علامہ شبلی نعمانی ؒ

199

(26 ذوالحجہ 23 ہجری ۔۔۔ 644 عیسوی)
(کل مدتِ خلافت دس برس چھ مہینے چار دن)
مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا جس کی کنیت ابو لولو تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آکر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے، آپ کم کرا دیجیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا: ’’روزانہ دو درہم (قریباً سات آنے)‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ’’تُو کون سا پیشہ کرتا ہے؟‘‘ بولا: ’’نجاری نقاشی، آہن گری‘‘۔ فرمایا: ’’ان صنعتوں کے مقابلے میں رقم بہت زیادہ نہیں ہے‘‘۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہوکر چلا گیا۔
دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کی نماز کو نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں درست ہوجاتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لاتے تھے اور امامت کراتے تھے۔ اس دن بھی حسبِ معمول صفیں درست ہوچکیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت کے لیے بڑھے۔۔۔ اور جوں ہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتاً گھات میں سے نکل کر چھے وار کیے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کردیا اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بالآخر پکڑا گیا، اور ساتھ ہی اس نے خودکشی کرلی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگ گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ’’میرا قاتل کون تھا؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ ’’فیروز‘‘۔ فرمایا ’’الحمدللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو‘‘۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں، غالباً شفا ہوجائے۔ چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا اور دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ اُس وقت لوگوں کو یقین ہوگیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہوسکتے۔
چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ ’’اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کرجائیے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ اپنے فرزند کو بلا کر کہا کہ ’’عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ عبداللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے، وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ’’اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، لیکن آج میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔‘‘ عبداللہ واپس آئے۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’کیا خبر لائے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جو آپ چاہتے تھے‘‘۔ فرمایا ’’یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔‘‘
اُس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے معاملے پر مدتوں غور کیا تھا اور اکثر سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطاں و پیچاں ہیں۔
مدت کے غور وفکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جمتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بیساختہ آہ نکل گئی کہ ’’افسوس بارِ گراں کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا‘‘۔ تمام صحابہ میں اس وقت چھے اشخاص تھے جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی: علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بند ابی وقاص، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور بزرگوں کی نسبت جو خوردہ کیریاں کیں، ہم نے ان کو ادب سے نہیں لکھا، البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق جو نکتہ چینی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی عام تاریخوں میں منقول ہے، یعنی یہ کہ ان کے مزاج میں ظرافت ہے۔ یہ ایک خیال ہی خیال معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظریف تھے مگر اسی قدر جتنا لطیف المزاج بزرگ ہوسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعلقات قریش کے ساتھ کچھ ایسے پیچ در پیچ تھے کہ قریش کسی طرح ان کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ علامہ طبری نے اس معاملے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیالات مکالمہ کی صورت میں نقل کیے ہیں۔ ہم ان کو اس موقع پر اس لیے درج کررہے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیالات کا راز سربستہ معلوم ہوجائے گا۔ مکالمہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا، جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم قبیلہ اور طرفدار تھے۔
حضرت عمرؓ: کیوں عبداللہ بن عباسؓ! علیؓ ہمارے ساتھ کیوں نہیں شریک ہوئے؟
عبداللہ بن عباسؓ: میں نہیں جانتا۔
حضرت عمرؓ: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ہو۔ پھر تمہاری قوم تمہاری طرفدار کیوں نہیں ہوئی؟
عبد اللہ بن عباسؓ: میں نہیں جانتا۔
حضرت عمرؓ: لیکن میں جانتا ہوں، تمہاری قوم تمہارا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی۔
