عبدالحفیظ بٹ

202

13154لسطین! انبیاء کرام کی سرزمین ہے۔ فلسطین تین بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔ اس کا شہر بیت المقدس (یروشلم) بین المذاہب کا مرکز ہے۔ اسی شہر میں تینوں مذاہب کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ اہلِ یہود کے خیال کے مطابق فلسطین براہِ راست خدا کی طرف سے انہیں دیا گیا ہے۔ یہ سرزمین ان کے لیے ارضِ موعود (PROMISED LADND) ہے، جس کا فیصلہ براہِ راست خدا کی طرف سے کیا گیا ہے۔ عیسائیوں کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام یہیں پیدا ہوئے۔ اسی سرزمین کو انہوں نے اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ اس لیے اہم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 622ء میں معراج کے سفر میں یہاں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کے ہمراہ یہاں نماز ادا فرمائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اردن، فلسطین، لبنان اور شام (سیریا) پر مشتمل یہ تمام علاقہ سرزمینِ شام کہلاتا تھا۔ مسلمانوں نے اس علاقے کو سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں فتح کیا تھا۔
14مئی 1948ء کو ارضِ فلسطین پر ریاست اسرائیل کا وجود بین الاقوامی استعماری سازش اور منظم منصوبے کے تحت عمل میں لایا گیا۔ اسرائیل نے اپنے صہیونی مزاج کے عین مطابق ابتدا میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور بعد ازاں 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے ذریعے فلسطین پر مکمل قبضہ کرلیا۔ خاص طور پر مقدس شہر بیت المقدس (یروشلم) جہاں مسلمانوں کا قبل�ۂ اول ہے، اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ گرد وپیش کے عرب ممالک اردن، شام، لبنان اور مصر کے علاقوں پر بھی اسرائیل قابض ہوگیا۔ اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں، شہروں اور بالآخر اپنے ہی وطن سے نکال باہر کیا۔
اسرائیل اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی ساحل اور بحیرۂ احمر کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جغرافیائی لحاظ سے یہ نہایت اہم مقام ہے۔ اسرائیل کی زمینی سرحدیں کچھ اس طرح ہیں کہ اس کے شمال میں لبنان اورگولان کی پہاڑیاں، مشرق میں اردن اور فلسطینی علاقہ مغربی کنارہ، شمال مشرق میں شام، اور جنوب مغرب میں غزہ کی پٹی اور مصر واقع ہیں۔ اس طرح اسرائیل ایشیا، افریقا اور یورپ کے درمیان ایک پل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔
اسرائیل کا کل رقبہ 20 ہزار 7 سو 70کلومیٹر ہے۔ واضح رہے کہ اس رقبہ میں 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کیے گئے عربوں کے علاقے بھی شامل ہیں۔ ان مقبوضہ علاقوں کا مجموعی رقبہ 7ہزار 99 مربع کلومیٹر ہے۔ اسرائیل کے مرکزی محکمہ برائے شماریات کے مطابق اسرائیل کی موجودہ آبادی 85 لاکھ 66ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس آبادی میں یہودی 75 فی صد، جب کہ مسلمان 21 فی صد اور دیگر 4فی صد ہیں۔ اسرائیل دنیا کی واحد یہودی اکثریتی ریاست ہے۔ اسرائیل کے معنی’’عبداللہ‘‘ کے ہیں یعنی ’’ اللہ کا بندہ‘‘۔ یہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ آپ ؑ سیدنا یوسف علیہ السلام کے والدِ گرامی ہیں۔ آپ ؑ کے والد سیدنا اسحاق علیہ السلام اور آپؑ کے دادا سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکز ہے۔ جب کہ دیگر اہم شہروں میں بیت المقدس (یروشلم) اور ساحلی شہر حیفہ قابلِ ذکر ہیں۔ بیت المقدس (یروشلم) کے بعد حیفہ اسرائیل کا دوسرا شہر ہے جو بین المذاہب کا مرکز ہے۔ یہاں یہودی، عیسائی، مسلمان سنی، شیعہ، دروز (DRUZE) بہائی اور قادیانی سب ہی موجود ہیں۔ اسرائیل کی مجموعی آبادی کا 55فیصد ان شہروں میں سکونت پذیر ہے۔ اسرائیل نے 2 ہزار سال پرانی عبرانی زبان کو زندہ کردیا ہے۔آج اسرائیل میں جدید عبرانی بولی جاتی ہے۔ عربی دوسری بڑی سرکاری زبان ہے۔ اگرچہ انگریزی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ یہ بات قابلِِ غور ہے کہ یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اوّلین کام جو انھوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اتوار کے بجائے ہفتے کو چھٹی کا دن مقرر کیا۔
