عابد علی جوکھیو

265

امتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اعزاز بخشا ہے کہ وہ اس کائنات کی آخری امت ہے جو انبیاء کے مشن کو تاقیامت لے کر چلنے والی ہے۔ یہ اسی امت کا خاصہ ہے کہ اس پر ہی اس کائنات کا خاتمہ ہوگا اور ان کے بعد کسی کو نہیں آنا۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام سے لے کر تاقیامت پیدا ہونے والے انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔ کس کو جہنم میں جانا ہے اور کون جنت کا مستحق قرار پائے گا۔ جہاں اس امت کو اللہ نے کئی انعامات اور اعزازات سے نوازا ہے وہیں اس پر بھاری ذمے داریاں بھی عائد کی ہیں، ان ذمے داریوں میں سب سے مقدم اقامتِ دین ہے۔ دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور اس کا نفاذ اس امت کا اصل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کا مقصدِ تخلیق ہی یہ بتایا ہے کہ ’’تم ایک بہترین امت ہو، جو لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے، تاکہ لوگوں کو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک سکے‘‘ (آل عمران 110)۔ یہ وہ عظیم کام ہے جو اس امت کو کرنا ہے۔ اتنا عظیم کام کرنا اتنا آسان نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متحد ہوکر رہنے کا حکم دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کریں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہیے۔ (متفق علیہ)
اقامتِ دین کا تصور ہی مسلمانوں کو متحد کرتا ہے، کیونکہ جب اقامتِ دین کی بات آتی ہے تو اس کے لیے مسلمانوں کا متحد ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد اسی قدرِ مشترک پر ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کی سرحدوں اور قیود سے نکل کر ؂
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
کے مصداق پوری دنیا میں اقامتِ دین کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ کسی مسلمان کو دنیا کے ایک کونے میں ہونے والی تکلیف کو دوسرے کونے میں رہنے والا محسوس کرے اور حتی الوسع اس کی مدد کرے، یہی اسلام کا مطلوب ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دُکھے تو اس کا سارا جسم دُکھ محسوس کرتا ہے، اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم)
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ وہ دوسرے کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ہر موقع پر خیر خواہی کا معاملہ کرے۔ اس کو کسی کے ظلم سے بچاکر یا کسی پر ظلم کرنے سے روک کر بھی خیرخواہی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ دونوں معاملات میں نقصان کا سودا ہے، اسی لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر خیرخواہی کا معاملہ کریں کہ کسی کو نقصان میں دیکھ ہی نہ سکیں، اور اسے اس نقصان سے بچانے کی حتی الوسع کوشش کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اس لیے نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسرے کا نشانۂ ظلم بننے کے لیے اس کو بے مدد چھوڑے (یعنی دوسروں کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کی مدد کرے)، اور جو کوئی اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرے گا، اور جو کسی مسلمان کو کسی تکلیف اور مصیبت سے نجات دلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کسی مصیبت اور پریشانی سے نجات عطا فرمائے گا، اور جو کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ داری کرے گا۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، (لہٰذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے، نہ دوسروں کے ظلم کا نشانہ بننے کے لیے اس کو بے یار و مددگار چھوڑے، نہ اس کی تحقیر کرے‘‘۔ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کرکے فرمایا: ’’تقویٰ یہاں ہے، کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ مسلمانوں کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔‘‘ (مسلم)
مذکوہ بالا احادیث مسلمانوں کے اتحاد پر زور دے رہی ہیں، کیونکہ یہ اتحاد ہی ہے جو مسلمانوں کو اپنے مقصدِ عظیم کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر مسلمان تو کیا کسی کا بھی کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ اگر یہ اتحاد نہ ہو تو دشمن اس کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو بآسانی اپنے شکنجے میں لے سکتا ہے، اور آج پوری دنیا میں یہی ہورہا ہے کہ مسلمان اپنے انتشار اور افتراق کے باعث پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک وقت ایسا آئے گا جب غیرمسلم تم پر ایسے ہاتھ ماریں گے، جیسے دعوت میں دسترخوان پر بیٹھے لوگ کیا کرتے ہیں‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: ’’کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی؟