ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے

232

افشاں نوید

وہ بھی عمر کا کیا دور ہوتا ہے جو سودا سر میں سما جائے۔۔۔ چوتھائی صدی قبل کی ڈائریاں آرکائیوز سے برآمد ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ جب جذبے جنون بن جائیں تو کیا کیا کام کرا لیتے ہیں اور وہ لوگ جن کے نہ والدین تحریکی ہوں نہ انہوں نے کوئی داعیانہ کردار قریب سے دیکھا ہو۔ وہ تو ایک عجب سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بدایونی خاندانوں کے اپنے ہی رسم و رواج تھے جو نسل در نسل چلے آرہے تھے۔ آپ سوچیں ایک ٹین ایج کی لڑکی کھڑے ہو کر کہے کہ اب گھر میں کونڈے نہیں ہوں گے‘ اب ہمارے گھر میں ربیع الاوّل پر بریانی تقسیم نہیں ہوگی‘ اب شب برأت پر حلوہ بنا کر گھروں میں بانٹنے کوئی نہیں جائے گا‘ اب نانا‘ دادا کی برسی کے کھانوں پر کوئی فاتحہ نہیں پڑھے گا‘ اب ہمارے گھر سے کوئی دس بیبیوں کی کہانی سنانے نہیں جائے گا‘ اب ہم پڑوس کی گھروں میں کونڈے کھانے ہرگز نہیں جائیں گے‘ اب ہم محلے کی میلاد کی محفلوں میں سلام کھڑے ہو کر نہیں پڑھیں گے چاہے جو بھی کچھ ہو جائے۔۔۔ تو کیسے کیسے طوفان برپا نہ ہوتے ہوں گے۔۔۔؟
امی جان ابا جان سے چھپاتیں کہ انہیں علم ہوگیا تو یونیورسٹی جانا بند کر دیں گے‘ باجی دھیمے سے کان میں کہتیں ’’اچھا تو کونڈوں کو نہ مانو مگر رسماً آ صروری جانا ورنہ سسرال میں میری ناک کٹ جائے گی۔۔۔‘‘ باجی اکثر سرہانے رکھی مولانا مودودیؒ کی کتاب تکیے کے نیچے رکھ دیتیں کہ بڑے بھائی غصہ ہوتے ہیں کہ ان کتابوں سے اس کا دماغ چکرا دیا ہے۔ اس کی سمجھ میں کوئی بات ہی نہیں آتی۔۔۔ کبھی کہتیں ’’تفہیم القرآن بھائی سے چھپ کر پڑھا کر و کہتے ہیں بس قرآن کافی ہے‘ ہمیں نئے نئے نظریات درکار نہیں۔‘‘ اور جب خاندان کی کوئی لڑکی پہلی بار پردہ کرے تو کیسی کیسی مخالفتیں نہ ہوتی ہوں گی۔
چچی‘ تائی‘ پھوپھی سب سمجھانے لگتیں کہ ہمارے ہاں اتنا سخت پردہ نہیں ہوتا۔ لو بھلا جن کزنز کے سامنے بچپن سے آتی ہو وہ تو تمہارے بھائیوں جیسے ہی ہیں۔۔۔ ان سے کیا پردہ۔۔۔ کبھی امی جان کہتیں کہ خاندان بھر میں بھونچال آگی اہے تائی اماں سخت ناراض ہیں کہ ہمارے بیٹے کوئی کردار کے گئے گزرے ہیں کہ اب تمہارے گھر میں ان سے بھی پردہ ہوگا۔ کبھی کہا جاتا کہ شادی کی تقریب میں تو سب ’’اپنے‘‘ ہی شریک ہوتے ہیں۔ خبردار جو پردہ کرکے گئیں ہم ساتھ لے کر نہیں جائیں گے تمہیں۔۔۔ کبھی پڑوسن آکر کہتیں امی جان سے کہ ’’بھابی سارے محلے سے محرم کی نیاز آئی آپ کے گھر سے تو ہمیشہ بڑے اہتمام سے نیازوں کی تقسیم ہوتی تھی اس بار ہم منتظر ہی رہے۔ بے بی کہہ رہی تھی شاید آپ کے گھر میں وہابی اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔
تب امی جان کہتیں خاندان تو خاندان تم نے محلے میں بھی سر اٹھانے کی قابل نہیں چھوڑا۔۔۔ لوگ کیا چہ مگوئیاں کر رہے ہیں ہمارے بارے میں۔۔۔ کبھی سادگی سے کہتیں کہ شاید تمہیں محلہ ہی نہ چھوڑنا پڑے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ مگر کیسی طاقت ہوتی ہے حق کی اور صداقت کی کہ دلیل کے آگے کچھ بھی نہ ٹھہر پاتا۔ کبھی امی جان کہتیں میری ماں اور نانی کی روح کو کتنی تکلیف ہوگی نہ تم رجب کے کونڈے بننے دیتی ہو نہ شب برأت کا حلوہ۔۔۔ خوا مخواہ تمہیں یونیورسٹی میں داخل کرایا۔ ہم تو پچھتا رہے ہیں اس فیصلے پر۔۔۔ اور تب مجھے اپنی وہ کزنز یاد آتیں جو شادی شدہ اپنے گھروں کو سدھار گئی تھیں انہوں نے ہمارے خاندان کو کسے کیسے بہکایا کہ لڑکی کو یونیورستی مت جانے دیں‘ وہاں کی ہوا بہت بری ہوتی ہے۔ جس کو بھی لگ جائے۔ لڑکیاں مخلوط ماحول میں بگڑ جاتی ہیں‘ ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ خاندان کی عزت کا پاس و لحاظ کریں بس کالج سے گریجویشن کرالیں۔ تھوڑا بہت دباؤ ڈالا گیا خاندان سے مگر ابا جان روشن خیال تھے بولے اگر ہماری بچی یونیورسٹی سے گریجویشن کرنا چاہتی ہے تو ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہیے۔
اور ہم انٹر کے بعد یونیورسٹی چلے گئے۔ جو خدشات ظاہر کیے جارہے تھے اللہ کے حکم سے معاملات برعکس ہوگئے مگر خاندان کو دونوں صورتوں میں پریشان ہی ہونا تھا۔ مگر یہ پریشانی عجب سرشاری ساتھ لائی تھی۔
میری چھوتی بہنیں جب بدلے ہوئے روز و شب دیکھتیں تو ایک دوسرے کو اشارے کرکے کہتیں ’’جمعیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔‘‘ اور واقعی اگر وہ جادو سر چڑھ کر نہ بولتا تو جادو ہی کب ہوتا۔
جو جمعیت کے سرکل میں داخل ہوتا اس کی دنیا ہی بدل جاتی۔ مزا تو جب آتا جب ہماری یونیورسٹی کی سہیلیاں تبدیلیوں سے چونکتیں اور تنہائی میں لے جا کر بارہا سمجھانے کی کوشش کرتیں کہ ہم جمعیت کے قریب کیوں نہیں آتے؟ اس لیے کہ ہمارے والدین کہتے ہیں کہ یہ ’’سیاسی اسلام‘‘ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ مذہب کے پردے میں سیاست اچھی چیز نہیں ہوتی۔ کیا فائدہ نقصا اٹھا کر پلٹو اس لیے سمجھ داری تو یہی ہے کہ اتنا آگے ہی مت جاؤ بس دعا سلام کا تعلق رکھو اتنا ’’اِن‘‘ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم یہاں پڑھنے آئے ہین سیاست کرنے تو نہیں آئے۔‘‘ مگر یہ ایسی دنیا تھی کہ اندر والا باہر والے کو حال بتا ہی نہیں سکتا۔
مولاناؒ کا لٹریچر اور جمعیت کا تربیتی نظام انسان کو یکسر بدل دیتا ہے اور وہ تبدیلی خانقاہی تبدیل نہیں ہوتی۔ اب نہ صرف ہمارے گھر سے وہ سب جدّی پشتی نیاز نذر کی سلسلے ختم ہوئے بلکہ محلے کے کسی گھر میں سیدہ بی بی اور دس بیبیوں کی کہانی سننے اور سنانے کے بلاوے آنا ختم ہوگئے۔ ان کو سمجھایا کہ یہ شرک ہے اور متبادل وظائف اور صلوٰۃ حاجات وغیرہ کے طریقے بتا دیے۔ دعاؤں کی کتابیں ہدیتاً دے دیں۔ سادہ لوگ ہوتے ہین سمجھانے سے مان بھی جاتے ہیں۔ محلے میں میلاد پھر بھی ہوتے رہے مگر پھر ہمیں میلاد اکبری کی من گھڑت روایات کے بجائے ’’زادِ راہ‘‘ اور ’’راہِ عمل‘‘ سے صحیح احادیث سنانے کا شرف حاصل ہوگیا۔
پھر چھوٹی بہنیں بھی کوشش کرکے تحریک میں شامل کرائین تو خود ہمارے گھر درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہونے سے آس پاس کے لوگوں پر اثرات نظر آنا شروع ہوئے اس لیے کہ حق حق ہے جو خود دل کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ یادوں کی یہ افادیت ضبط تحریر لانے کا مقصد یہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا رہے کہ اندھیروں کو کوسنے سے کب تیرگی مٹتی ہے بات تو جب بنے کہ ہر کارکن عہد کرے کہ:
دیے کرتی رہوں روشن
اِدھر رکھ دوں‘ اُدھر رکھ دوں
