پاک افغان تعلقات

224

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں۔ ان کو اس دورے کی دعوت بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے دی تھی۔ اس دورے کا مقصد افغانستان اور بھارت کے درمیان باہمی تعلقات بالخصوص تجارتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ افغانستان اور بھارت کے درمیان اچھے برادرانہ تعلقات پائے جاتے ہیں اور ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی مخلوط حکومت ان تعلقات کو مزید بہتر اور وسیع کرنا چاہتی ہے۔ نریندر سنگھ مودی کی حکومت بھی افغانستان کو اپنا توسیعی پڑوسی ملک قرار دیتی ہے جس کو Extended Neighbourhoodکا نام دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے اِس سال افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ کابل پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت بھارت نے ہی تعمیر کی تھی اور اس کو افغان عوام کے لیے بھارتی عوام کا تحفہ قرار دیا تھا۔ اس عمارت کے افتتاح کے لیے مودی نے کابل یاترا کی تھی اور واپسی پر چند گھنٹوں کے لیے لاہور بھی آئے تھے اور پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف کے گھر رائے ونڈ تشریف لے گئے تھے اور اس کو خیرسگالی جذبات کا اظہار قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اب صورت حال بہت بدل چکی ہے۔ بھارتی جاسوس کل بھوشن سنگھ نے بہت سے رازوں کو افشا کردیا۔ خود بھارتی وزیراعظم نے اپنی کشمیر والی تقریر میں بلوچستان کے آزادی پسندوں کی پیٹھ ٹھونکی ہے اور پاکستان کے بارے میں بھارتی عزائم کو آشکار کیا ہے۔ اب بھی مسئلہ پاکستان کا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اور افغان صدر باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے جس منصوبے پر بات کرنا چاہتے ہیں اس میں پاکستان رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اس کے سامان سے لدے ہوئے ٹرک پاکستان کے راستے افغانستان جائیں۔ وہ پاکستان کو ایک تجارتی گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ عام حالات میں یہ ایک معمول کی بات تھی، دونوں ملک باہم بیٹھ کر ایک معاہدہ کرلیتے، تفصیلات طے ہوجاتیں، محصولات کا تعین ہوجاتا اور پاکستان بھارت کو ایک معاشی راہداری فراہم کردیتا، جس کے بعد بھارتی ٹرک بلا روک ٹوک پاکستان سے گزر کر افغانستان بلکہ وسط ایشیا کے ممالک تک جائے اور اس طرح پورے علاقے میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملتا۔ لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ بھارت کھلم کھلا پاکستان دشمنی پر تلا ہوا ہے، وہ ہر ممکن طریقے سے اپنے پڑوسی ملک کو زچ کررہا ہے۔ ہر عالمی فورم پر وہ پاکستان کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ کشمیر میں وہ بری طرح سے کشمیریوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انکاری ہے اور ریاستی طاقت اوو جبرو تشدد سے کشمیری قوم کی آواز کو دبانا چاہتا ہے۔ وہ مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہے۔ سیاچن گلیشےئر پر قبضہ کرکے اس نے دنیا کے سب سے اونچے اور ٹھنڈے محاذ کو گرم کررکھا ہے۔ پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو وہ بالواسطہ سپورٹ اور اسپانسر کر رکھا ہے۔ اس طرح ہر ممکن ذریعے سے وہ پاکستان کو کمزور اور پارہ پارہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان اپنے دفاع اور سالمیت کی حفاظت کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ وہ غربت کے باوجود ایک بڑی فوج کا خرچہ برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ ان حالات میں وہ بھارت کے ساتھ کاروباری معاملات یکسوئی سے کیسے طے کرسکتا ہے!
