ڈاکٹر احمد نثار

240

یاز مندانِ کراچی ایک معروف ادبی تنظیم ہے جو کہ ادبی حلقوں میں اپنی شناخت رکھتی ہے۔ یہ بہت پرانی تنظیم ہے اس تنظیم کے زیر اہتمام کراچی جیم خانہ میں ’’جشنِ فیض‘‘ منعقد ہوا تھا‘ آرٹس کونسل کراچی میں جشن آفاق صدیقی اور رئیس امروہوی کی زیر صدارت جشن راغب مرادآبادی بھی اسی تنظیم پلیٹ فارم سے منعقد ہوا تھا اس کے علاوہ بھی اس ادارے نے بے شمار پروگرام ترتیب دیے تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ تنظیم پچھلے کئی برسوں سے غیر فعال ہوگئی تھی اب فراست رضوی اور رونق حیات نے اس ادارے کو متحرک کیا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے اس کی ماہانہ تقاریب کا سلسلہ جاری ہے اسی تناظر میں 30 ستمبر 2016ء کو کراچی پریس کلب کے اشتراک سے نیاز مندانِ کراچی نے ممتاز شاعر‘ نقاد‘ محقق اور عروض داں حکیم انجم فوقی (مرحوم) کے لیے ادبی سیمینار و مشاعرے کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق تقریب کے صدر تھے۔ ڈاکٹر احمر رفاعی مہمان خصوصی‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمانِ توقیری تھے جب کہ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت طاہر سلطانی نے حاصل کی اور نعت رسولؐ کی سعادت ابرابر حسین نے حاصل کی۔ ناظم تقریب سلمان صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ کراچی پریس کلب ادبی پروگراموں کے حوالے سے بھی ایک معتبر نام ہے یہاں روزانہ کوئی نہ کوئی ادبی پروگرام منعقد ہوتا ہے اس ادارے کے صدر و سیکرٹری اپنے اپنے شعبوں میں بہت اہمیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ قلم کاروں کے مسائل کے لیے بھی مصروف ہیں۔ نیاز مندان کراچی کے جنرل سیکرٹری رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا انہوں نے اپنے ادارے کے تمام عہدیداران و اراکین کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ہمارا منشور یہ ہے کہ ہم ’’نظرانداز‘‘ کیے جانے والے شعراء و شاعرات کی حوصلہ افزائی کریں ان کے لیے خصوصی پروگرام ترتیب دیں۔ ہم ان اہم شعراء کی یاد منائیں کہ جنہوں نے اردو ادب کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں اس موقع پر رونق حیات نے ایک قرارداد پیش کی کہ آج اس ادبی ایوان میں موجود ہر شخص مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی پرزور مذمت کرتا ہے اور ہم اقوام عالم سے درخواست کرتے ہیں کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔ تمام لوگوں نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو سرکاری ادارے ادیبوں اور شاعروں کے مسائل کے حل کے لیے بنائے گئے تھے وہ سیاست کی نذر ہوگئے ہیں‘ ہم اپنے ادارے کے پلیٹ فارم سے مظلوم شعراء و شاعرات کی دادرسی کے لیے کمربستہ ہیں۰ نیاز مندانِ کراچی کے صدر فراست رضوی نے کلماتِ تشکر پیش کرتے ہوئے کہ اکہ ایک زمانے میں ادبی لحاظ سے لانڈھی‘ کورنگی بہت زرخیز علاقہ تھا اس علاقے سے کئی اہم لکھاری ابھرے اور اردو ادب پر چھا گئے ان اہم اور معتبر شخصیات میں حکیم فوقی بدایونی بھی شامل تھے جو کہ بیک وقت شاعر‘ صحافی‘ صوفی‘ نقاد‘ محقق اور عروض دان تھے۔ اردو ادب کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
