ظہیر خان

177

ہندوستان کے شہر الہٰ آباد سے میرا تعلق ہے میں نے اپنی تعلیم اسی شہر سے مکمل کی۔ ’’جمنا کرشچین کالج‘‘ کا شمار الہٰ آباد کے بہترین کالجوں میں ہوتاتھا۔ میں نے انٹرمیڈیٹ یہیں سے پاس کیا۔ انٹر کا آخری سال تھا سن 1965 کا تھا کالج میں فنکشن تھا سارے طالب علم اور اساتذہ کالج ہال میں موجود تھے۔ اسٹیج پر پرنسپل صاحب (MR. ODEAN) اور ان کے برابر میں ایک صاحب سفید شیروانی میں ملبوس، خوبصورت چہرہ، چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے تشریف فرما تھے معلوم یہ ہوا کہ یہ صاحب مہمانِ خصوصی ہیں دھلی سے تشریف لائے ہیں اور اسی کالج کی پیداوار ہیں یعنی OLD STUDENT ہیں۔ دھلی میں کسی اچھے ادارے میں برسرِ روزگار ہیں۔ لیکن اصل مسکن الہٰ آباد ہی ہے۔ پروگرام ہوتے رہے اور بعد میں مائک پر اعلان ہوا کہ اب مہمانِ خصوصی اور اس کالج کے OLD STUDENT جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب آپ لوگوں سے خطاب فرمائیں گے۔ پہلے تو میں یہی سمجھا کہ کوئی شاعر وائر ہیں اسلیے کہ لباس سے تو یہی لگ رہا تھا۔ مگر جب فاروقی صاحب نے انگریزی زبان میں اپنی تقریر کا آغاز کیا اور ایسی دھواں دار تقریر کی کہ بس نہ پوچھیں سارے طالب علم ششدر رہ گئے ہال میں مکمل خاموشی شمس الرحمن فاروقی کا موضوع تھا انسان دنیا میں کس طرح ترقی کرتا ہے اور ترقی کرنے کے لیے اسے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ بقول مرزا غالب۔۔۔
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک
پروگرام ختم ہونے کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ فاروقی صاحب سے ملاقات کی جائے مگر ممکن نہ ہوسکا اس لیے کہ پرنسپل صاحب مسلسل ان کے ساتھ تھے اور ہم طالب علم ان سے بہت خوف کرتے تھے۔
انٹرپاس کرنے کے بعد انجینئرنگ کالج میں گیا تعلیم مکمل کی اور پاکستان آگیا۔ اکثر کسی اخبار یا رسالے میں جب کبھی شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام دیکھتا تھا تو بہت خوش ہوتا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ فاروقی صاحب کراچی تشریف لائے تھے اور واپس بھی چلے گئے۔ مجھے قلق ہوتا کہ میں ان سے نہ مل سکا۔ معروف افسانہ نگار علی حیدر ملک صاحب کی رہائش میرے گھر کے قریب ہوا کرتی تھی میں نے ان سے اصرار کیا کہ اب جب کبھی فاروقی صاحب کراچی آئیں تو مجھے ضرور بتا دیجیے گا۔ اور ایک دن ملک صاحب کا فون آیا کہ فاروقی صاحب بہت ہی مختصر دورے پر کراچی آرہے ہیں اور آج شام آرٹس کونسل میں خطاب فرمائیں گے۔ میں نے سارے کام چھوڑے اور آرٹس کونسل پہنچ گیا۔ فاروقی صاحب کا خطاب شروع ہوچکا تھا۔ اسٹیج پر وہی چہرہ جسے ہم نے آج سے 45 سال قبل الہٰ آباد میں دیکھا تھا جب آتش جوان تھا۔ میر تقی میرؔ کی شاعری پر تبصرہ فرما رہے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ کی تقریر صرف اور صرف میری تقی میرؔ کی شاعری کے ارد گرد گھومتی رہی ایسا لگتا تھا جیسے فاروقی صاحب فاروقی صاحب نہیں ہیں بلکہ میر تقی میرؔ کا انسائکلو پیڈیا ہیں۔ ہال سا معین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کچھ احباب ایسے بھی تھے جو کرسیوں سے محروم تھے مگر ادبی جذبے سے سر شار ہمہ تن گوش تھے۔