‘‘ جواب دیا: ’’تعداد تو بہت ہوگی، لیکن تم ایسے ہوگے جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے بے شمار تنکے‘‘ (مسند احمد)۔ آج کے دور میں اس حدیث کی واضح مثال دیکھی جاسکتی ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں پر دشمن ٹوٹ پڑا ہے۔ مسلمان ممالک کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ شیطانی قوتیں مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر حکمرانی کررہی ہیں اور مسلمان ہیں کہ انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں، اور اگر ادراک ہے بھی تو اپنے مفادات اور حکمرانی کو طول دینے کے لیے دشمنوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب اسی لیے ہورہا ہے کہ مسلمانوں نے جہاں اپنا اصل کام چھوڑ دیا ہے وہیں ان کے دلوں میں دنیا کی محبت نے جگہ لے لی ہے۔ ان کی ساری تگ و دو دنیا کے حصول کے لیے ہی ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے مسلمان ہر جگہ ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ان پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ پوری دنیا میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
آج کشمیر سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔ خصوصاً حالیہ دنوں میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر پوری دنیا کے مسلم ممالک کی جانب سے کوئی خاص اور واضح ردعمل نہیں آیا۔ یہ صرف افتراق کا نتیجہ ہے کہ ایک نہیں کئی ممالک میں کفار مسلمانوں پر کھلے عام ظلم کررہے ہیں لیکن کوئی ایک مسلم ملک بھی ان کی حمایت میں کھڑا نہیں۔ مسلمانوں کے افتراق کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ مسلمان جو پوری دنیا پر حکمران تھے، آج پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے ہیں، ان کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، ان کے ممالک تباہ حالی کا شکار ہیں، وہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہیں، ان ممالک کے لیے اپنا وجود تک برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ صرف اور صرف افتراق کے باعث ہے۔ اگر مسلمانوں نے اپنی حالت پر غور کرتے ہوئے اپنے اصل کام کی طرف دھیان نہیں دیا تو پوری دنیا میں ہمیں رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ فلسطین میں اسرائیل کا ناجائز وجود ہمارے سامنے ہے، آج فلسطین کی زمین خود فلسطینیوں کے لیے تنگ پڑگئی ہے۔ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں دیا جارہا۔ افغانستان، شام اور عراق وغیرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو باقاعدہ خانہ جنگی کا شکار ہیں، لیکن دیگر ممالک کی صورت حال بھی بہتر نہیں۔ خود ہمارا ملک پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ کبھی امریکا تو کبھی پڑوسی ممالک کی جانب سے دھمکیاں ملنا معمول بن چکا ہے، اور اس پر مستزاد ان ممالک کی جانب سے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ کوئی ملک بھی سکون میں نہیں۔
خالقِ کائنات نے مسلمانوں کا سکون اپنے ذکر میں رکھا ہے، اور اللہ کا ذکر یہ ہے کہ اس کی مرضی چلائی جائے، اس کا دیا ہوا نظام نافذ کیا جائے، اس کے لیے جدوجہد کی جائے، آپس میں متحد ہوا جائے، اپنی ذاتی زندگیوں سے لے کر تمام اجتماعی معاملات اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے چلائے جائیں۔ حقیقت میں اللہ کا ذکر یہی ہے کہ ہمارا مقصد اس کے بتائے ہوئے نظام کا نفاذ ہے، کیونکہ اس نظام کے نفاذ کے لیے ہر عمل اور اٹھایا گیا ہر قدم اللہ کے ذکر سے خالی نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کا عالمی اتحاد اور اللہ کی بندگی اختیار کرتے ہوئے اس کے دیے ہوئے نظام کے نفاذ کی کوشش وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر مسلمان اس مقصد پر سنجیدگی سے کام کریں تو بعید نہیں کہ ذلت و پشیمانی سے نجات حاصل کرلیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہم سب کو عموماً اور اربابِ اختیار کو خصوصاً یہ بات سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ اپنی کثرت کے باوجود بھی دنیا میں کچھ مقام و مرتبہ نہ ہونے کی وجہ صرف اور صرف اپنا اصل مقصد اور اللہ کا ذکر بھولنا ہے۔ اگر مسلمان اس فارمولے پر عمل کرلیں تو دنیا کی کوئی طاقت بھی انہیں دونوں جہانوں کی کامیابی سے نہیں روک سکتی۔
نوٹ: سنڈے میگزین کا یہ صفحہ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ کے جائزے کے لیے ہے، جہاں اللہ کی مدد و نصرت سے مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی مسائل اور حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ اس صفحے کو مزید مؤثر اور بہتر بنانے کے لیے آپ کی آراء ہمارے لیے باعثِ افتخار ہوں گی۔ مزید برآں کسی بھی اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی جاسکتی ہے تاکہ آج کے مسائل پر زیادہ بحث ہوسکے۔ اوپر دیے گئے ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