’’اذان و فکر و ادب‘ بوند بوند بوچھار‘‘ کے مؤلف آصف انصاری نے کہا کہ مولانا انجم فوقی ایک قادرالکلام شاعر اور صاحبِ بصیرت ادیب تھے ان کی زندگی کی ہر جہت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ عائشہ رعنا بنتِ حکیم انجم فوقی نے کہا کہ مجھے اپنے والد کے ادبی و علمی کارناموں پر فخر ہے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو میرے والد کو یاد رکھتے ہیں اور ان کے ادبی ریفرنس منعقد کرتے ہیں۔ ریحانہ احسان نے حکیم فوقی انجم بدایونی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ظفر محمد خاں نے کہا کہ حکیم انجم فوقی نے نثر و نظم دونوں میدانوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی نثر پڑھیے یا نظم یوں محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ کا ایک آبشار نغمہ زن ہے۔ انہوں نے زندگی کے مختلف گوشوں پر قلم اٹھایا ہے اور ان کر ہر اندازِ فکر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ ان کے فکر و فن کے چراغ ہمارے لیے راہ نما ہیں۔ صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور مہمان توقیری نے حکیم انجم فوقی کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی ان مقررین کی تقاریر کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا انجم فوقی کی تصانیف میں آتشِ غم‘ رازِ کہکشاں‘ سلک پرویں‘ اجالے‘ وژن فکر و فن‘ مہر و ماہ‘ ایقاظ و رائے سخن شامل ہیں جب کہ حکیم انجم فوقی پر لکھی گئیں کتابوں میں ’’جواز‘‘ اور ’’انکشاف‘‘ کے علاوہ ’’آئینہ در آئینہ‘‘ شامل ہیں اس کے علاوہ حکیم انجم فوقی پر فرازنہ خان نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور 11 نومِبر 1992ء کو ناگپور یونیورسٹی (بھارت) سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ مولانا انجم فوقی کی نثری تخلیقات اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں جس میں ان کے مکتوبات کے چار مجموعے شامل ہیں جن کے نام ہیں مخاطبات‘ ملاخطاب‘ مکاشفات اور معاملات۔ اس کے علاوہ دو ڈرامے کیمیا اور سنگم بھی ان کی تحریروں میں شامل ہیں۔ علم عروض کے حوالے سے حکیم انجم فوقی نے عروضی اصطلاحات‘ اصول تقطیع‘ اصطلاحاتِ علم ہّجَا‘ اصطلاحاتِ علم معانی اصطلاحات علم صرف‘ اصطلاحاتِ علم نحو‘ اصطلاحاتِ علم بدی‘ علم بیان و قافیہ‘ فنِ تنقید اور خواص الحروف کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ حکیم انجم فوقی تاریخ کی تابند شخصیات میں شامل ہیں ان کی ادبی خدمات اور فکر و فن پر صاحبان عقل و دانش نے بہت کچھ لکھا ہے جس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم انجم فوقی جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ تقریب میں جن شعرا نے شرکت کی اور اشعار سنائے ان میں ڈاکٹر اکرم الحق شوق‘ ڈاکٹر احمر رفاعی‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ ظفر محمد خاں ظفر‘ سعدیہ حریم‘ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ ریحانہ روحی‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ عادل فریدی‘ محمد علی گوہر‘ رشید خان‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ شوکت علی جوہر‘ نزہت عباسی‘ سعد الدین سعد‘ کشور عدیل جعفری‘ احمد خیال‘ عبدالصمد تاجی‘ الحاج نجمی‘ علی کوثر ریحانہ احسان‘ عاشق شوکی اور دیگر شامل ہیں۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار نے کہا کہ ہماری ادبی کمیٹی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں ہر ممکن تعاون کریں جو بھی ادبی تنظیم یا ادارہ کراچی پریس کلب میں پروگرام کرنا چاہے‘ ہم حاضر ہیں۔ انہوں نے حکیم انجم فوقی کے بارے میں کہا کہ وہ ایک بالغۂ روزگار شخصیت تھے ان کے کلام اور نثری تحریریں ہمارے لیے روشن کا مینارہ ہیں۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن پر بہت کچھ لکھا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس موقع پر آصف انصاری نے مہمانوں کی خدمت میں اپنی تالیف کردہ کتاب پیش کی۔ نیاز مندانِ کراچی کی جانب سے مہمانوں کو پھولوں کے تحائف پیش کیے گئے۔
