔روشنی کا ایک زبردست جھماکا ہوا، چند لمحوں تک تو کچھ نظر ہی نہ آیا۔ پھر جب احمر کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ یاسر کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں۔
ہائیں، یاسر کہاں گیا؟ گھبرا کر احمر نے خود سے سوال کیا، پھر اس نے اس جگہ پر دیکھا، جہاں چند منٹ پہلے اس نے اسے کھڑا کیا تھا، لیکن اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
ضرور مشین میں کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔
وہ بڑبڑایا، پھر اچانک اس نے اپنی پالتو بلیّ مانو کو دیکھا، جو منہ میں کچھ دبائے تیزی سے باہر جارہی تھی۔ اس کے منہ میں گڑیا جیسی کوئی چیزدبی ہوئی تھی۔ اب جو احمر نے غور سے دیکھا، تو وہ یاسر ٹینکی تھا۔وہ چلاّیا: ارے یہ تو ٹینکی ہے، باپ رے باپ ، گڑ بڑ ہوگئی، مشین نے یاسر کوبالکل ہی گڈّا بنا دیا ہے۔ پھر وہ سوچنے لگا کہ اب یاسر کو دوبارہ اپنی اصلی حالت میں کیسے واپس لاؤں ؟ لیکن فی الحال ، ابھی تو اسے مانو کے منہ سے نکالنے کی تدبیر کرنی تھی۔ مانو کہیں اسے چوہا سمجھ کر نہ کھا جائے۔۔۔یہ سوچتے ہی احمر پُھرتی سے بلیّ کے پیچھے بھاگا۔ ادھر یاسر پوری قوت سے چلاّرہا تھا: بچاؤ ، بچاؤ۔۔۔یہ دیو نما بلّی مجھے کھا جائے گی۔۔۔لیکن اس کی آواز بہت دھیمی تھی، یوں لگ رہا تھا، جیسے شہد کی کو ئی مکھی بِھنبھنا رہی ہو۔
احمر نے چیخ کر مانو سے کہا: ہش ۔۔۔ہش، اسے نہ کھانا، یہ چوہا نہیں، انسان ہے۔
بھلا مانو کیا سمجھتی، وہ تو یاسر کو اپنا شکار سمجھ رہی تھی، بھاگ کر باغ کی دیوار پر چڑھ گئی، لیکن احمر کی چیخ وپُکار پر وہ اتنی خوف زدہ ہوگئی کہ یاسر اس کے منہ سے نکل گیا۔۔۔
ارے میں گرا، کوئی مجھے بچائے، اُف میں مرا۔۔۔
یاسر بُری طرح چلارہا تھا، پھر جیسے ہی وہ بلّی کے منہ سے چُھوٹ کر زمین پر گرا ، احمر بھاگ کر وہاں پہنچا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد یاسر کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی ہوگی، لیکن قریب پہنچ کر اس کے منہ سے اطمینان کا ایک گہرا سانس خارج ہوا، کیوں کہ یاسر گلاب کے ایک پھول پر گر کر بے ہوش ہوا تھا۔
شکرہے میرے مالک، اس کی جان بچ گئی۔ احمر نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا، پھر یاسر کو احتیاط سے اٹھا کر تجربہ گاہ میں لے آیا اور میز پر لٹا کر مشین کی گڑبڑ کا معائنہ کرنے لگا۔ مشین میں بہ ظاہر کوئی خامی نہیں نظر آرہی تھی۔ احمر نے مشین کھول بند کرکے کئی بار کچھ چیزوں پر آزمایا، وہ بالکل دُرست کام کررہی تھی، چناں چہ دوبارہ اسٹارٹ کرکے روشنی کا ایک تیز جھماکا بے ہوش یاسر پر ڈالا، لیکن یہ کیا۔۔۔اب تو یاسر مقررہ جگہ ہی سے غائب ہوچکا تھا۔
میرے مولا، یہ کیا ہوگیا؟۔۔۔پریشان ہو کر احمر نے اپنے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا، پھر میز کی دراز سے ایک محدبّ عدسہ نکال کر بہت غورسے اُس جگہ جائزہ لینے لگا، جہاں کچھ دیر پہلے اس نے یاسر کو لٹایا تھا، پھر حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساس سے اس کی چیخ نکل گئی،کیوں کہ یاسرنظر آرہا تھا، لیکن وہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے کسی باریک جرثومے میں تبدیل ہوچکا تھا۔
مارے گئے، اگر مشین ٹھیک نہ ہوئی تو یاسر کا کیا بنے گا؟ گھبراکر احمر نے پہلے تو لال رنگ کی پینسل سے یاسر کے آس پاس ایک گول نشان بنایا، پھر اپنی ٹوپی سے اس جگہ کو ڈھانپ کر مشین کو ٹھیک کر نے لگا۔
