پاکستان کے حکمرانوں کی کشمیریوں سے بے وفائی

219

یہ نہ کبھی بھلائے جانے اور نہ کبھی معاف کرنے والا المیہ ہے کہ کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی استصواب رائے کی قرار داد کی منظوری کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں نے استصواب کے موقف کو ترک کر کے کشمیر کی تقسیم اور اس کے علاقوں کے بٹوارے کی راہیں تلاش کرنی شروع کر دیں تھیں۔
اس المیہ کا آغاز 1953میں اس زمانہ کے گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں ہوا جب انہوں نے منتخب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کر کے امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔امریکا سے آئے ہوئے تازہ تازہ، اپنے تقرر کے فوراً بعد محمد علی بوگرہ نے ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی مہم شروع کی اور ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو کراچی آنے کی دعوت دی۔ اس دورہ کے بعد جنوری 1955کو گورنر جنرل غلام محمد لکھنو کے قریب، بارہ بنکی میں دیوا شریف کی زیارت کے بہانے دلی گئے اور پالم کے ہوائی اڈہ پر، نہرو کو ایک بند لفافہ دیا جس میں کاغذ کے ایک پرزے پر کشمیر کے مسئلے کا 4 نکاتی حل تجویز کیا گیا تھا۔ بنیادی نکتہ سلامتی کونسل کی استصواب کی قرارداد پر عمل درآمد کا نہیں تھا بلکہ اس پر زور دیا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کو کشمیر کا مسئلہ آپس میں طے کرنا چاہیے کسی بیرونی مداخلت کے بغیر۔ بلا شبہ، نہرو کے لیے یہ انداز فکر طمانیت کا باعث تھا کہ پاکستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ سے باہر حل کرنا چاہتا ہے، دوسرے معنوں میں استصواب کی شرط اب لازمی نہیں۔ دیوا شریف سے واپسی کے فوراً بعد غلام محمد نے 14 مئی 55 کو اپنے وزیر اعظم بوگرہ اور وزیر داخلہ اسکندر مرزا کو دلی بھیجا جنہوں نے نہرو سے بات چیت کی جن میں مولانا ابوالکلام آزاد اور وزیر داخلہ پنڈت گوبند بلبھ پنتھ بھی شامل تھے۔ پاکستان کے وزراء نے اس بات چیت میں استصواب کا موقف ترک کر کے کشمیر کی تقسیم کی تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ جموں کا ایک بڑا علاقہ بشمول، پونچھ، ریاسی، اور ادھم پور وغیرہ پاکستان کو منتقل کر دیے جائیں اور اسکردو، ہندوستان کے حوالہ کر دیا جائے۔ کارگل کا علاقہ، کشمیر سے نتھی کردیا جائے اور آئندہ وادی کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہو اس کے مطابق کارگل کا مستقبل طے کیا جائے۔ پاکستان کی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ کارگل پر، ہندوستان اور پاکستان کا سیاسی اور فوجی لحاظ سے مشترکہ کنٹرول ہو۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ استصواب کا امکان اگلے پانچ سال سے لے کر بیس سال تک موخر ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کے اس رویہ سے پنڈت نہرو کو جو دراصل دسمبر 1948 ہی سے استصواب کو رد کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے لیکن مصلحت اور بدنامی کے پیش نظر اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتے تھے، استصواب سے روکش کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کے بعد جب ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے دوران نہرو نے ایوب خان سے، مصلحتاً تنازع کشمیر پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی جس کے نتیجے میں، 62، 63 میں سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے تو ان میں بھی استصواب بنیادی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تما م تر زور، کشمیر میں بین الاقوامی سرحد کھینچنے پر تھا۔ سورن سنگھ، کشمیر کی تقسیم کے لیے پاکستان کی رضامندی کے عوض، وادی کشمیر میں ہندواڑہ کا علاقہ پاکستان کو منتقل کرنے پر تیار تھے لیکن، چین کی جنگ میں ہندوستان کو شکست خوردہ تصور کرتے ہوئے بھٹو نے کتھوا کے سوا پوری وادی کو پاکستان میں شامل کرنے پر زور دیا۔ ان مذاکرات میں اس تجویز پر بھی غور ہوا کہ ٹٹوال، اڑی اور پونچھ کے علاقے پاکستان کے حوالے کر دیے جائیں اور اس کے عوض پاکستان جموں کا چناب کا علاقہ اور کارگل کے قریب، دراس کا قصبہ، ہندوستان کے حوالہ کر دے۔
