حیا، یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کو سنتے ہی عموماً ہمارے ذہنوں میں ایک باحجاب شرمیلی خاتون کا سراپا آجاتا ہے۔ مزید وسعت دی جائے تو نیچی نگاہیں، دھیمی آواز میں گفتگو اور نامحرموں وغیرہ سے مکمل پردے کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی کا ذہن حیا کے بارے میں فی الواقع اتنی ہی معلومات رکھتا ہے کہ شرم و حیا اور ستر پوشی کے تقاضوں کے مطابق لباس اور اس کا اہتمام ہی حیا ہے۔ جب کہ حیا کا حقیقی اور جامع مفہوم اس کے برعکس ہے۔
حیا دراصل ایک رویہ ہے جس سے ایک مکمل اور مربوط اخلاق و کردار تشکیل پاتا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے وہ تصورِ حیا جو ہمیں دینِ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایمان کی ایک شاخ قرار دیا ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ ’’جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔‘‘
دراصل یہ انسان کا عقیدہ اور ایمان ہی تو ہے جو اسے اعمالِ صالح کے لیے تیار کرتا ہے۔ ایمان کی پختگی سے ہی ایک مومن مشکل سے مشکل حالات میں بھی صبر و رضا کا دامن نہیں چھوڑتا۔ وہ تنہا ہو یا ہجوم میں، اس کی ایمانی حالت اسے صراطِ مستقیم سے بھٹکنے نہیں دیتی۔ اس کے اندر ودیعت کردہ فطری حیا اسے اپنے خالق کی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے گناہ اور معصیت کے ارتکاب سے روکے رکھتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے تزکیہ وتربیت میں حیا کے عنصر کو خصوصی اہمیت دیتے تھے۔
ایک بار آپؐ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اللہ سے پوری طرح حیا کرو‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا شکر ہے ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ سے شرمانے کا اتنا ہی مطلب نہیں ہے بلکہ اللہ سے پوری طرح شرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تُو اپنے سر اور سر میں آنے والے خیالات کی نگرانی کرتا رہے اور پیٹ کے اندر جانے والی غذا کی دیکھ بھال کرتا رہے، اور موت کے نتیجے میں گل سڑ جانے اور فنا ہوجانے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش ترک کردیتا ہے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ پس جو شخص یہ سب کرتا ہے وہی جنت میں اللہ سے ٹھیک ٹھیک حیا کرتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
مگر افسوس کہ ہم مسلمان حیا کو ایک ظاہری رویہ ہی سمجھتے ہیں، جب کہ یہ ایک بھرپور اخلاقی طاقت ہے جو فرد کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کو بھی پاکیزہ کرتی ہے، اخلاق و کردار کو بلندی عطا کرتی ہے۔ با حیا انسان ہر طرح کی فکری و عملی آلودگی سے بچنے کی فکر کرتا ہے۔
دورِ جدید میں میڈیا نے جس طرح افراد کی زندگی اور رہن سہن کے طریقوں کو تبدیل کیا ہے اس کی وجہ سے اجتماعی رویوں میں بھی بہت تبدیلی آئی ہے۔ حیا اور اسلامی معاشرتی اقدار کو مسلسل نشانے پر رکھ لیا گیا ہے، بالخصوص کفار نے میڈیا کے ذریعے ایک مستقل محاذ کھول لیا ہے۔ پاکیزہ اسلامی قدروں کے برخلاف بدتہذیبی اور بے حیائی کو ماڈرن ازم اور فیشن کا نام دے کر ہماری حیا، اخلاقیات اور بلندئ کردار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پُرتعیش زندگی کے فرضی مناظر دکھا کر عوام کی نفسانی خواہشات کو آسمان پر پہنچا دیا گیا ہے۔ انہی خواہشات کو پورا کرنے کے چکر میں اب حلال و حرام، جائز وناجائز کا لحاظ کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔
اب ناظرین کو کوئی منظر بے ہودہ لگتا ہی نہیں ہے۔ پوری فیملی ماں باپ، بہن بھائی، چھوٹے بڑے ایک ساتھ بیٹھ کر پروگرام دیکھتے ہیں، تبصرے بھی کرلیتے ہیں۔ ہماری تہذیبی اقدار ایسی تو نہ تھیں۔ جس ڈھنگ اور جس انداز سے ڈراموں اور اشتہاروں میں خواتین ماڈلز کو فلمایا جاتا ہے کیا کوئی تہذیب یافتہ خاندان ایسا چاہے گا کہ ان کی خواتین اور بچیاں یہ انداز و اطوار اپنی روزمرہ زندگی میں اپنائیں؟
آپ گھر سے باہر نکلیں، کسی بھی پبلک مقام پر چلے جائیں، آپ کو عام افراد سے زیادہ تعداد میں گداگروں سے واسطہ پڑے گا۔ اچھے خاصے صحت مند، جوان مرد و خواتین، نئے نئے ہتھکنڈوں، فرضی کہانیوں اور دکھڑوں سے لیس۔۔۔ ان میں کچھ تعداد یقیناًمستحقین کی بھی ہوتی ہوگی، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا، مسلسل پیچھے لگ جانا، کوئی لاکھ دھتکارے بھی تو پیچھا نہ چھوڑنا ہی ان کا وتیرہ ہے۔ ’’اللہ کے سوا کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں‘‘ اب یہ تصور قدیم ہوا۔ اب تو مانگنے والوں کی ہی چاندی ہے۔ میڈیا چینلز کے انعامی پروگراموں کے ذریعے لالچ، خودغرضی اور نفس پرستی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ بے حیائی کہہ لیں یا ڈھٹائی، اب ہر کسی سے مانگنے میں کوئی حیا، شرم کی ضرورت نہیں۔ جیسے چاہو جیو، بس من کی مانو اور دل کی سنو۔
جس قوم کے حکمرانوں کے کروڑوں ڈالر کے سوئس اکاؤنٹس ہوں، پھر بھی وہ کاسۂ گدائی لیے دنیا بھر میں مانگتے پھرتے ہوں، اس قوم میں عزتِ نفس، سفید پوشی، حیا اور خودداری جیسی صفات کہاں باقی رہیں گی! سو یہی حال ہے، ہر طرف گداگر ہیں، اور دیگر افراد اس تذبذب میں کہ ان میں سے مستحق کون ہے؟ اربابِ اقتدار کو اُن کی کارکردگی پر آئینہ دکھایا جائے تو وہاں بھی بے حیائی اور ڈھٹائی پوری آن بان کے ساتھ براجمان۔۔۔ وہ اپنی بدعنوانیوں اور بداعمالیوں کو اپنا حق سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔
انجامِ کار یہ ہے کہ زندگی کے ایک شعبے سے حیا ختم ہوئی تو دیگر تمام شعبوں سے بھی اس کا خاتمہ ہوا۔ ہم بحیثیت ایک قوم کے اپنی اقدار و روایات اور شان دار تہذیب کو بے حیائی اور بے حسی کے سمندر میں غرق کرکے ترقی کی دوڑ میں کس طرح شامل ہوں گے؟ اپنی آئندہ نسلوں کو کیسا معاشرہ منتقل کریں گے؟ ملک و قوم کی آج کی بیٹیاں جو مستقبل میں مائیں بنیں گی، اگلی نسلوں کی امین ہوں گی، ان کی تربیت کس نہج پر کریں گے؟ اب ہمیں سنجیدگی سے اس پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے کیا مثبت تبدیلی ہم لاسکتے ہیں۔ اپنی رب کو راضی کرنے، اس کے بندوں کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنے فکر و عمل میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی۔ مسلسل جدوجہد اور درس و تلقین سے لوگوں میں حیا اور اعمالِ صالح کی اہمیت کو واضح کرنا ہوگا۔ برائی کو کھلے الفاظ میں برا کہنے کی ہمت کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی اقدار، اپنے قیمتی سرمائے کو طاغوتی یلغار سے بچاسکیں۔ اپنی آئندہ نسلوں کو بہترین تہذیب سے مزین مثالی معاشرہ دینے کی تیاری آج ہی سے شروع کریں۔
ہم اللہ سے حیا کرنے والے بنیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ آئیے ہر برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرنا اپنا شعار بنالیں۔ اللہ رب العزت ہماری اس سعی کو ضرور بار آور بنائے گا۔