عبداللہ بن عباسؓ: کیوں؟
حضرت عمرؓ: وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت دونوں آجائیں۔ شاید تم یہ کہو گے کہ حضرت ابوبکرؓ نے تم کو خلافت سے محروم کردیا۔ لیکن خدا کی قسم یہ بات نہیں۔ ابوبکرؓ نے وہ کیا جس سے زیادہ مناسب کوئی بات نہیں ہوسکتی تھی۔ اگر وہ تم کو خلافت دینا بھی چاہتے تو ان کا ایسا کرنا تمہارے حق میں کچھ مفید نہ ہوتا۔
دوسرا مکالمہ اس سے زیادہ مفید ہے۔ کچھ باتیں تو وہی ہیں جو پہلے مکالمہ میں گزریں، کچھ نئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں:
حضرت عمرؓ: کیوں عبداللہ بن عباسؓ، تمہاری نسبت میں بعض باتیں سنا کرتا تھا، لیکن میں نے اس خیال سے اس کی تحقیق نہیں کی کہ تمہاری عزت میری آنکھوں میں کم نہ ہوجائے۔
عبداللہ بن عباسؓ: وہ کیا باتیں ہیں؟
حضرت عمرؓ: میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ لوگوں نے ہمارے خاندان سے خلافت حسداً ظلماً چھین لی۔
عبداللہ بن عباسؓ: ظلماً کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا، کیونکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ لیکن حسداً میں تعجب کیا ہے! ابلیس نے آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم ہی کی اولاد ہیں۔ پھر محسود ہوں تو کیا تعجب ہے؟
حضرت عمرؓ: افسوس، خاندانِ بنی ہاشم کے دلوں سے پرانے رنج اور کینے نہ جائیں گے۔
عبداللہ بن عباسؓ: ایسی بات نہ کہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہاشمی ہی تھے۔
حضرت عمرؓ: اس تذکرے کو جانے دو۔
عبداللہ بن عباسؓ: بہت مناسب۔
(دیکھو تاریخ طبری 8 تا 2771)
ان مکالمات سے علاوہ اصل واقعہ کے تم اس بات کا بھی اندازہ کرسکو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں لوگ کس دلیری اور بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اور یہ زیادہ تر اسی وجہ سے تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود آزادی اور حق گوئی کو قوم میں پھیلانا چاہتے تھے اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کردیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں ان کے ریمارکس بہ تفصیل مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت قطعی فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔ (طبری 7)
غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ ’’ان چھے اشخاص میں جس کی نسبت کثرتِ رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قوم اور ملک کی بہبودی کا جو خیال تھا اُس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت اور حواس نے یاوری کی، اسی دھن میں مصروف رہے۔ لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے: مہاجرین، انصار، اعراب و اہل عرب جو اور شہروں میں جاکر آباد ہوگئے ہیں، اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلام کی رعایا تھے)۔ ’’پھر ہر ایک کے حقوق کی تصریح کی، چنانچہ اہلِ ذمہ کے حق میں جو الفاظ کہے وہ یہ تھے: ’’میں خلیفۂ وقت کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ خدا کی ذمہ داری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری کا لحاظ رکھے۔ یعنی اہلِ ذمہ سے جو اقرار ہے وہ پورا کیا جائے۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ ‘‘
قوم کے کام سے فراغت ہوچکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبداللہ اپنے بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے؟ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم۔ فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہوسکے تو بہتر، ورنہ خاندانِ عدی سے درخواست کرنا، اور اگر وہ بھی پورا نہ کرسکیں توکُل قریش سے۔ لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ لیکن عمر بن شیبہ نے کتاب المدینہ میں بہ سندِ صحیح روایت کیا ہے کہ نافع جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے ، کہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا! حالانکہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصۂ وراثت کو ایک لاکھ میں بیچا تھا۔ (دیکھو فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7)
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چھیاسی ہزار کا قرض ضرور تھا لیکن وہ اس طرح ادا کیا گیا کہ ان کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا جس کو امیر معاویہؓ نے خریدا۔ یہ مکان باب السلام اور باب رحمت کے بیچ میں واقع تھا۔ اور اس مناسبت سے کہ اس سے قرض ادا کیا گیا، ایک مدت تک دارالقضا کے نام سے مشہور رہا۔ چنانچہ ’’خلاصۃ الوفانی اخبار دارالمصطفیٰ’’ میں یہ واقعہ بہ تفصیل مذکور ہے۔ (دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ مصر 150 129)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین دن کے بعد انتقال کیا۔ اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔ حضرت علی، حضرت عثمان، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قبر میں اتارا اور وہ آفتابِ عالم تاب خاک میں چھپ گیا۔
***