المیہ در المیہ جولائی 1972کو شملہ میں مسز گاندھی اور بھٹو کے درمیان مذاکرات میں جو سمجھوتا طے پایا اس میں کشمیر کا تنازع، کشمیر کا مسئلہ قرار دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے اختلافات باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اور کسی تیسرے فریق کو حتیٰ کہ اقوام متحدہ کا اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یوں کشمیر کا تنازع، کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کے مسئلہ کی جگہ محض دونوں ملکوں میں اختلاف قرار دیا گیا اور اقوام متحدہ کے تحت استصواب کا موقف ہمیشہ کے لیے ترک کردیا گیا۔ یہی نہیں شملہ سمجھوتے کے تحت کشمیر میں جنگ بندی لائین کو لائین آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔
1999میں نواز شریف کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے دورہ کے اعلامیہ میں شملہ سمجھوتے کی منظوری کی پختہ مہر ثبت کر دی گئی کہ دونوں ملکوں نے شملہ سمجھوتے پر مکمل عہد کا پیمان کیا۔ لاہور اعلامیہ میں کشمیر کے تنازع کا خاص ذکر نہیں تھا صرف اتنا کہا گیا تھا کہ دونوں ملک جموں اور کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کریں گے۔
فوجی آمر پرویز مشرف نے بھی آگرہ میں اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات میں کشمیر کو تنازعے کے بجائے مسئلہ قرار دیا۔ یہی نہیں انہوں نے حریت کے رہنماوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ آگرہ میں مشرف نے مذاکرات میں استصواب یا اقوام متحدہ کی قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ آگرہ کے 9 نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ کشمیر کے معاملہ کا حل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کرے گا۔
1955 سے 2001 تک پاکستان کے حکمرانوں نے، جن میں فوجی آمر پیش پیش اور منتخب رہنما بھی شامل تھے، کشمیر کے تنازع کے بارے میں جو موقف اختیار کیا اس کے بارے میں بلا تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی صریح خلاف ورزی تھی، جس کے تحت کشمیروں سے پیمان کیا گیا تھا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ، حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ خلاف ورزی کشمیر کے عوام سے بے وفائی سے زیادہ غداری تھی۔ آج ہندوستان کے زیر تسلط کشمیر میں نوجوانوں کا صبر کا پیمانہ بڑی حد تک پاکستان کے حکمرانوں کے اس بے وفا رویہ سے لبریز ہوگیا ہے اور اب انہوں نے، تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق، آزادی کی جدوجہد کا پرچم خود سنبھال لیا ہے۔ یہ جدو جہد حزب المجاہدین کے کمانڈر برھان وانی کی شہادت سے شروع ہوئی ہے۔ جس میں گزشتہ دہ ماہ کے دوران، 80 کشمیری نوجوان شہید ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 13 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں، یا تو کشمیریوں کو آزاد کرانے کے لیے اس مسلح جدو جہد کی بھرپور حمایت کرے، یہاں تک کہ ہندوستان اس کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ رہے، اور ہندوستان کو کشمیر سے اسی طرح اپنی جان چھڑانے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ رہے جس طرح فرانس کو الجزائر سے اپنی جان چھڑانی پڑی تھی۔ یا پھر پاکستان خود کشمیر سے آزادی حاصل کر لے۔ یہ صورت حال موجودہ حکمرانوں کے لیے تو وقتی طور پر سہولت کا باعث ہوگی لیکن، ملک کی آئندہ ہوش مند نسلیں ان حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