جمہوریت کے بھونپو!

181

سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود کو خطے کا چودھری سمجھتا ہے غالباً امریکا نے اسے باور کرادیا ہے کہ وہ خطے کا مالک ہے سیاہ کرے یا سفید، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں، ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر وہ بڑھکیں تو پاکستانی فلمی اداکاروں کی طرح مار رہا ہے۔ اُمید ہے ہاشمی صاحب اس بات پر ضرور توجہ دیں گے۔
ہاشمی صاحب کی رائے کے مطابق بین الاقوامی میڈیا نے بھارت کی عسکری طاقت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ سنا ہے بھارت کے پاس دو ہزار جنگی طیارے ہیں مگر ان میں سے دو سو طیارے بھی اُڑان بھرنے کے قابل نہیں، گویا بھارت کے بھانڈوں پر قلعی بھی ممکن نہیں۔
مودی سرکار پاکستان کو تنہا کرنے کے دعوے کیا کرتی تھی مگر یورپ اور ایشیا کے زیادہ تر ممالک نے کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرکے بھارت کو پورے خطے میں اکیلا کردیا ہے۔
ہاشمی صاحب کہتے ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے پر بھارت کے انتہا پسندوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے سر کی قیمت ایک کروڑ لگائی ہے جب کہ مودی کے سر کی قیمت ایک ٹکے کی بھی نہیں۔ ہمارے خیال میں ہندو بنیے یہاں بھی ڈنڈی مار گئے۔ ہم تو چھوٹے موٹے چور اُچکوں (اَچکوں نہ پڑھا جائے) کے سر کی قیمت بھی ڈیڑھ دو کروڑ سے کم نہیں لگاتے۔ سندھ حکومت نے یاسین چھوٹو کے سر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ مقرر کی ہے۔
امریکا بھارت کے تعاون کے بغیر خطے میں اپنی طاقت کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا اور بھارت اپنے تعاون کی منہ مانگی قیمت چاہتا ہے۔ بھارت کی خوشنودی کا حصول امریکا کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی لیے ہم نے کسی کالم میں لکھا تھا کہ کشمیر کے پٹا ملکیت پر امریکا کے دستخط بہت ضروری ہیں۔ جب تک بھارت امریکا کی ضرورت بنا رہے گا کشمیریوں کا استیصال ہوتا رہے گا۔ یہ تو سیاں بھئے کو توال والا معاملہ ہے۔
دنیا کے مہذب ممالک میں کسی جانور کو اذیت دینا بھی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے مگر کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔ مودی سرکار اپنی جنتا کو باتھ روم جیسی سہولت بھی فراہم کرنے سے قاصر ہے مگر اربوں روپے کے جنگی طیارے خرید رہی ہے اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری بھارتی عوام کے دُکھ پر غور کرنے کے بجائے مودی کے احمقانہ بیانات سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ انسانی حقوق کے علم بردار بھی خاموش ہیں اور اس کی وجہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں‘‘ والا معاملہ ہے بعض ممالک کے حکمران امریکا کی خوشنودی میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔
بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور امریکا بھارت کے انگ انگ کو اپنا انگ سمجھتا ہے۔ اپنا انگ کسے پیارا نہیں ہوتا۔
امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اڑی واقعے کی تحقیقات میں بھارت کی معاونت کرے، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلاف فوری اقدامات کرے، کیوں کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم اور پائیدار بنانا چاہتا ہے اور بھارت کے ساتھ مضبوط اور پائیدار شراکت داری میں کوئی مصلحت آڑے نہیں آسکتی۔
پٹھان کوٹ حملے میں بھارت نے پاکستان کو ذمے دار قرار دیا تو حکم کی تعمیل میں بھارت کے نامزد افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا گیا مگر اڑی حملے کو پاکستان نے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا ردعمل قرار دیا تو بھارت سرکار سکتے میں آگئی کہ یہ انہونی کیسے ہوگئی اور انہونی تو یہ بھی ہوئی کہ 1971میں روسی فوج جو بھارتی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی آج پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور پاکستانی فوج کے ساتھ جنگی مشقوں میں مصروف ہے اور یہ انہونی سیاست دانوں کا کارنامہ نہیں عسکری قائد کا ہے۔ کیا کہتے ہیں بیچ اس مسئلے کے۔ جمہوریت کے بھونپو شریف۔