ایک بات جو متاثر کن تھی‘ اور آج بھی ہے‘ وہ جمعیت طالبات کی اپنے مشن کے ساتد کمٹمنٹ ہے۔ ہر وقت ہر قربانی کی لیے تیار اوڑھنا بچھونا جمعیت اور اس کی بڑی وجہ آپس کی بے غرضانہ رفاقتیں تھیں۔ ایک زنجیر تھی سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہتے تھے‘ سب کا دکھ درد کے یوں ساتھی ہوتے تھے کہ خونی رشتے دار کیا خیال رکھتے ہوں گے۔ دین کا کتابی علم جس کے ساتھ داعیانہ کردار وابستہ نہ ہو ایک الگ طرح کی شخصیت بناتا ہے مگر تھوڑے سے علم کے ساتھ بھی اگر دعوت کے میدان میں اتریں تو سماج کے درمیان گردش کرنے والوں کی یہ سماج اور ہی شخصیت بنا دیتا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ایک تاجر جب اپنا مال منڈی میں لاتا ہی تب بھی اس کے بھاؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتابی علم کے ساتھ مشاہدات و تجربات شخصیت میں دوسری طرح کا تنوع پیدا کر دیتے ہیں۔ بہرحال دعوتی میدان کار کے لیے علم و عمل دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
جمعیت کا یوم تاسیس پر اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے میں یہ ضرور کہوں گی کہ آج سے پچیس تیس برس پہلے جمعیت کو وہ چیلنجز درپیش نہیں تھے جو آج ہیں۔ اُس وقت ٹیکنالوجی نے بھی اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ اُس وقت نئی ناظمہ اعلیٰ کے پیغام کے لیی مہینے بھر ’’پکار‘‘ کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اِس وقت سیکنڈوں میں ہوا کی لہروں پر سب کچھ دستیاب ہے‘ اس وقت ساتھیوں کی صحبت کے لیے تربیت گاہوں کا انعقاد کا انتظار کرتی تھے آج فیس بک اور واٹس ایپ کے گروپس میں سب دن میں کئی بار حال احوال شیئر کرتے ہیں۔ کس کے گھر میں کیا پکا‘ کس کے بچے کس عمر کے ہیں‘ کون کہاں مصروف ہے اب پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں ہر اک سوشل میڈیا پر پورے طمطراق سے موجود ہے۔ یہاں بھی احتیاط کو بہرحال مدنظر رکھنا چاہیے کہ یہ بھی دجالی فتنوں کی ایک شکل ہے۔ عورت اور یوتھ اس وقت استعمار کا اصل ہدف ہے۔ نوجوانوں کے ذوق اور رجحان کو دیکھتے ہوئے اپنے منصوبے بنانا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس وقت بھی شوریٰ کے ایجنڈے وہی ہوں جو 25 برس پہلے ہوتے تھے اب سوچ و بچار اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ جزویات میں الجھنے سے بہتر ہے کہ اصل ہدف پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ چیلنج بہت بڑا ہے‘ اور ہم نے سوچ سمجھ کر پورے شعور کے ساتھ اسے قبول کیا ہے۔ مکتلف این جی اوز کی ذریعے جس طرح نوجوان نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور میڈیا جس طرح استعمال ہو رہا ہے ضرورت ہے کہ آپ بھی ایجنڈے Proactive ہوں محض خرابیوں کا نوحہ کرنے سے خرابیاں نہیں جاتیں۔ باصلاحیت اور ذہین طالبات کو کیسے متاثر کیا جائے اور ان کو اپنی قوت بنایا جائے یہ بات غوروفکر کی متقاضی ہے۔ آپ کے پاس بھی ایسی صلاحیتوں والے افراد کی ضرورت ہے جو ان کو متاثر کرسکیں۔
ان شاء اللہ اسلام کا عَلم اس سرزمین پر آپ کے ہاتھوں میں لہرائے گا بشرطیکہ سیرت سازی اور اخلاق کی بلندی آپ کا شعار رہے۔ بلاشبہ آپ وہ خوش نصیب اجنبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے راستے کے لیے منتخب کیا اور خوب سنوارا۔