عوام میں اس حقیقت کا شعور عام نہیں ہے کہ امتِ مسلمہ کے مشہورِ زمانہ ’’زوال‘‘ کے قصے میں یورپی طاقتوں کی غلامی کا کردار مرکزی ہے۔ غلامی کا یہ تجربہ نہ ہوتا تو امتِ مسلمہ کا ’’تصورِ ذات‘‘ کچھ اور ہوتا۔ امت کے تہذیبی، ذہنی، نفسیاتی اور سماجی و معاشی مسائل کچھ اور ہوتے۔ لیکن غلامی کے تجربے نے ہر چیز کے معنیٰ کو بدل کر رکھ دیا۔ عہدِ حاضر میں غلامی کے تجربے کو اقبال نے جس طرح سمجھا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اقبال نے غلامی کی ہولناکی کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ غلامی صرف سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن اقبال نے کہا ہے کہ غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ قوموں کے ضمیر تک کو بدل دیتی ہے۔ مسلم دنیا میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید احمد خان ہیں۔ غلامی کے تجربے سے پہلے سرسید ایک روایتی مسلم معاشرے کی مذہبی شخصیت اور دردمند انسان تھے، مگر غلامی کے تجربے نے ان کی قلبِ ماہیت کردی۔ انگریزوں کی فتح اپنی نہاد میں عسکری فتح تھی، مگر سرسید نے عسکری فتح کو تہذیبی فتح میں تبدیل کردیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ انگریز غالب آئے ہیں تو صرف اس لیے نہیں کہ اُن کے پاس بہتر ہتھیار ہیں بلکہ اس لیے کہ اُن کے پاس برتر تہذیب ہے، برتر علوم و فنون ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ نہ صرف یہ کہ انگریزوں کی بالادستی کو دل و جان سے قبول کریں بلکہ اگر وہ باشعور، مہذب اور صاحبِ علم بننا چاہتے ہیں تو انگریزوں کی تہذیب اختیار کریں، ان کی زبان بولیں، ان کے علوم و فنون پڑھیں۔ انگریز پروٹسٹنٹ عیسائی تھے، اور پروٹسٹنٹ ازم عقل پرستی کا حاصل تھا۔ چنانچہ سرسید کو محسوس ہوا کہ جب تک ہم بھی اسلام میں عقل پرستی کو رائج نہیں کریں گے، حقیقی مذہبیت سے ہمکنار ہوکر ترقی نہیں کرسکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے عقل پرستی کے مغربی تصور کے مطابق قرآن کی ایسی تفسیر لکھی کہ جو گمراہیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں سرسید کی جرأت اتنی بڑھی کہ انہوں نے پورے تفسیری علم کو مسترد کردیا، حدیث کا انکار کیا، جنت اور دوزخ کو محض ذہنی کیفیت قرار دیا، فرشتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کا کوئی خارجی وجود نہیں بلکہ یہ انسان کی باطنی قوتیں ہیں۔ سرسید غلامی کے تجربے سے پہلے ایسے نہیں تھے، مگر غلامی کے تجربے کے اثرات نے انہیں ایسا بنادیا۔ لیکن یہ صرف سرسید کا معاملہ نہیں۔
روایتی علماء پر غلامی کے تجربے کا اثر یہ ہوا کہ وہ ریاست و سیاست کے معاملات سے بے نیاز ہوگئے۔ ان کے عقائد، عبادات اور اخلاقیات تو بچ گئی مگر انہوں نے دل سے تسلیم کرلیا کہ اسلام کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں، ان دائروں میں اب وہی کچھ ہوگا جو انگریز چاہیں گے۔ روایتی علماء نے برصغیر میں دین کی روایت کے تحفظ کے لیے تاریخی خدمات انجام دیں اور دینی علوم کے سلسلے میں غیر معمولی کام کیا۔ مگر اس کام کی نوعیت ’’دفاعی‘‘ تھی۔ علماء سمجھتے تھے کہ انگریز آگئے ہیں اور یہ قیامت تک کے لیے آگئے ہیں، چنانچہ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے محدود دائرے میں قلعہ بند ہوکر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ ہمارے دینی مدارس نے طلبہ کو یہ تو بتایا کہ عقائد، عبادات اور اسلام کا اخلاقی نظام کیا ہے، مگر یہ نہ بتایا کہ دین کی کلیت کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے یہ تو بتایا کہ حق کیا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ باطل کیا ہے؟
