خبردار، اکتوبر، سیاسی آفات کا مہینہ

188

اکتوبر کا مہینہ شروع ہی سے پاکستان کے لیے بڑا کڑا مہینہ رہا ہے۔ قدرتی آفات کے علاوہ، یہ مہینہ انقلابات، سیاسی اٹھا پٹخ، اتھل پتھل اور ایسی تبدیلیوں سے عبارت رہا ہے کہ جس کے اثرات دور رس اور ہمہ گیر رہے ہیں اور چار نسلیں گزرنے کے بعد بھی ملک ان کی گرفت میں ہے۔
اکتوبر کی پہلی ضرب، قیام پاکستان کے فوراً بعد ۱۹۴۷میں کشمیر کی آزادی کے لیے قبائلیوں کی چڑھائی اور اس کے نتیجے میں ریاست کے مہاراجا کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے پروانے پر دستخط اور پھر اس کے تحت ۲۷ اکتوبر کو ہندوستانی فوج کے کشمیر پر تسلط نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے بر صغیر کی تقدیر پر ایسی خون آشام مہر ثبت کر دی کہ اس علاقہ میں جنگوں، فوجی معرکہ آرائیوں، خونریز کشیدگیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا جو ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسی سلسلے نے برصغیر میں جوہری اسلحہ کے حصول کی دوڑ کو ہوا دی۔
پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اسی اکتوبر کے مہینے میں راول پنڈی کے ایک جلسہ عام میں قتل کردیے گئے۔ پینسٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی یہ راز نہیں کھل سکا ہے کہ کون اس قتل کی سازش کے پیچھے تھا۔ وہ خود اپنے ناراض ساتھیوں کی عداوت کا نشانہ بنے یا کوئی غیر ملکی طاقت انہیں راستے سے ہٹانا چاہتی تھی۔
پھر تین سال کے بعد اسی اکتوبر کے مہینہ میں ملک میں جمہوریت پر پہلا وار اس وقت ہوا جب گورنر جنرل غلام محمد نے فوج کے بل پر دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔ پاکستان کے سیاسی افق پر مہیب سائے تو اسی وقت سے منڈلانے شروع ہوگئے تھے جب اس سے ایک سال قبل مارچ ۵۳ء میں گورنر جنرل نے پارلیمنٹ میں بجٹ کی منظوری اور اعتماد کے ووٹ کے فوراً بعد وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کردیا تھا اور امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو بلا کر وزارت عظمیٰ پر فائز کر دیا تھا۔ لوگوں کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ غلام محمد نے یہ اقدام کس کی شہہ پر اور کس کے بل پر کیا تھا۔ پھر سب سے اہم بات یہ تھی کہ بوگرہ کی کابینہ میں پہلی بار مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔ یوں یہ پہلا دروازہ تھا جو پاکستان کے اقتدار کے ایوان میں فوج کے طالع آزماوں کے لیے کھلا تھا۔
فوج جو سن ۵۴ سے پردے کے پیچھے تھی ۷ اکتوبر،۱۹۵۸ میں سارے پردے چاک کر کے کھلم کھلا ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئی۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کسی ایک واقعہ، حادثہ یا کسی فیصلہ کے ردعمل میں نہیں کیا بلکہ یہ اقدام سیاست دانوں کے خلاف بیوروکریسی اور فوج کے گٹھ جوڑ اور جمہوریت کے خلاف ایک منظم سازش کا نتیجہ تھا اور ان قوتوں نے اس اقدام کے لیے حالات سازگار بنانے کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت جتن کیے تھے۔سن اکیاون میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد غلام محمد کے گورنر جنرل بنتے ہی بیوروکریسی سیاست دانوں پر غالب آگئی تھی۔ انہوں نے مطلق العنانوں کی طرح حکومت کی اور ان ہی کے زمانے میں ایک بیوروکریٹ، چودھری محمد علی جو حکومت کے سیکرٹری جنرل رہ چکے تھے وزیر اعظم بنے اور سب سے زیادہ طاقت ور بیوروکریٹ، وزیر داخلہ جنرل اسکندرمرزا تھے جو بیوروکریسی اور فوج کے درمیان رابطہ کار تھے کیوں کہ وہ ایک عرصہ تک وزارت دفاع کے سیکرٹری رہ چکے تھے۔ پھر ۱۹۵۵ میں جنرل اسکندر مرزا نے غلام محمد کی سبکدوشی کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالااور سن ۱۹۵۶ میں آئین کی منظوری کے بعد وہ ملک کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔ صدر کی حیثیت سے اسکندر مرزا نے تین سال کے اندر اندر یکے بعد دیگرے چار وزرائے اعظم، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، چندریگر اور ملک فیروز خان نون کو برطرف کیا اور عمداً ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔ اقتدار پر فوج کے قبضہ کے ایک سال بعد اکتوبر ہی کے مہینہ میں ایوب خان نے ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا او ر اسی کی بنیاد پر سن ۶۲ ۱۹ میں نیا آئین ملک پر تھوپ کر اس کے بل پر صدر منتخب ہو گئے۔ صدارتی انتخاب میں حزب مخالف کی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کا مقابلہ کیا لیکن پوری سرکاری مشینری اور خاص طور پر میجر جنرل یحییٰ خان کی مدد سے ایوب خان کامیاب رہے۔ اسی مدد کے عوض ایوب خان نے میجر جنرل یحییٰ خان کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر ترقی دی اور جب ۱۹۶۹ میں ملک میں ایوب خان کے خلاف عوامی مظاہروں کا زور بڑھا اور ان کے لیے حکومت کرنی مشکل ہوگئی، تو ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کو منتقل کردیا، جنہوں نے فی الفور ملک میں مارشل لا نافذ کردیا، ۶۲ کے آئین کو منسوخ کردیا اور پارلیمنٹ توڑ دی۔ گو یحی خان نے ۱۹۷۰ میں عام انتخابات کرائے لیکن ان انتخابات کا نتیجہ نہ تو فوج نے تسلیم کیا اور نہ مغربی پاکستان سے جیتنے والی پارٹی پیپلز پارٹی کے قائد بھٹونے قبول کیا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں جو بغاوت بھڑکی، اس کا ہندوستان نے بھر پور فایدہ اٹھایا اور کھلم کھلا فوجی مداخلت کی، جس نے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔
ایک فوجی آمر کے دور میں ملک کے دو لخت ہونے کے المیہ کے باوجود ملک کی بد نصیبی کہ ۷۷ ۱۹میں ایک اور فوجی طالع آزما جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ گو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نوے روز کے اندر اندر عام انتخابات کرائیں گے لیکن طویل لیت ولعل کے بعد اکتوبر ۷۹ ۱۹ کا مہینہ تھا کہ جنرل ضیاء نے عام انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے موخر کرنے کا اعلان کردیا اور انتخابات کی جگہ احتساب کا نعرہ لگایا۔
یہ جنرل ضیاء تھے جنہوں نے ۱۹۸۵ میں میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا اور دراصل فوج کے سہارے میاں نواز شریف کا سیاسی ستارہ چمکا، لیکن اب تک لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب بھی وہ اقتدار میں آئے ان کی ہمیشہ فوج کے سربراہ سے کشمکش رہی۔ پہلے صدر غلام اسحاق خان کے دور میں جنرل عبدالوحید کاکڑ سے پھر جنرل آصف جنجوعہ کے ساتھ پھر جنرل جہانگیر کرامت سے معرکہ آرائی رہی جس کے نتیجہ میں جنرل کرامت کو استعفا دینا پڑا۔ جنرل کرامت کے استعفے کے بعد، عام توقع تھی کہ ان کے بعد سب سے سینئر اور بے حد قابل، جنرل علی قلی خان کو فوج کا سربراہ بنایا جائے گا لیکن،شہباز شریف اور چودھری نثار کے شدید اصرار پر، جس کی وجہ اب تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی ہے،جنرل علی قلی خان کی جگہ،میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو فوج کی قیادت سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔
پھر ۱۲ اکتوبر ۹۹ کوعوام نے اقتدار پر جنرل مشرف کے قبضہ اور نواز شریف کی گرفتاری کا ڈراما دیکھا۔ یہ ۲۰۰۷کا اکتوبر تھا جب این آرو کے تحت بے نظیر بھٹو آٹھ سال تک جلاوطن رہنے کے بعد وطن واپس آئیں اور کراچی میں ان کے خیر مقدمی جلوس پر بم دھماکے ہوئے جن سے ایک سو تیس افراد جاں بحق ہو گئے۔
پاکستان میں اکتوبر کے مہینہ کی ان خوریزیوں، اتھل پتھل اور فوجی طالع آزماوں کے اقتدار پر حملوں کے پیش نظر لوگوں کو اکتوبر سے بڑا ڈر لگا رہتا ہے کہ نہ جانے حالات اچانک کیا رخ اختیار کر جائیں۔ آج کل جب کہ وزیر اعظم نواز شریف اور عسکر ی قیادت کے درمیان کشیدگی کی خبریں عام ہیں، بہت سے لوگ اکتوبر سے خوف زدہ ہیں، ابھی اکتوبر ختم نہیں ہوا، اورہنوز آدھا مہینہ باقی ہے۔