سید اقبال چشتی

132
13146ابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اراکین اسمبلی کے جعلی ڈگری اسکینڈل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا جعلی‘‘۔ یہ بات مذاق میں کہی گئی تھی یا سنجیدگی سے، اس سے قطع نظر پاکستان میں اب تک جعلی ڈگریوں کے کاروبار کے خلاف کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اہل فرد، جو محنت سے تعلیم حاصل کرتا ہے اور اسے یہ اُمید ہوتی ہے کہ ایک اچھی نوکری اس ڈگری کی بنیاد پر حاصل کرلے گا، اس پر اُس وقت کیا گزرتی ہوگی جب معلوم ہوتا ہوگا کہ حکومتی اداروں میں سفارش کلچر کی وجہ سے وہ نوکری جعلی ڈگری والے نے لے لی ہے۔ اس کے نقصانات پاکستان اور عوام بھگت رہے ہیں۔
جعلی ڈگریوں کے معا ملے میں پاکستان خاصا بدنام ہو چکا ہے‘ ہر سطح پر اس کی روک تھام کے لیے کیے جا نے والے اقدامات بے سود ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ با اثر افراد خود بھی جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملوث ہیں۔ اسمبلیوں سے لے کر کھیل کے شعبہ جات اور اعلیٰ تعلیم فراہم کر نے والے ادارے تک جعلی ڈگری کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ اخبار میں شائع ایک خبر کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے سیاسی بنیادوں پر سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کی تعلیمی اسناد کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ اس خبر سے اندازہ ہو تا ہے کہ کہاں کہاں میرٹ کا قتل عام کیا گیا ہے۔ جن لوگوں کی خود کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال ہو رہی ہو وہ دوسروں کی ڈگریوں کو کیونکر چیک کریں گے؟ پاکستان کا کون سا حصہ ہے جہاں جعلی ڈگریوں کا کاروبار نہیں ہورہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ہمت کر کے اسمبلی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’تعلیمی بورڈز میں مال بناؤ پالیسی جاری ہے اور ڈگریاں دولت کے بل بو تے پر حاصل کی جارہی ہیں۔‘‘ وزیر اعلیٰ سندھ نے تو اس بات کا اعتراف کر لیا ہے دیکھیں دیگر صو بے کب اعتراف کر تے ہیں اور اس مذموم کاروبار کے خلاف کیا کارروائی کر تے ہیں۔
گزشتہ دنوں خبر پڑھی کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے افسران کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ اس حوالے سے عدالت میں کیس زیر سماعت ہے اور عدالت نے اسپورٹس بورڈ کے تمام عہدیداروں کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا حکم دیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ان جعلی ڈگریوں کے حامل افراد نے پاکستان کو کھیل کے شعبے میں کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ رواں سال اولمپک گیمز میں پاکستان سے صرف سات کھلاڑیوں نے شرکت کی اور یہ ساتوں کھلاڑی اگلے مرحلے میں بھی نہ جا سکے اور پہلی بار پاکستان اولمپکس میں کوئی تمغا حاصل نہ کرسکا۔ اس کی ایک وجہ تو کھیلوں پر حکومتی توجہ کا نہ ہو نا تھا اور وجہ جعلی ڈگری کے حامل اسپورٹس کے عہدیداران تھے جن کی کارکردگی اور ڈگری دونوں ہی عوام کے سامنے آگئیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اولمپکس میں شرم ناک کارکردگی پر نوٹس لیا لیکن اب تک کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی کہ کس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اور اس شرمناک شکست اور کھیلوں کی تباہی کا ذمے دار کون ہے، جعلی ڈگری والے یا کھلاڑی، یا پھر کھیلوں کی وزارت؟ جعلی ڈگریوں کے اثرات کا اندازہ تو اسی وقت ہوگیا تھا جب پاکستان کا 7 رکنی دستہ اولمپکس کے لیے روانہ ہوا تھا۔ یقیناًیہ جعلی ڈگری والے سفارش یا پھر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ہوں گے اور ان عہدیداروں نے بھی، جن کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں، اُن کو منتخب کیا ہوگا، اور اس طرح قابلیت اور صلاحیت کا قتل عام کیا گیا ہوگا۔ کھیل کے شوقین مایوس ہوکر بیٹھ گئے ہوں گے کہ ہماری کون سنے گا۔ نااہل افراد کی بھرتیوں نے ایک شعبہ ہی تباہ کردیا اور پورے پاکستان سے صرف سات افراد بمشکل اولمپکس کے لیے تیار ہوسکے۔ ایسا ناممکن ہے، لیکن اگر میرٹ کو چھوڑ کر سفارش کو ترجیح دی جائے تو ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال مَیں اس واقعے سے دوں گا کہ ہمارے سابق آفس میں ٹیکسٹائل کی دو جدید مشینوں کی ٹریننگ لینے کے لیے4 ٹیچرزکو اٹلی جانا تھا‘ لیکن ڈائریکٹر صاحب نے ماہانہ ہونے والی میٹنگ میں بتایا کہ ہمارے انسٹی ٹیوٹ سے جن چار ناموں کو فائنل کیا گیا تھا ان کی جگہ کوئی اور جا رہا ہے۔ اس پر سوال اُٹھایا گیا کہ کیا وہ واپس آکر اسٹوڈنٹس کو پڑھائیں گے؟ تو کہا گیا وہ تفریح کرنے جارہے ہیں، گھوم پھر کر واپس آجائیں گے، ان کا ٹیچنگ سے کیا واسطہ۔ لیکن جب دباؤ ڈالا گیا تو چار میں سے ہمارے دو ٹیچر بھی اٹلی گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے عہدیداروں نے کیا کھیل کھیلا ہوگا۔
کھیل کے شعبے میں تو ہم پیچھے ہیں ہی لیکن تعلیم میں بھی پاکستان پیچھے ہی جارہا ہے۔ تعلیم کا معیار روز بہ روز گررہا ہے کیونکہ اب تعلیمی ادارے تعلیم دینے کے لیے نہیں‘ کاروبار کے لیے کھولے جاتے ہیں۔ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک ’’تعلیم برائے فروخت‘‘ ہوچکی ہے۔۔۔ تعلیم اب پیسے کا کھیل بن چکا ہے، اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو نکمے سے نکما بچہ بھی ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتا ہے۔ کسی معیار کے بغیر بعض تعلیمی ادارے چل رہے ہیں جن کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے اور ان تعلیمی اداروں میں سب سے اچھا طالب علم وہ ہوتا ہے جو وقت پر فیس دے۔ تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں بیچ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں کیونکہ انہیں ڈگریاں مل جاتی ہیں لیکن وہ صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پیسے والے اپنے بچوں کے لیے ڈگریاں خریدتے ہیں۔ اس طرح کے تعلیمی اداروں پر نظر رکھنے کی ذمے داری ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہے لیکن کیا کریں پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
تقریباً دس سال پرانی بات ہے، ہمارے ایک دوست جو ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، اب کینیڈا جا چکے ہیں، اپنی ایک میٹنگ کا قصہ سناتے ہیں کہ جب HEC کے کچھ افسران ان کی یونیورسٹی کو Recognized کر نے کے لیے تعلیمی سہولیات دیکھنے تشریف لائے تو پوری یونیورسٹی کا دورہ کرنے کے بعد اس وفد کے سربراہ نے جو بات کی وہ ناقابلِ یقین ہے۔ کہنے لگے ’’میرے بیٹے کی شادی ہے، میں اپنے بیٹے کو تحفے میں نئی ہنڈا سوک کار دینا چاہتا ہوں‘‘۔ اس بات کا مطلب سب نے یہی نکالا کہ یہ ان کی ڈیمانڈ ہے۔ بعد میں معلوم نہیں کیا ہوا، لیکن جو لوگ اس طرح اعلیٰ تعلیمی اداروں کو جو سہولیات کے بغیر چلتے ہوں، صرف اپنا مفاد پورا ہونے پر تعلیمی پروگرام چلانے کی اجازت دے دیتے ہوں، ان یونیورسٹیوں میں کیا ہوتا ہے بعد میں کوئی نہیں پوچھتا۔ پھر اشتہارات دیکھ کر نوجوان تو تعلیم کے حصول کے لیے ان اداروں میں آتے ہیں جہاں ہر طرح کی سہولیات دکھائی جاتی ہیں، جہاں کی فیکلٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ Phd دکھائی جاتی ہے، لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ جنھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہے وہ بھی چربہ سازی کی مدد سے۔ اس لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بڑھتی ہوئی شکایات کے پیش نظر پہلے مرحلے میں ملک کے اندر12 ہزار پی ایچ ڈی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ31 پی ایچ ڈی اور26 ایم فل پروگراموں کو مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے بند کردیا گیا، کیونکہ چربہ سازی اور معیار قائم نہ رکھنے کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور پاکستان کی کوئی یونیورسٹی عالمی رینکنگ میں پہلی100یونیورسٹی میں جگہ نہیں بنا پاتی۔ اس کی وجہ صرف ہمارا معیار تعلیم ہے، جب چیک اینڈ بیلنس کے معیار کو پس پشت ڈال کر اداروں کو چلانے والے خود ہی کرپشن میں ملوث ہوں تو ملک کیسے ترقی کرے گا؟ قانون بنانے والے خود کرپشن میں ملوث ہوں تو قانون پر عملدرآمد کون کرائے گا؟ پیسے کے بل بوتے پر اجازت دی جارہی ہے اور پیسے ہی کے بل بوتے پر ڈگری بیچنے کا کاروبار جاری ہے۔ یہ کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور تقریباً تمام ممالک کے لوگ پیسہ خرچ کرکے ڈگری حاصل کرنا چا ہتے ہیں۔
جب ایگزیکٹ ڈگری اسکینڈل سامنے آیا تو پتا چلا کہ ایگزیکٹ سے ڈگری حاصل کرنے والوں میں ایشیائی اور مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے بھی لوگ شامل تھے، لیکن یہ ادارہ پاکستان میں کام کررہا تھا اس لیے پاکستان کو بدنام کیا گیا، جبکہ وہ ادارے جو کسی معیار کے بغیر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دنیا میں پیسے لے کر بانٹتے ہیں ان پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ عامر لیاقت اور بابر اعوان نے جہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، HECکے بقول وہ ادارے پی ایچ ڈی کرانے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں اور ادارے غیر تسلیم شدہ اور غیر چارٹرڈ ادارے ہیں جو صرف لوگوں کو بے وقوف بناکر پیسہ کما رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جعلی اسناد کے حصول کے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آنے کے باوجود اس کاروبار میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔
جعلی ڈگری کا کاروبار ایک صنعت کا درجہ حاصل کرچکا ہے، اس کا پھیلاؤ کوئی مذاق نہیں ہے، یہ ایک آفت ہے، جس طرح کوئی قدرتی آفت تباہی کا باعث بنتی ہے بالکل اسی طرح جعلی ڈگریوں کا کاروبار معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ جعلی ڈگری کے حامل افراد میرٹ کا قتل عام کرتے ہیں اور جب یہ نااہل افراد سیاسی بنیادوں پر سفارش کے ذریعے یا پھر پیسے دے کر ملکی اداروں میں افسر بن کر آتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی خرچ کی گئی رقم واپس لینے کی فکر کرتے ہیں۔ اس طرح رشوت ختم ہونے کے بجائے مزید پھلتی پھولتی ہے۔
اپنے دوست کے ساتھ گاڑی کے کاغذات بنوانے کے سلسلے میں سوک سینٹر جانا ہوا تو معلوم ہوا یہاں کس قدر رشوت چلتی ہے۔ ہمارے دوست کو ایک افسر نے کہا کہ ’’باہر فروٹ چاٹ والا کھڑا ہے، آپ جاکر صرف دو پلیٹ فروٹ چاٹ لے آؤ، سمجھو آپ کا کام ہوگیا۔‘‘
ہمارے دوست نے کہا، چلو دو پلیٹ فروٹ چاٹ کسی کو کھلانے میں کیا حرج ہے، زیادہ سے زیادہ سو روپے خرچ ہوں گے۔ لیکن جب فروٹ چاٹ لے کر پیسے معلوم کیے تو چاٹ والا کہنے لگا ’’آپ کو فلاں صاحب نے بھیجا ہے تو آپ کے دو پلیٹ کے دس ہزار ہوگئے‘‘۔ یعنی رشوت کے بھی انداز بدل گئے ہیں۔ پیسے کے بل بوتے پر جو چاہے کام کرالو۔۔۔ رشوت، کرپشن، لوٹ مار، جعلی ڈگری کے حامل افسران اور اراکین اسمبلی معاشرے کی تباہی کا باعث تو بن سکتے ہیں، لیکن ان کرپٹ عناصر سے کسی بھی قسم کی اچھائی کی اُمید فضول ہے۔ جس طرح کسی رکن اسمبلی کی ڈگری جعلی ثابت ہوجاتی ہے تو وہ اپنی نشست سے محروم کردیا جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی تعلیمی ادارہ یا کوئی بھی جعلی تعلیمی اسناد کا کاروبار کرنے والا ثابت ہوجائے تو ہمیشہ کے لیے اس ادارے کو بلیک لسٹ کرکے بند کردیا جائے، اور اس فرد کو نوکری سے فارغ کیا جائے۔ جو رکن اسمبلی ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ اسمبلی کے ذریعے اس حوالے سے قانون سازی کرائیں تاکہ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے۔