بھارتی دورے سے پہلے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت سے تجارت کے لیے افغانستان کو زمینی راستہ فراہم کرے۔ انہوں نے اس مطالبے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے یہ بات نہ مانی تو افغانستان وسط ایشیائی ممالک سے پاکستان کی تجارت پر پابندی لگا سکتا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک باقاعدہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے جس پر قیام پاکستان سے عمل ہورہا ہے۔ اس سے پہلے برطانوی دور سے افغانستان کراچی کی بندرگاہ کو اپنی درآمدات و برآمدات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان پابند ہے کہ وہ افغانستان کو ہر سہولت فراہم کرےٍ، کیونکہ وہ ساحلِ سمندر سے دور زمین میں گھرا ہوا ملک ہے۔ اس لیے پاکستان ہر سہولت افغانستان کو فراہم کررہا ہے۔ لیکن بھارت اور افغانستان کے درمیان کاروبار کے لیے زمینی راستہ فراہم کرنا پاکستان پر لازم نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ طے پائے جس کے لیے لامحالہ مذاکرات کرنے پڑیں گے اور بات چیت کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں گے۔ لیکن بھارت پاکستان سے بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھنا چاہتا۔ گزشتہ سال اس نے سارک کی وزرائے خزانہ کانفرنس میں بھی اپنا وزیر نہ بھیجا جو اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم کے اچانک اور مختصر دورے کے بعد وزرائے خارجہ کانفرنس میں جو خاص طور پر افغانستان کے موضوع پر تھی، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے شرکت کی تھی، اُس وقت بھی اسلام آباد ائرپورٹ پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ چونکہ کانفرنس ’’افغانستان ہارٹ آف ایشیا‘‘ کے موضوع پر ہے اس لیے میں آئی ہوں۔ ہمارے لیے افغانستان کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن پھر بعد میں جب سارک وزرائے داخلہ کی کانفرنس تھی تو بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ وقت سے پہلے کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ اُن دنوں مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی جوبن پر تھی اور بھارتی فوج کشمیریوں کو پیلٹ گن کے ذریعے زندگی اور بینائی سے محروم کررہی تھی، جس پر پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا۔
تاریخی طور پر بھی بھارت پاکستان دشمنی میں افغانستان کو استعمال کرتا رہا ہے۔ اس نے افغانستان میں کمیونسٹ تسلط کی کھل کر حمایت کی تھی۔ بھارت واحد آزاد ملک تھا جس نے روسی ٹینکوں پر سوار ہوکر افغانستان میں کمیونسٹ حکومت قائم کرنے والے ببرک کارمل کی حکومت کو تسلیم کیا تھا اور اُس دور میں پاکستان کے کچھ عناصر جو پختونستان بنانا چاہتے تھے، کو سپورٹ کیا تھا۔ اسی طرح الذوالفقار تنظیم جو پاکستانی منتخب وزیراعظم اور مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بنائی گئی تھی، کی بھی معاونت کی تھی۔ اس طرح بھٹو دور میں ناراض بلوچ رہنماؤں کی بھی حمایت کی تھی اور اُن کے لیے تربیتی کیمپ بھی افغانستان میں قائم کیے تھے۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور افغانستان میں بھارتی اثر رسوخ پاکستان کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ بھارت ایک بڑا لیکن غریب ملک ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے اس ملک کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اس کے باوجود اس نے افغانستان کی تعمیر میں دو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ بھارت نے پانی، بجلی، سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر، سلمیٰ ڈیم، ٹرانسپورٹ اور سماجی بہبود و تعلیم کے بیسیوں ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے ہیں، جس کے لیے افغانستان حکومت اور عوام اس کے مشکور ہیں۔ امریکی سائے میں قائم کردہ حامد کرزئی حکومت اور اب ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے ساتھ اس کے بہترین تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ افغان میڈیا پر بھارت کی گرفت ہے۔ ساٹھ سے زائد ٹی وی چینلز کو دور درشن کے خلائی سیٹلائٹ اسٹیشن سے سستے داموں نشریات کی سہولت حاصل ہے، جس کے لیے پورا الیکٹرانک میڈیا بھارت کا مرہون احسان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس اثر رسوخ کو وہ علاقے کی مجموعی ترقی، امن و سلامتی اور باہمی تجارت کے فروغ کے لیے استعمال کرتا اور اس میں وہ پاکستان کو بھی شامل کرتا جو اس کا پڑوسی ملک ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے جو کردار بھارت کو اس خطے میں ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں کررہا ہے بلکہ پاکستان دشمنی میں وہ مزید اضافہ کررہا ہے۔ مودی حکومت پاکستان کے خلاف جارحانہ موڈ میں ہے۔ وہ پاکستان کو ایک طفیلی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔ بقائے باہمی کی قائل نہیں ہے۔ صرف بھارتی حکومت اس خبط میں مبتلا نہیں ہے بلکہ بھارت کا قومی رجحان بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں ٹویٹر اور فیس بک پر بھارتیوں کے خیالات اور تبصرے پڑھیں تو حیران رہ جائیں گے۔ پاکستان اور چین مل کر پاکستان کے غریب عوام کی فلاح و بہتری کے لیے ایک بڑی شاہراہ اور تجارتی گزرگاہ تعمیر کررہے ہیں جس پر بھارتیوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے۔ ایسی ایسی باتیں کررہے ہیں جو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں۔ پاکستان کی تباہی و بربادی کی پیشن گوئیاں کی جارہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ چین پاکستان کو دھوکا دے رہا ہے۔ سی پیک کا کوئی فائدہ پاکستان کو نہیں ہوگا۔ پاکستانی بے وقوف ہیں۔ پاکستانی عقل سے کورے ہیں۔ چین پاکستان پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ سی پیک تباہی و بربادی کا نسخہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھائی لوگو! دو ملک اگر باہم بات چیت کے ذریعے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اگر گوادر بندرگاہ ہم اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ساتھ افغانستان بھی بآسانی جڑ سکتا ہے۔ وسط ایشیائی ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ سب ممالک گرم پانیوں کی تلاش میں ہیں۔ گوادر بندرگاہ ایک وسیع و عریض سہولت فراہم کرسکتی ہے جس میں سینکڑوں بحری جہاز بیک وقت لنگرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دی ہے اور وہ اسے افغانستان کے ساتھ کاروبار کے لیے استعمال کررہا ہے۔ وہاں20 جہازوں سے زائد کی گنجائش نہیں۔ اس لیے بھارت بھی افغانستان کے ساتھ تجارتی سامان کے لیے گوادر کی بندرگاہ استعمال کرسکتا ہے۔ پاکستان کی افغانستان اور ایران سے کوئی دشمنی نہیں ہے، ہمارا مسئلہ اپنے ملک میں غربت اور افلاس کو ختم کرنا ہے، جہالت کو مٹانا ہے، عوام کو تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتیں بہم پہنچانا ہیں۔ ہم میزائل، ٹینک اور بم بنانے کے بجائے اسکول، کالج اور ہسپتال بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں، لیکن بھارت ہمیں ایسا کرنے نہیں دے رہا ہے۔ وہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت نہیں دینا چاہتا، ان کو دبانا چاہتا ہے جس پر پاکستانیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے یہ خطہ میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ بھارت کو جلد یا بدیر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کشمیر اُس کی جاگیر نہیں ہے۔ وہ کشمیریوں کا ہے اور اُن کو حقِ خود ارادیت دینا ہوگا۔ ان کو آزادی سے اپنی رائے کے اظہار کا حق دینا بھارت، پاکستان اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے پھلوں سے لدے ہوئے ٹرکوں کو واہگہ سرحد پار کرکے بھارت جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس نے افغان مہاجرین کی پاکستان میں رہائش کی میعاد میں بھی توسیع کردی ہے اور اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ افغانیوں کو ہراساں نہ کریں۔ پاکستانی حکومت اور عوام افغانستان کے خیرخواہ ہیں۔ وہ افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ افغانستان کے متحارب گروپ آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کریں۔ افغانستان میں جمہوری نظام قائم ہو۔ حقیقی نمائندہ حکومت بنے جو افغان قوم کی امنگوں اور تصورات کی آئینہ دار ہو۔ پاکستان نے حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی دونوں کی حکومتوں کو تسلیم کیا ہے۔ ان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ افغانستان بھی ایک غریب ملک ہے۔ اس کے عوام بھی تعلیم و صحت کی سہولتیں چاہتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں جنگ ہے۔ ان کو امن درکار ہے۔ بچوں کا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔ مزید تباہی و بربادی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاک افغان تعلقات بہترین انداز میں قائم ہوں۔ دونوں ممالک کے درمیان 2300کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ 70 سے زائد زمینی راستے ہیں۔ ہزاروں سال پرانے تعلقات ہے۔ اب اگر بھارت ان تعلقات میں رخنہ ڈال رہا ہے تو یہ زیادتی ہے۔ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ آئندہ اس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستان کے 11ہزار کلومیٹر لمبے ریلوے ٹریک کو افغانستان تک توسیع دے دی گئی تو علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اس کو آگے وسط ایشیا کے عظیم الشان ریلوے نظام سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح CPEC تجارتی شاہراہ سے بھی افغانستان جڑ سکتا ہے۔ اس طرح پاک افغان تعلقات کا روشن باب شروع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ افغان حکومت اپنی قومی حکمت عملی میں اس کو اولیت دے۔ بھارت کے ساتھ اس کی تجارت و معاشی تعلقات پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، لیکن وہ محدود پیمانے پر بھی ممکن ہے۔ پاکستان اور افغانستان مل کر ایک لامحدود معاشی ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہوں تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے طاقت کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں۔ دونوں ممالک کی اقدار، تہذیب اور مذہب مشترک ہیں۔ اختلافات کو ایک طرف رکھ کر کام کیا جائے تو کوئی مشکل نہیں۔ بھارت افغانستان کی مجبوری نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اس کو آڑے نہیں آنا چاہیے۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے برسراقتدار آنے پر پاکستان کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا تھا اس کے اعادے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی کو روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے ایسا ہو۔ آمین