بلدیاتی اداروں کی نااہلی، عیدالاضحی کے ایک ہفتے بعد بھی شہر کے بیشتر علاقوں سے آلائشیں اور کچروں کے ڈھیر صاف نہ ہوسکے، جراثیم کش اسپرے کا فقدان

194

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) بلدیاتی اداروں کی نااہلی کے باعث عیدالاضحی کے ایک ہفتے بعد بھی شہر کے بیشتر علاقوں سے آلائشیں اور کچروں کے ڈھیر صاف نہ کیے جا سکے اور نہ ہی جراثیم کش اسپرے مہم شروع کی جا سکی ہے، شہر کی فضا میں تعفن بڑھنے لگا، طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شہر خوف ناک وبائی امراض کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، یومیہ 13 لاکھ سے زائد مریض اسپتالوں سے رجوع کرنے لگے، شہر میں لگے جا بجا کچرے کے ڈھیروں کو محفوظ طریقے سے منتقل کرنے اور اٹھانے کے بجائے گلیوں، بازاروں اور آبادیوں کے درمیان ہی آگ لگا دی جاتی ہے۔ ماہر امراض آنکھ، ناک اور گلا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق موجودہ صورت حال شہریوں کو جلدی بیماریوں، دمہ، سانس کی بیماریوں، آنکھوں کے امراض، آنکھوں میں جلن وغیرہ، گلے، آنتوں کی سوزش، ناک کے امراض، پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاوہ پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی مبتلا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مرزا علی اظہر کا کہنا ہے کہ صحت کا معاملہ ارباب اختیار و اقتدار کے نزدیک کبھی کوئی سنگین مسئلہ نہیں رہا، ایک طرف شہریوں کے لیے طبی سہولتوں کا فقدان ہے تو دوسری جانب بلدیاتی اداروں کی نا اہلی اور غفلت شہریوں کی طبی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر رہی ہے۔ ہر عید الاضحی سے قبل یہ
معمول بن چکا ہے کہ کانگو نامی وائرس سے ڈرا کر شہریوں کو سنّت ابراہیمیؑ سے دور رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، عید قرباں کے اول روز سے آلائشوں، کچروں اور گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر جمے خون کی صفائی میں غفلت اور کوتاہی بھی شہریوں کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ دعوے، اعلانات اور بیانات کے برعکس عملاًصورت حال یہ ہے کہ شہر کے اکثر علاقوں میں عید الاضحی کو گزرے قریباً ایک ہفتہ ہوگیا ہے لیکن اب بھی گلیوں اور شاہراہوں کے اطراف درمیانی فٹ پاتھوں پر پڑے کچرے کے ڈھیروں نے ماحول کو انتہائی متعفن بنا رکھا ہے اور ان کے قریب سے گزرنا شہریوں کے لیے محال ہو چکا ہے۔ طبی ماہرین اس تمام تر صورت حال کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ڈاکٹر مرزا علی اظہرکے مطابق اگر اس تمامگندگی کو فوری طور پر صاف کر کے جراثیم کش اسپرے مہم نہیں چلائی گئی تو شہر میں خطرناک متعدی و وبائی امراض پھوٹ پڑیں گے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ان میں اکثریت معصوم بچوں کی ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب ان بلدیاتی اداروں کی نااہلی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ طبی ماہرین کے مطابق ایک محتاط اندازے کے مطابق ان امراض میں مبتلا ہونے والے 13 لاکھ سے زائد مریض یومیہ سرکاری، نیم سرکاری، نجی ہسپتالوں، کلینکوں اور ڈسپنسریوں سے رجوع کر رہے ہیں۔ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ سمیت بلدیاتی اداروں کے چیئرمینوں کے دعووں کے برعکس عملی صورت حال یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں سے اب تک آلائشیں اٹھائی نہیں جا سکیں، ریڑھی اور ابراہیم حیدری کے گوٹھوں کے گرد و نواح میں آلائشیں تاحال کھلے آسمان تلے پڑی ہیں، کورنگی انڈسٹریل ایریا کے نالے میں آلائشیں پڑی ہیں جس سے شدید تعفن اٹھ رہا ہے اور شہر کے مرکزی نوعیت کے حامل مینا بازار پل کے نیچے گندگی کے ڈھیر لگائے جانے کے ساتھ آلائشیں پل کے نیچے پڑی ہیں، ملیر، لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد، نیو کراچی، گلشن اقبال کے بعض علاقوں، جمشید زون کی کچی آبادیوں میں بھی جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں اور ان کو لگائی گئی آگ سے شدید تعفن اٹھنے کے علاوہ خدشہ ہے کہ مذکورہ جگہوں سے ملحقہ آبادیاں شدید متعدی و وبائی امراض کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