اسرائیل میں یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کے بعد سب سے بڑا درجہ تعلیم کا ہے۔ اسرائیل بھر میں تعلیم کو ہوا اور سورج کی روشنی کی طرح مفت کردیا گیا ہے۔ یہ بات نظر میں رکھنے کے لائق ہے کہ 1969ء میں ساری دنیا کے یہودیوں نے چندہ جمع کیا تاکہ بیت المقدس (یروشلم) میں ایک بڑا سنگاگ (SYNAGOGUE) (یہودی عبادت گاہ) تعمیر کیا جائے۔ یہ رقم ایک بلین امریکن ڈالر پر مشتمل تھی۔ یہ تمام رقم اسرائیل کے چیف ربی (مفتیِ اعظم اسرائیل) کی خدمت میں پیش کی گئی، تاہم چیف ربی نے عبادت گاہ کی تجویز کو یہ کہہ کر ردکردیا کہ ’’خدا ساری دنیا کا مالک ہے۔ ساری شان وشوکت اسی کے لیے ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں اس کے لیے ایک بلین ڈالر کی رقم کا محل تعمیر کرنے والے! اس کی بندگی تو ہر جگہ سوتے، جاگتے کی جاسکتی ہے۔ خدا کو جاننے کے لیے علم ضروری ہے۔ جاؤاس رقم سے ایک تعلیمی ٹرسٹ بناؤ تاکہ یہودی بے علم نہ رہے‘‘۔ اس طرح دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ٹرسٹ 1970 ء میں اسرائیل میں قائم کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہاں ہر فرد تعلیم یافتہ ہے اور خواندگی کا تناسب 98 فیصد ہے۔ موجودہ اسرائیل میں کتب بینی باَلفاظِ دیگر مطالعہ کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ دنیا بھر سے منتخب کردہ غیر ملکی زبانوں میں دستیاب کتب کے تراجم کا کام وسیع پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔ اس اعتبار سے اسرائیل دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، جبکہ کتابوں کی اشاعت میں اسرائیل کا دنیا بھر میں دوسرا نمبر ہے۔ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اسرائیلی طلبہ کا شمار سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ میں کیا جاتا ہے۔ اب تک 9 اسرائیلی سائنسدان سائنس کے مختلف شعبہ جات میں نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں۔
معیاری و مساوی اور مفت تعلیم کی بدولت اسرائیل کو ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی ایسی زبردست افرادی قوت حاصل ہوگئی ہے جس نے اسے دنیا کی 35 ویں بڑی معاشی طاقت بنادیا ہے۔ معاشی خوشحالی کے باعث مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی باشندوں کا معیارِِ زندگی پہلے نمبر پر ہے جبکہ ایشیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اسرائیلی کرنسی شیکل (SHEKEL) کہلاتی ہے۔ ایک شیکل 28 پاکستانی روپیہ کے برابر ہے۔ اسرائیل کی معیشت فنِ جنگ پر مبنی معیشت ہے۔ یہاں کے تمام تر وسائل جنگی تیاریوں اور متشدد کارروائیوں پر صرف ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جاپان، جرمنی اور سنگاپورکی طرح تیز رفتار ترقی نہیں کرسکا ہے۔ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست اورغیر اعلانیہ ایٹمی طاقت ہے۔ اسرائیل اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے سالانہ خطیر رقم تو صرف کرتا ہے لیکن فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسرائیل میں آباد عرب مسلمانوں کی عظیم اکثریت سنی العقیدہ ہے، اگرچہ شیعہ بھی موجود ہیں۔ اسرائیل میں قادیانی خود کو عرب مسلم کہتے ہیں جبکہ اسرائیل انھیں احمدی مسلم کہتا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں عقائد اور اخلاق میں پاکباز اور معاملات میں راست باز راسخ العقیدہ مسلمانوں کو قابلِ قدر گردانا جاتا ہے۔ اسرائیل میں اسلام اور مسلمان نمایاں کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔ اس ضِمن میں اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی جانب سے پیش کیے گئے حقائق اور اعداد وشمار حیران کردینے والے ہیں، مثلاً اسرائیل میں یہودیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے مطابق1949ء تا 2016ء مسلمانوں کی آبادی میں دس گنا اضافہ ہوچکا ہے۔1988ء تا 2016ء کے دوران اسرائیل میں 500 سے زائد مساجد تعمیر کی جاچکی ہیں اور مساجد کی تعمیر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اسرائیلی محکمۂ اوقاف کی جانب سے 300 سے زائد امام ومؤذن کو ماہانہ وظائف دیے جارہے ہیں۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس میں 1700 کے قریب مسلمان اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت26 ہزار مسلمان طلبہ وطالبات اسرائیل کے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے حصول میں مصروف ہیں۔
اسرائیل میں اسلام کے فروغ اور اُبھرنے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اسرائیل میں آباد یہودی اور عیسائی خواتین شادی کے معاملے میں کسی یہودی یا عیسائی مرد کے مقابلے میں مسلمان مرد کو ترجیح دیتی ہیں، کیونکہ مسلمان مرد یہودی یا عیسائی مرد کے مقابلے میں اپنی بیوی سے زیادہ وفاشعار، مخلص اور محبت کرنے والے ثابت ہوتے ہیں۔ دوم، سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق حقائق جاننے کے بعد اسلام قبول کررہے ہیں، اگرچہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا اور شوشل میڈیا پر اسلام سے متعلق زبردست پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ سوم، ایسے خاندان اور افراد جن کے رشتہ دار، دوست یااحباب یورپ اور امریکا میں بستے ہیں اور دونوں جانب سے میل ملاپ، سیروسیاحت اور تجارتی اور تعلیمی ضرورت سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کے مرکزی محکمۂ شماریات کے مطابق 2006ء میں 60 افراد نے اجتماعی طور پر اسلام قبو ل کیا تھا، جبکہ 2005ء میں ایسا دو سے زائد بار ہوا ہے۔ اسرائیلی محکمۂ شماریات کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں تبدیلئ مذہب کے رجحان میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیلی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار یہ بتا رہے ہیں کہ تبدیلئ مذہب کے رجحان میں استحکام آتا جارہا ہے۔ اسلامی شرعی عدالت کے ایک سینئر رکن کا کہنا ہے کہ یہودی اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کررہے ہیں جبکہ بہت سے یہودی ایسے بھی ہیں جو یہودیت سے بے زار ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں پاکستان کی طرز پر سیکولر اور مذہبی عدالتی نظام موجود ہے۔ اب ذکر اُن مسلمانوں کا جنہوں نے اسرائیل میں رہتے ہوئے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
شیخ رائد صلاح: اسرائیل کے شہر اُم الفحم کے تین مرتبہ میئر منتخب ہوچکے ہیں۔ آپ اسرائیل میں اسلامی تحریک کی شمالی شاخ کے رہنما بھی ہیں۔ حماس کی مالی مدد کرنے پر آپ کو مجرم قرار دیا گیا۔
نواف مصالحۃ: 1992ء میں اسرائیلی وزیرِاعظم اسحاق رابن نے انہیں نائب وزیرِ صحت مقرر کیا۔ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہیں اسرائیلی حکومت میں وزارتی منصب پر فائز کیا گیا۔
غالب مجادلۃ :28 جنوری 2007ء کو اسرائیل کے پہلے مسلمان وزیر مقرر ہوئے، تاہم آپ کے پاس کسی قسم کی وزارت کا قلمدان نہیں تھا، آپ اعزاری وزیر مقرر ہوئے۔