آدھ پون گھنٹے بعد مشین ٹھیک ہوگئی، تب احمر نے ٹوپی ہٹا کر مقررہ جگہ پر روشنی پھینکی، پہلے تو یاسر گڈّے کے برابر ہوا، اس کے بعد ہر باری میں کچھ نہ کچھ بڑاہوتا رہا ۔جب وہ ایک نارمل اور اسمارٹ لڑکے میں تبدیل ہوگیا تو احمر نے مشین بند کردی، اسی وقت یاسر کو ہوش آگیا۔
میں کہاں ہوں؟ اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پوچھا۔
تم لیبارٹری میں ہو، دیکھو تو تمہارا موٹاپا اس مشین کے ذریعے دور ہوگیا ہے۔ احمر نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔
تم کون ہو اور کس مشین کی بات کر رہے ہو؟ یاسر نے حیرت سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
اس کے منہ سے یہ جملہ سُنتے ہی احمر نے سر پیٹ لیا۔ مشین نے اسے مو ٹاپے سے نجات تو دلادی تھی، لیکن یادداشت چھین لی تھی۔
ٹینکی، تم کیسی باتیں کر رہے ہو، اِدھر دیکھو، میں ہوں تمہارا کزن احمر، میں تمہیں یہاں دُبلا کرنے کے لیے لایا تھا، تم ٹھیک تو ہو ناں؟
ٹینکی، یہ کیا نام ہوا بھلا، اس کا کیا مطلب ہے، میرے سر میں درد ہورہا ہے، کیا تم مجھے میرے گھر چھوڑ دوگے؟ مجھے اپنا گھر یاد نہیں آرہا۔۔۔یہ کہتے ہوئے یاسر نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ جواب میں احمر کو بھی اپنا سر تھامنا پڑا۔۔۔اُف میرے خدا، مشین نے تو اس کی یادداشت ہی چھین لی ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی نئی مصیبت کھڑی ہو، مجھے خاموشی سے اسے اس کے گھر چھوڑ دینا چاہیے۔
احمر نے سوچا ہی نہیں، فوراً عمل بھی کیا اور جُھومتے جھامتے یاسر کی کمر میں ہاتھ دے کر بڑی خاموشی سے باغ کے پچھلے گیٹ سے باہر لے گیا اور اسے، اُس کے گھر چھوڑ آیا۔
شکر ہے ممانی سے مڈ بھیڑ نہیں ہوئی، وہ اس وقت باغ میں سبزیاں توڑ رہی تھیں۔ اگر ٹینکی کو وہ اس حالت میں دیکھتیں تو پہلے تو اسے پہچان ہی نہ پاتیں اور اگر پہچان بھی لیتیں تو اتنا اسمارٹ دیکھ کر کبھی یقین نہ کرتیں کہ وہ یاسر ہے۔
بعد میں ہوا بھی یہی کہ یاسر کے گھر والے پہلے تو اسے دیکھ کر پہچان ہی نہ پائے، جب پہچان لیا تو احمر کو بلا کر پوچھا، یہ یاسر اتنا سلمِ اور اسمارٹ کس طرح ہوگیا؟
احمر اصل بات کیسے بتاتا، جواب گول مول کرکے کہا: ممانی، شاید کوئی کہہ رہا تھا کہ صبح یاسر چوک بازار میں کسی حکیم صاحب سے لال پیلی گولیاں لے کر کھارہا تھا۔ بڑے میاں کہہ رہے تھے کہ ان کی گو لیاں جادو کا کام کرتی ہیں، موٹے سے موٹا شخص انہیں کھا کر دُبلا پتلا اور اسمارٹ ہوجاتا ہے، شاید وہی گولیاں کھانے سے یاسر اتنا اسمارٹ ہوا ہے۔
لیکن یہ گھرمیں کسی کو پہچان نہیں رہا، کیا اس کی یاد داشت گُم ہوچکی ہے؟ ممانی کے لہجے میں ہلکا سا خوف بھی شامل تھا۔
احمر نے انہیں تسلّی دیکھتے ہوئے کہا: ممانی، گھبرائیے نہیں، لگتا ہے گولیاں کھانے سے اس کی یادداشت وقتی طور پرگُم ہوگئی ہے، اُمید ہے، کچھ دنوں بعد واپس آجائے۔
احمر کی بات سچ ثابت ہوئی، ایک ہی ہفتے بعد یاسر کی یادداشت واپس آگئی۔ یادداشت واپس آنے کے بعد اس نے گھر والوں کو بتایا کہ مجھے بازار میں کسی حکیم نے لال پیلی گولیاں نہیں کِھلائیں، بلکہ احمر کی بلّی مجھے منہ میں دبا کر دیوار پر چڑھ گئی تھی اور وہاں سے نیچے گرادیا تھا اورمیں بے ہوش ہوگیا۔ گھر والوں نے یاسر کی بات پر یقین نہیں کیا۔ انہیں احمر ہی پر پورا بھروسا ہے۔ اِدھر احمر بھی مطمئن ہے کہ یاسر کو بس اتنا ہی کچھ یاد ہے، سب کچھ یاد آجائے تو۔۔۔؟؟ یہ سوچ کر احمر لرز جاتا ہے،کیوں کہ پھر توگھر والے اس کے تجربات پر پابندی لگاسکتے ہیں۔
اپنے انوکھے اور حیران کن تجربے کی آزمائش کے بعد احمر نے کچھ دنوں کے لیے لیبارٹری میں تجربات بند کردیے ہیں۔ جب بھی وہ کوئی نیا تجربہ کرے گا، تو ہم اس بارے میں آپ ساتھیوں کو ضرور آگاہ کریں گے!!