تقریر ختم ہونے کے بعد میں نے اسٹیج پر جا کر الہٰ آباد اور کرسچین کالج کا حوالہ دیا، بہت خوش ہوئے گلے لگا لیا یہ کہہ کر کہ ’’یار تم تو اپنے گراہیں ہو۔ اور سناؤ کراچی میں کیا کر رہے ہو‘‘ میں نے تفصیلاً اپنی مصروفیات بیان کی۔ خوش ہوتے رہے اور غور سے میری باتیں سنتے رہے۔ اپنی کتاب ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ تحفتاً مجھے دی اپنی دستخط کے ساتھ جو میرے لیے اعزاز ہے۔
موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کیوں نہ تھوڑی سی گفتگو اس ناول کے بارے میں بھی ہوجائے مگر اس سے قبل ناول نگار کے بارے میں بھی کچھ باتیں ہوجائیں تو بہتر ہے۔ حالانکہ میں اپنے آپ کو قطعی اس کا اہل نہیں سمجھتا۔ صورتِ حال حیرت انگیز ہے کہ جو احباب فاروقی صاحب کے مخالف ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فاروقی صاحب دورِ حاضر کے اُردو اہلِ قلم میں جینئس کی حیثیت رکھتے ہیں۔موقع کی مناسبت سے مجھے عالم تاب تشنہ کا ایک شعر یاد آگیا۔
ہم اپنے عشق کی اب اور کیا ضمانت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا
تحقیق، تنقید، تشریح، شاعری اور افسانہ نگاری کے بعد اب اس جینئس کا ادبی میدان میں ایک نیا کارنامہ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے۔ بظاہر یہ ناول ہے مگر اور ناولوں سے قدرِ مختلف اور پہلو دار اس کے تمام کرداروں کا تعلق تاریخ سے ضرور ہے۔ مگر فاروقی صاحب’’اظہارِ تشکّر‘‘ کے زیرِ عنوان فرماتے ہیں کہ ’’یہ تاریخی ناول نہیں ہے‘‘ مصنف کا خیال ہے کہ ’’اسے اٹھارویں انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی و ادبی سرو کاروں کا مرقّع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا‘‘۔
مندرجۂ بالا سطور پر علی حیدر ملک صاحب کا تبصرہ کیا خوب ہے ’’یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں اوّل یہ کہ مرقّع کوئی ادبی صنف نہیں ہے اور دوئم یہ کہ ہر ناول کسی نہ کسی تہذیب اور انسانی و تہذیبی سرو کاروں کو ہی پیش کرتا ہے یہ بات بہر حال طے ہے کہ ’کئی چاند تھے سرِآسماں‘ کا شمار ناول ہی کے زمرے میں ہوگا‘‘۔
آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم ناول اکہتر چھوٹے بڑے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے تاریخی ناول عموماً کسی ایسے اہم ترین واقع کی یاد دلاتے ہیں جن کی کوئی تاریخی حیثیت ہوتی ہے اور جو اُس عہد کے حکمران یا فوجی جرنیلوں کے کارناموں سے تعلق رکھتی ہے اور یہی لوگ اس ناول کے اصل کردار اور ہیرو ہوتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے اپنے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں اس روایت سے انحراف کیا ہے اور ان شخصیات کو بطور کردار پیش کیا ہے جو ثانوی درجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ناول میں کردار اچھے خاصے ہیں اصل کردار وزیر خانم کا ہے جو سارے ناول کی جان ہے۔ اگر آپ کو یہ ناول کہیں سے دستیاب ہوجائے تو ضرور پڑھیے گا مگر اس بات کا خیال رہے کہ ناول پڑھنے میں عجلت نہیں کرنی ہے، سکون سے پڑھنا ہے اب یہ کوئی جاسوسی ناول تو ہے نہیں جسے آپ ایک رات میں ختم کرلیں، اس کے لیے آپ کو اپنی کئی قیمتی راتیں قربان کرنی پڑے گی۔ تبھی تو وزیر خانم تک آپ کی رسائی ممکن ہوسکے گی۔
دورِ حاضر کے اُردو اہلِ قلم میں جینئس کی حیثیت رکھنے والے شمس الرحمن فاروقی کاتعلق اسی شہر سے ہے جو میری جائے پیدائش ہے اور اسی کالج سے ہے جہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ آخر اس جینئس سے میری کوئی نسبت تو ہے نا۔