اکبر الہٰ آبادی مغرب کے خلاف فکری محاذ پر سب سے پہلے اور سب سے بڑے مجاہد بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے مغرب کے چیلنج کو جذب کرکے اتنا بڑا تخلیقی تجربہ پیدا کیا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ اکبر نے اپنی شاعری کے تخلیقی وفور سے ایک جانب مسلمانوں کے ذہن اور ذوق پر پڑنے والے مغرب کے اثر کو زائل کیا اور دوسری جانب انہوں نے تصورِ توحید سے لے کر بسکٹ کی سطح تک یہ دکھایا کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے کیوں اور کتنی برتر ہے۔ مگر اس کے باوجود اکبر غلامی کے تجربے سے یکسر آزاد نہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے
شعرِ اکبر کو سمجھ لو یادگارِ انقلاب
اس کو یہ معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اکبر کو معلوم تھا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے کمتر ہونے کے باوجود غالب آگئی ہے اور اب ہمارے تہذیبی دائرے میں ہر طرف اسی کا سکہ چلے گا۔
اقبال کی شخصیت غلامی کے سمندر میں آزادی کے جزیرے کی طرح ہے، اور وہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ میں اکبر کے بعد شعور کی دوسری منزل تھے۔ اس منزل میں اقبال نے صرف شعوری طور پر نہیں وجدانی سطح پر بھی یہ جان لیا تھا کہ مغرب باطل ہے اور مغربی تہذیب فنا کی زد میں ہے، چنانچہ اگر مسلمان بھی اس کی تقلید کریں گے تو ان کا مقدر بھی وہی ہوگا جس سے مغربی تہذیب دوچار ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں اقبال کے ذہن پر بھی غلامی کا کچھ نہ کچھ اثر تھا۔ اس اثر کے بغیر اقبال ’’شکوہ‘‘ جیسی نظم نہیں لکھ سکتے تھے۔ بلاشبہ شکوہ میں اقبال نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے دل کے چور کو زبان دی ہے، مگر اقبال نے اس نظم میں خدا سے جو کچھ کہا ہے وہ ان کا ذاتی مسئلہ بھی تھا
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
***
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملی حور و قصور
اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
***
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے
بلاشبہ ان شعروں میں برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی اجتماعیت کے دل کا چور بھی بول رہا ہے، مگر یہ چور کہیں نہ کہیں خود اقبال کے دل میں بھی موجود تھا۔ بلاشبہ اقبال کا شعور بہت جلد اس سطح سے بلند ہوگیا اور انہوں نے پوری طرح اپنی اصل تخلیقی شخصیت کو پا لیا، لیکن ابتدا میں غلامی کے تجربے کی پرچھائیاں اقبال کے شعور پر اثرنداز ہوتی نظر آتی ہیں۔
برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے فکری منظرنامے پر مولانا مودودیؒ کا ظہور برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے شعور کی تیسری منزل کااستعارہ تھا، لیکن مولانا کی شخصیت اور فکر کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس پر غلامی کے تجربے کا کوئی اثر موجود نہ تھا۔ اقبال نے کہا ہے
