برلن (انٹرنیشنل ڈیسک) مشرقی جرمنی میں اسلام مخالف نوجوانوں کے ایک گروہ نے 3 شامی بچوں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ مقامی پولیس کے مطابق چاقوؤں سے مسلح ان افراد نے ان بچوں کو ہراساں کرتے ہوئے دائیں بازو کے انتہا پسندانہ نعرے بھی بلند کیے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے جرمن پولیس کے حوالے سے بتایا کہ جمعے کی شام مشرقی شہر ڈریسڈن سے 25 کلومیٹر دور واقع زیبنٹس نامی شہر میں 3 شامی مہاجر بچوں کو مارا پیٹا گیا۔ اس دوران مبینہ طور پر دائیں بازو کے ان انتہا پسندوں نے نعرے بازی کی اور چاقو بھی لہرائے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ جن مہاجر لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کی عمریں 5، 8 اور 11 برس ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب یہ بچے ایک بس سے اترے۔ پولیس کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔دوسری جانب جرمن پولیس نے مشرقی شہر کیمنٹس میں ایک بم حملے کی منصوبہ بندی کے خدشات کے بعد ایک بڑا آپریشن کیا۔ جرمن پولیس کے اہلکاروں نے جن کے ساتھ خصوصی کمانڈو دستے کے اہل کار بھی تھے، مشرقی جرمن شہر کیمنٹس میں ایک شامی شہری جابر البقر کے گھر کی تلاش لی، تاہم یہ شخص جس پر ایک بم حملے کا منصوبہ بنانے کا الزام ہے فرار ہو گیا۔ جرمن پولیس کو داخلی انٹلیجنس کے ذریعے یہ خبر ملی تھی کہ کیمنٹس میں قیام پذیر ایک 22 سالہ شامی شہری کسی بم حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے فلیٹ سے سیکڑوں گرام خطرناک دھماکا خیز مواز برآمد کیا ہے۔