۔۔۔*۔۔۔
حلقۂ آہنگ کے زیر اہتمام شفیق احمد شفیق کے نعتیہ مجموعے ’’مدحتِ خیر الواریٰ‘‘ اور تنقیدی و تجزیاتی مضامین پر مشتمل کتاب ’’چند ہم عصر ترقی پسند افسانہ نگار‘‘ اور اجمل اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ’’زرافہ اور لمبی لڑکی‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ فہیم الاسلام انصاری تقریب کے صدر تھے جب کہ حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر شہناز پروین نے مدحت خیرالوریٰ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شفیق احمد شفیق ایک سینئر شاعر ہونے کے ساتھ نثر نگار بھی ہیں۔ ان کے نعتیہ مجموعے میں نعت کے تمام مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔ شمائلِ رسولؐ اور سیرتِ رسولؐ کے حوالے سے بہت عمدہ اشعار کہے گئے ہیں۔ رازق عزیز نے کہا کہ شفیق احمد شفیق جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں ان کی نعتیہ شاعری میں لفظوں کا دروبست قابل تحسین ہیں یہ ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ انہوں نے اپنی نعت گوئی میں مراتبِ رسولؐ سے تجاوز نہیں کیا۔ ان کی نثر کی کتاب اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے اس سے طالبانِ علم و فن فیض یاب ہوں گے۔ نجیب عمر نے کہا کہ شفیق احمد بہت عمدہ نعت گو ہیں انہوں نے اپنے نعتیہ اشعار میں غلو سے کام نہیں لیا کیونکہ یہ نعتیہ کلام کی نزاکتوں سے واقف ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’چند ہم عصری تقری پسند افسانہ نگار‘‘ میں بارہ نامور افسانہ نگاروں کے شاہکار افسانوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ان کی یہ کاوش قابل مبارک باد ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل درست ہے۔ انہوں نے ہر افسانہ نگار کے ساتھ انصاف کیا ہے جس کی جو حیثیت ہے اس سے تجاویز نہیں کیا اور نہ ہی اس کا گراف کم کیا ہے۔ نجیب عمر نے مزید کہا کہ شفیق احمد شفیق کثیر المطالعہ شخصیت ہیں‘ لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ان کے کاٹ دار جملے قارئین کے دل میں اتر جاتے ہیں یہ معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل چھیڑتے ہیں اور ان کا حل بھی بتاتے ہیں گویا یہ اصلاح معاشرہ کی طرف راغب ہیں۔ اجمل اعجاز کے افسانوں کے مجموعے پر محترمہ نسیم انجم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹائیٹل اسٹوری ’’زرافہ اور لمبی لڑکی‘‘ کے علاوہ کتاب میں شامل دیگر افسانے فنی اور فکری اعتبار سے قابل تحسین ہیں۔ اجمل اعجاز نے بچوں کے ادب سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا لیکن آج وہ افسانہ نگاری میں نام کما رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’زرافہ اور لمبی لڑکی‘‘ میں عہد حاضر کے مسائل اجاگر کیے ہیں۔ شفیق احمد شفیق نے کہا کہ اجمل اعجاز کے افسانے تخلیقی اعتبار سے بہت جان دار ہوتے ہیں ان کے کرداروں کے مکالمات بہت اچھے ہوتے ہیں۔ صاحب صدر فہیم اسلام انصاری نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا کہ انہوں نے شفیق احمد شفیق کی نعتیہ شاعری کا مطالعہ کیا ہے اس کتاب میں شامل نعتوں سے حبِ رسولؐ نمایاں ہے انہوں نے سیرتِ رسولؐ کو اپنی شاعرعی کا محور بنایا ہے ان کی کتاب چند ہم عصر ترقی پسند افسانہ نگار ایک اچھی کاوش ہے جب کہ اجمل اعجاز کے افسانوں کی کتاب میں شامل تمام افسانہ نگاروں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ یہ ایک کامیاب اقدام ہے اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے اچھا ادب تخلیق ہوتا ہے اور جو تنظیمیں ادیبوں اور شاعروں کے لیے تقاریب منعقد کرتی ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں۔ تقریب میں شفیق احمد شفیق‘ احمد سعید فیض آبادی‘ نجیب عمر‘ حامد علی سید‘ رازق عزیز‘ سعد الدین سعد اور فرید شہزاد نے اپنا کلام نذرِسامعین کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
بزم سائبان اور بزمِ ظرافت کی معاونت سے آرٹس کونسل پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام عید ملن مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ پروفیسر عنایت علی خان مہمان خصوصی تھے۔ صغیر احمد جعفری‘ صبیحہ صبا‘ عقیل عباسی جعفری اور راشد نور مہمانان اعزازی تھے جب کہ ہدایت ساحر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نوجوان نسل کا شاعری کی طرف راغب ہونا ایک اچھا شگون ہے آج کل کئی نوجوان شعراء بہت اچھا کہہ رہے ہیں۔ ان کی شاعری آج کی دور کی عکاس ہے۔ ان کے یہاں گل و بلبل کے قصے نہیں ہیں بلکہ زمینی حقائق کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اسی طرح اردو ادب کے شعبۂ شاعری میں بھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ نوجوان نسل قلم کاروں کی آمد سے شاعری کا خلاء پُر ہورہا ہے ا سکا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ارد ادب روبہ زوال نہیں ہے۔ بزم ظرافت کے روح رواں عارف مصطفی نے اس موقع پر کہا کہ مشاعرے اور دیگر ادبی سرگرمیاں کراچی کی رونیں بحال کرنے میں حصہ دار ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کا دمِ غنیمت ہے کہ وہ اس پُر آشوب دور میں ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ لائبریری کمیٹی کے چیئرمین سہیل احمد نے کلماتِ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم کراچی آرٹس کونسل کے تحت علم وادب کے چراغ روشن کر رہے ہیں تاکہ معاشرے سے تیرگی کا خاتمہ ہوسکے ہم اکثر و بیشتر محافظ شعر و سخن سجاتے رہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ہر طبقۂ فکر کے شعرا کا کلام سنیں۔ شاعروں اور ادیبوں کے مسائل حل کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہیں۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانانِ اعزازی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ جن نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں غلام علی وفا‘ محسن سلیم‘ وقار زیدی‘ شبیر نازش‘ علی کوثر‘ حمیدہ کشش‘ علی کونین‘ سحر حسن‘ عاشق شوکی‘ علی بابا اور دیگر شامل تھے۔ مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔
۔۔۔*۔۔۔
یکم اکتوبر 2016 بمقام سیدہ چیمبر گلشن اقبال میں تہذیب سوشل اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کا دھنک مشاعرہ منعقد ہوا۔ یہ مشاعرہ کروما اسٹوڈیو کی افتتاحی تقریب تھی جس میں کراچی کی اہم شخصیات شامل تھیں اس پروگرام کو آرگنائز کرنے والوں میں سید امین اللہ حسینی اور منصور ساحر کا اہم کردار ہے۔ انٹرنیشنل کنسلٹینٹ ایس ایم کاظمی نے صدارت کی جب کہ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں عارف شفیق‘ راشد نور‘ تبسم صدیقی‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ حمیرہ راحت اور ریحانہ احسان نے تین تین غزلیں نذرِ سامعین کیں جب کہ عارف شفیق نے سامعین کی درخواست پر کئی غزلیں سنائیں اور خوب داد سمیٹی۔ مشاعرے میں سامعین کی قابل ذکر تعداد موجود تھی اور ہر اچھے شعر پر خوب داد مل رہی تھی۔ میرے نزدیک ہر شاعر نے خوب داد حاصل کی اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر ایک نے اپنا منتخب کلام سنایا اور باذوق سامعین نے داد و تحسین سے نوازا۔ راشد نور نے بہت اچھی نظامت کی اور اپنے خوب صورت جملوں سے محفل کو گرمائے رکھا انہوں نے کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج بہت اچھی شاعری پیش کی گئی۔ انہوں نے دھنک مشاعرے کی کامیابی پر منتظمینِ مشاعرہ کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہماری روایات کا حصہ ہیں‘ مشاعروں کا انعقاد قابل تحسین اقدام ہے۔ اردو ادب کے فروغ میں اس قسم کی محافل بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کراچی میں اس وقت ادبی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ محترم عامر مسعود شیخ سی او میٹرو ون نیوز نے ’’سرخ فیتہ‘‘ کاٹ کر تقریب کا آغاز کیا۔ پروگرام میں وحید جنگ‘ صہیب سالک‘ مرزا آصف اعجاز‘ طلحہ انور‘ سید قیصر جمال‘ آصف قادری‘ علیشاء حسین‘ شازیہ ناصر‘ علینہ چوہدری‘ مباح خان‘ جیا شیخ‘ سائرہ خان‘ احمد فراز‘ صائمہ نفیس‘ الماس جیلانی‘ خالد مبین‘ ثوبیہ اسلام‘ فرحین اسلم خان‘ راجا عارف‘ عبدالرحمن‘ ذیشان الٰہی‘ ریحان مغل‘ علی عرفان‘ عبداللہخان‘ سیف اللہ خان اور دیگر نے شرکت کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ منصور ساحر بھی اس مشاعرے میں شامل تھے لیکن انہوں نے اپنے اشعار سنانے کے بجائے سامعین میں بیٹھ کر خوب داد دی یہ ان کے بڑے پن کی دلیل ہے۔ منصور ساحر ادبی تقریبات کے انعقاد کے حوالے سے ایک اہم کارکن ہیں وہ اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
ممتاز شاعر و نقاد پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ شکور پٹھان ایک معتبر قلم کار ہیں انہوں نے اپنے اسلاف کے بارے میں کتاب لکھ کر قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اپنے اکابرین کو یاد رکھنا ہماری تہذیب و تمدن کا حصہ ہے‘ یہ زندہ روایت جاری رہنی چاہیے۔ ان خیالات کاا ظہار انہوں نے سوشل اسٹوڈنٹس فورم‘ لائبریری کمیٹی آرٹس کونسل آف پاکستان‘ کراچی اور سخن پارے کے اشتراک سے منعقدہ معروف قلم کار شکور پٹھان کی کتاب ’’مرے شہر والے‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شکور پٹھان نے اپنے شہر کے اہم لوگوں کو اپنی کتاب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے یہ کتاب اردو ادب میں ایک قابل فخر اضافہ ہے اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے اہم دستاویز بھی۔ تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر عنایت علی خان نے کہا کہ کسی کے بارے میں کتاب لکھنا ایک مشکل کام ہے لیکن شکور پٹھان نے مختلف شخصیات پر کتاب لکھی ہے بلاشبہ یہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب کے مصنف شکور پٹھان نے کہا کہ میں نے ابتداء میں فیس بک پر لکھنے کا آغاز کیا تھا جس کی بہت پذیرائی ہوئی اس طرح مجھے حوصلہ ملا اور میں نے یہ کتاب تحریر کی اس کتاب کے سلسلے میں میرے دوستوں کی معاونت شامل ہے۔ نفیس احمد نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادب کی خدمت دراصل معاشرے کی خدمت ہے‘ ہم کراچی میں ادبی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تقریب کی نظامت سلیم فاروقی نے کی جب کہ دیگر مقررین میں عقیل عباسی جعفری‘ تحسین عبداللہ‘ عارف مصطفی‘ معراج جامی‘ سہیل احمد اور وقار زیدی شامل تھے۔
nn