عبدالرب احمد

220

ہم کوّوں کو اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ انسان ہمارے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ شاید اس لیے کہ ہمارا رنگ کالا ہے۔ لیکن نہ تو کالا رنگ برا ہوتا ہے اور نہ ظاہری رنگت سے کچھ فرق پڑتا ہے۔ اصل تو دل ہے جسے سیاہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے اصل وجہ ہمارا رنگ نہ ہو، کیونکہ ہم سے زیادہ کالا رنگ تو کوئل کا ہوتا ہے، اسے تو کوئی برا نہیں سمجھتا، بلکہ اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ شاید ہماری آواز انھیں پسند نہیں۔ لیکن گدھے سے زیادہ ناپسندیدہ آواز تو اور کسی کی نہیں ہوتی، اسے تو یہ سارا وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں، اسے بھی انھوں نے خوب گدھا بنا رکھا ہے۔ اصل میں گدھے سے انھیں صبح شام کام جو لینا ہوتا ہے تھوڑی سی گھاس کے بدلے۔ شاید ہم انھیں اس لیے پسند نہیں کہ ہم ان کی باتوں میں نہیں آتے بلکہ ان کی چالوں اور ہوشیاری کو خوب سمجھتے ہیں۔
ہمارے بارے میں مشہور کردیا گیا ہے کہ ہم کمزور اور معصوم پرندوں کے انڈے کھا جاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ بے شمار ٹرک انڈوں سے لدے ہوئے صبح و شام آتے جاتے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں انڈے روزانہ لوگ خود کھا جاتے ہیں۔ سیدھی سادی مرغیوں کو تو انھوں نے انڈے دینے والی مشین بناکر رکھ دیا ہے۔ اگر صحیح اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ہم نے جو انڈے اب تک کھائے ہیں وہ تو اس کا عشرِعشیر بھی نہیں ہیں جو یہ روزانہ کھا جاتے ہیں۔
ان لوگوں نے ہمارے نام پر کیسی کیسی کہاوتیں بنا رکھی ہیں۔ ذرا سنیں ’’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر کبھی کسی وقت تفریحاً چند قدم ہنس کی چال چل بھی لیں تو کچھ ہی دیر بعد اپنی اصل پر واپس آگئے۔ جبکہ ان لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ کون ایسا ہے جس کی چال چلنے میں یہ شرماتے ہوں! اپنی چال تو یہ ایسے بھولے ہیں کہ نہ تو انھیں سیدھا راستہ یاد ہے نہ منزل کا پتا معلوم۔ یہ کہاوت تو دراصل انھی پر صادق آتی ہے، ہمارا نام تو خوامخواہ بیچ میں ڈال دیا ہے۔ کہتے ہیں کوّوں کی کائیں کائیں سے ڈھول نہیں پھٹا کرتے۔ ارے بھئی کب کسی کوّے نے دعویٰ کیا کہ اس کی کائیں کائیں سے کوئی ڈھول پھٹ جائے گا؟ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوّوں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرتے۔ اور خود ایک دوسرے کو کوستے رہتے ہیں۔ انھیں ابھی تک نہیں معلوم کہ یہ کائیں کائیں تو ہم صرف اُس وقت کرتے ہیں جب کوئی ہنگامی اجلاس بلانا ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے ہمارے سیانے پن کو تسلیم کیا بھی تو اس کے لیے کہاوت ایسی بنائی کہ کوئی بھی سلیم الطبع شخص سنے تو اسے ناگوار ہی گزرے۔
اب ان کی توہم پرستی بھی ملاحظہ ہو۔ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی کوّا ان کے گھر کی دیوار پر بیٹھ کر بولے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گھر کوئی مہمان یا کوئی پیام آئے گا۔ ایک دن مَیں ایک گھر کی دیوار پر بیٹھ کر بولا اور خاصی دیر تک بولتا رہا۔ کسی نے کچھ نہ کہا بلکہ میں نے محسوس کیا کہ خاتونِ خانہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی بھی تھیں۔ اتفاق سے دوسرے دن میں پھر وہیں پہنچ گیا۔ ابھی جاکر بیٹھا ہی تھا کہ انھی محترمہ کی آواز آئی ’’بیٹی اسے جلدی سے اُڑا، کم بخت کل صبح آکر بولا تھا اور شام کو مالک مکان کرایہ مانگنے آگیا‘‘۔ لو بتاؤ، بھلا اس میں میرا کیا قصور؟ اس سے پہلے کہ لڑکی مجھے اُڑاتی، میں خود ہی وہاں سے اُڑ گیا۔
ہاں! ہمارے اندر ایک کمزوری ایسی ہے جسے بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہ کوئل کی بچی نہ معلوم کب اور کیسے ہمارے گھونسلوں میں انڈے دے جاتی ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ لوگ اُس کی اس حرکت کو بھی ہنس ہنس کر سنتے سناتے ہیں۔ اُس کی اس بدتمیزی پر نہ کوئی اُس کی مذمت کرتا ہے اور نہ کوئی اسے ملامت کرتا ہے۔ جب اسے غلط ہی نہیں سمجھتے تو پھر ملامت کیسی! کوئل کے انڈوں کو ہم اپنے انڈے سمجھ کر سہتے رہتے ہیں۔ جب انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں اور ہم کوئل کے بچوں کو اپنے ہی بچوں کی طرح پالتے اور کھلاتے ہیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بے وقوف بن گئے، حالانکہ غیر کے بچوں کی پرورش تو ہم صرف انسانی ہمدردی۔۔۔ غلط کہہ گیا، حیوانی ہمدردی کی بنیاد پر کررہے ہوتے ہیں۔
کیا پتا اگر ہمیں ناپسند کرنے کی وجہ یہ ہو کہ ہم ہر چیز کھا لیتے ہیں، ہم ان کا پھینکا ہوا رزق کچرے میں بھی سمیٹتے ہیں۔ یہ پھر بھی ہم سے ناراض رہتے ہیں۔ ایک دن ہمارے بارے میں ایک بزرگ کسی نوجوان کو بتا رہے تھے ’’یہ مُردار بھی کھا لیتا ہے‘‘۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ہم تو پھر بھی اتنے برے نہ ہوئے کیونکہ ہم مُردار خود کھاتے ہیں، کسی دوسرے کو تو چپکے سے نہیں کھلاتے، مُردار جانور کو کاٹ کر بیچتے تو نہیں، مُردار کھاتے ہیں یتیم کا مال تو نہیں کھاتے، وارثوں کا حق تو نہیں کھاتے۔ سب سے بڑھ کر اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت تو نہیں کھاتے، جو یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے مزے لے لے کر کھاتے ہیں، اور جب ان میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے کسے بھیجا تھا اس کو یہ بات سکھانے کے لیے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے ٹھکانے لگائے۔ کوّوں کی پوری نسل میں آج تک کسی کوّے نے اپنے بھائی کو اس طرح ناحق قتل نہیں کیا، پھر بھی برے ہم ہی ہیں۔
nn