علی یحییٰ: 1999ء میں ریاست اسرائیل کی جانب سے فِن لینڈ میں متعین کیے جانے والے پہلے مسلمان سفیر ہیں۔2006 ء میں آپ کو یونان کا سفیر مقررکیا گیا۔
ڈاکٹر حماد خلیلی: 1981 ء تا 1984ء اسرائیل کی پارلیمنٹKnesset کے رکن رہے۔13 مئی 2014 ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
ابراھیم صرصور: آپ اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن اور یونائیٹڈ عرب لسٹ کے رہنما ہیں۔
احمد الطیبی: 1999ء سے تاحال آپ اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ آپ الحرکۃالعربیۃالتغییرکے رہنما ہیں۔ آپ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر غازی فلاح: آپ جغرافیہ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ سماجیات، سیاسیات اور جغرافیہ کے ماہر ہیں۔ تل ابیب یونیورسٹی اور جامعہ النجَاح الوطنیۃ نابلس فلسطین میں مختصر مدت کے لیے جغرافیہ پڑھا چکے ہیں۔
عباس صوان: اسرائیل میں فٹبال کا مشہور اور مقبول مسلم کھلاڑی ہے۔ 2006ء میں ورلڈ کپ فٹ بال کے کوالیفائنگ میچ میں آئرلینڈ کے خلاف گول کرکے اسرائیل کا قومی ہیرو بن گیا۔
1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ ’’اسرائیل تمام باشندوں کے لیے مذہب، نسل یا جنس سے قطع نظر کرتے ہوئے مکمل مساوات کے ساتھ ان کے سماجی اور سیاسی حقوق کو یقینی بنائے گا۔ انھیں اپنے دین، ضمیر، زبان، تعلیم اورثقافت کی آزادی کی ضمانت دے گا۔ ان کے تمام مقدس مقامات کی حفاظت کرے گا۔‘‘
پاکستانی عوام و حکومت کی قبلۂ اول سے محبت و عقیدت، مسئلہ فلسطین سے گہری دلچسپی اور وابستگی اور اہلِ فلسطین سے ہمدردی و تعاون عالمی منظرنامہ پر ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اس ضمن یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ پاکستان کے صوفی بزرگ بابا فریدؒ گنجِ شکر چارسوسال پہلے زیارت کے لیے بیت المقدس (یروشلم) تشریف لائے تھے۔ اُس وقت فلسطین میں عثمانی ترکوں کی حکومت تھی۔ ترک گورنر نے بابافرید ؒ کو مسجدِ اقصیٰ کے نزدیک واقع دوکمرے دے دیئے۔ بعدازاں ہندوستانی نوابوں کے تعاون سے کچھ اور عمارتیں بھی یہاں بنائی گئیں۔ آج مسجدِ اقصیٰ کے قریب ڈیڑھ ایکڑ کے رقبہ میں ایک مسجد اور مرکز قائم ہے۔
اس کا نام’’ زاویۃالفریدیہ‘‘ ہے۔ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ 1922ء میں برطانوی حکومت نے سہارنپور کے خواجہ نذیر حسن انصاری کو یہاں ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھیجا تھا۔1953 ء میں انصاری صاحب کی وفات ہوگئی۔ اِس وقت ان کے پوتے نذرحسن انجینئر اس وقف کے ٹرسٹی ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اس ٹرسٹ کو سالانہ 6 ہزار روپے کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
تاریخ کاسبق یہ ہے کہ محرم الحرام 656 ھ بمطابق1257 ء میں مشرق سے اٹھنے والاتاتاری سیلاب ہلاکو خاں کی سرکردگی میں جب بغداد پہنچا تواس نے شہرِ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور آخری عباسی خلیفہ مستعصم کوقالینوں میں لپٹاکر مروادیا۔اس طرح عالمِ اسلام میں بغداد کی مرکزیت کاہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔اس نازک موقع پر ربِ کریم کی خصوصی رحمت اورنصرت کی وجہ سے تاتاریوں میں اسلام پھیل گیااوروہ اسلام لے آئے۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اپنے شعر میں اسی تاریخی نصرتِ خداوندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاہے کہ:
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں ملے گئے کعبے کو صنم خانے سے
21ویں صدی اسلام کی صدی ہے۔رب کی رحمت بہت وسیع ہے، کچھ بعید نہیں کہ اسرائیل میں اسلام غالب آجائے۔