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اقبال کی شخصیت خود اسی ’’ذوقِ یقیں‘‘ کی علامت ہے، لیکن مولانا کی تو شخصیت ہی ذوقِ یقین سے تعمیر ہوئی تھی اور وہ بیس بائیس سال کی عمر تک وہ بن چکے تھے جس کا ظہور ان کی آخری عمر تک ہوتا رہا۔ غلامی کے اثرات سے پاک ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا کی فکر ابتدا ہی سے ’’دفاعی‘‘ نہیں ’’اقدامی‘‘ تھی۔ انہیں پہلے دن سے معلوم تھا کہ اسلام حق ہے اور وہ مغلوب ہونے کے لیے نہیں آیا۔ انہیں احساس تھا کہ مغلوبیت کا یہ زمانہ جسے عہدِ غلامی کہا جارہا ہے امتِ مسلمہ کے سفر کی محض ایک منزل ہے۔ مولانا سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی غلامی کا بنیادی سبب اسلام سے دوری ہے۔ مولانا کو یقین تھاکہ مسلمان اسلام کو اختیار کریں گے تو وہ صرف اپنی نہیں پوری دنیا کی تقدیر بدل دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ۔
مولانا کی شخصیت اور فکر کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ مولانا حالیہ صدیوں کے سب سے بڑے توحید پرست تھے۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مولانا کی فکر کا مرکزی نکتہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا عالمگیر اعلان اور عالمگیر نفاذ ہے۔ چنانچہ مولانا نے پوری قوت کے ساتھ یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان اور نفاذ صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات میں تھوڑی درکار ہے، بلکہ ہماری سیاست، معاشرت، معیشت، جنگ، امن، علوم و فنون اور کلچر میں بھی اللہ کی کبریائی کا اعلان اور نفاذ ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا اسلام کی کلیت کو پوری بصیرت اور شدت کے ساتھ سامنے لائے۔ روایتی علماء کے برعکس انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حق کیا ہے اور عصرِِ حاضر کا باطل کیا ہے۔ انہیں اسلام کے مقابلے پر باطل کی پسپائی کا ایسا یقین تھا کہ انہوں نے 1950ء کی دہائی میں کہہ دیا تھا کہ کمیونزم کے لیے ماسکو اور سرمایہ داری کے لیے نیویارک، لندن اور پیرس اجنبی ہونے والے ہیں۔ مولانا کو اسلام کی عظمت کا ایسا شعور تھا کہ جب پوری امت مغلوب تھی وہ کہہ رہے تھے کہ مستقبل تو صرف اسلام کا ہے۔ اسلامی تہذیب کے دائرے میں احیاء کا مطلب زندگی کو اصل سے جوڑنا ہے، اور مولانا نے احیاء کا کام اتنے بڑے پیمانے پر کیا کہ زندگی کے کم و بیش ہر شعبے اور دائرے کو اصل سے مربوط کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی۔ لیکن مولانا صرف فکری محاذ پر کام کرکے نہیں رہ گئے، اور اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا ’’احیائی نمونہ‘‘ مکمل نہ ہوتا۔ مولانا نے فکر کو عمل بنانے کے لیے جماعت اسلامی قائم کی اور مولانا کی فکر نے پوری مسلم دنیا، اور جماعت اسلامی نے مسلم دنیا کے کئی اہم معاشروں میں غلبۂ دین کے تصور کو معاشرے کا مرکزی مسئلہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ 20 ویں صدی کی مسلم دنیا کے منظرنامے پر جگہ جگہ مولانا کی فکری مہر لگی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا نے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا؟
اس سوال کا جواب آسان ہے: تقویٰ اور علم۔ یعنی تعلق باللہ اور علم۔ مولانا کے لیے اللہ تعالیٰ کی موجودگی قال نہیں حال تھی، اور مولانا کی زندگی کا کوئی پہلو اللہ کی موجودگی کے شعور سے بے نیاز نہیں تھا۔ اس کا اثر مولانا کے علم تک پر مرتب ہوا۔ مولانا کا علم کم نہیں تھا، لیکن تعلق باللہ نے مولانا کے علم میں جو برکت، تاثیر اور کشش پیدا کی وہ مولانا کے معاصرین میں کسی کو فراہم نہ ہوسکی۔ مولانا کے معاصرین کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے علم کو مخصوص اصطلاحوں میں بیان کرسکتے تھے، مگر مولانا کے علم کا کمال یہ ہے کہ مولانا نے معنی بدلے بغیر علم کے اظہار کا پورا سانچہ بدل دیا۔ اس کے بغیر نہ کوئی احیائی تحریک برپا ہوسکتی تھی اور نہ اسے خواص و عوام میں مقبولیت حاصل ہوسکتی تھی۔