افشاں نوید

91

اسلام آباد کا ایک گھر ہے۔۔۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا مرکزی سطح کا اجلاس یہاں منعقد ہو رہا ہے۔ جس کمرے میں اجلاس ہورہا ہے، وہاں تیز خوشبو سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ اجلاس شروع ہونے ہی والا ہے۔۔۔ صبیحہ باجی کے بیگ کے ساتھ رکھے پرفیوم کو اٹھا کر ایک ساتھی ان سے سوال کرتی ہیں: ’’آپ اتنہا مہنگا پرفیوم استعمال کرتی ہیں؟‘‘
وہ کہتی ہیں: ’’کزن بیرون ملک سے تحفے میں لائی تھی اور خوشبو ٹھہری میری کم زوری، اگر حساب کتاب کا ڈر نہ ہوتا تو میں بھی بیش تر پیسا اسی شوق پر لگاتی۔۔۔ مگر تحفے تحائف سے اللہ میری اس ضرورت یا خواہش کی بھی لاج رکھ لیتے ہیں۔‘‘
اگر کوئی ایسی نشست ہے، جس میں کئی گھنٹے لگاتار بیٹھنا ہے تو ناممکن ہے اس دوران ان کے ہاتھ میں کوئی چھوٹی سی پرفیوم کی شیشی نظر نہ آئے۔ اکثر مجلسوں میں وہ موتیے اور بیلے کے پھولوں کا تھیلا ساتھ لاتیں۔ میز پر دائیں بائیں تقسیم کرتیں اور درمیانی والی میز پر بڑے اہتمام سے رکھواتیں۔ کبھی لمبے سفر میں ساتھ ہو تو ناممکن ہے ہر تھوڑی دیر بعد کوئی خوشبو ان کے ہاتھ میں نظر نہ آئے۔
یہ کوئی ایسی خوبی بھی، نہیں جس کا تذکرہ اس اہتمام سے کیا جائے۔ یہ کسی کے شخصی کردار کو مبالغہ آمیز رنگ دینے کے لیے کوئی ٹھوس بات بھی نہیں۔۔۔ مگر یہ بات قابل بیان یوں بن جاتی ہے کہ پوش علاقے کی ایک نفاست پسند خوشبو کی دلداہ، انتہائی تعلیم یافتہ وہ خاتون گاؤں، گوٹھوں میں بہتی ہوئی نالیوں، کچرے کے ڈھیروں، جگہ جگہ گوبر اور ان سے اُپلے تھاپتی ہوئی عورتوں، ابلتے ہوئے گٹر اور ان سے اٹھنے والے تعفن نے پورے علاقے کو حصار میں لیا ہوا ہو، پھلانگتی ہوئی ان کے مسائل کے حل کے لیے پہنچ جاتی ہے اور کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتی۔ وہ خوشبو ہی کی طرح مہکتی تھی، ہر محفل کو زعفرانِ زار بنائے رکھتیں۔ برسوں انہوں نے بالخصوص سندھ کے گاؤں گوٹھوں میں کام کیا۔۔۔ بے شمار لوگوں نے کام کیا ہے لیکن ان لوگوں کے درمیان ان جیسا بن جانا‘ اس کے لب و لہجے میں ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرنا ہر اک کے پاس یہ ہنر نہیں ہوسکتا۔ تقریریں بہت سے کرلیتے ہیں، اچھے سے اچھا درس دے لیتے ہیں، لیکن ہفتوں ان گاؤں گوٹھوں میں قیام کرنا، ایک ایک سے ذاتی روابط استوار کرنا، ان کی خوشی اور غموں کو اپنا سمجھنا، ہر ایک کے پاس کب یہ حوصلہ ہوسکتا ہے؟
ہم دنیا سے رخصت ہونے والوں کے تذکرے آئے دن پڑھتے رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی میں بھی مخلصین کی کمی ہے نہ مدرسین کی، نہ اچھے داعیانہ کردار رکھنے والوں کی، کسی کا علمی مقام بہت بلند ہے توکسی کی دعوتی خدمات بہت عمدہ ہیں، کسی نے خدمتی جذبے سے لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ہوا ہے تو کوئی مدرس بہت اچھا ہے مگر جلسہ عام کا مقرر نہیں۔ کسی کی چلت پھرت بہت ہے، مگر لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔۔۔ کوئی منتظم بہت اعلیٰ ہے، مگر اجتماع عام میں واش روم کی صفائی کی ڈیوٹی اتنی اعلیٰ سطح کے ذمّے داران کی نہیں لگا سکتے، کوئی دانش وری کی سطح پر ہے، مگر شامیانے کے باہر رکھی چپلوں کو ترتیب نہیں دے سکتا، کوئی خدمتی کاموں میں دُھت ہے، مگر مؤثر طبقے کی خواتین سے خطاب نہیں کرسکتا، کسی ناظمہ میں قائدانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، مگر وہ اخباری نمائندوں اور ٹی وی کے کیمروں کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہیں۔ کوئی مطالعے کا دھنی ہے تو کوئی عوامی رابطوں کا۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ اللہ میاں کی کائنات کی رنگا رنگی ہے اور اسی سماجی سے لوگ اٹھ کر تحریک میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں ہر کسی سے ایک جیسی توقعات بھی وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ ہر اک کے ذمے اس کی صلاحیتوں کے مطابق ہی فرائض تفویض کے جاتے ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ صلاحیتوں کو ذمّے داریاں ہی جلا بخشتی ہیں۔
میں نے اپنی ربع صدی کی اجتماعی زندگی میں اتنی صلاحیتیں کسی ایک فرد میں مجمتع نہیں دیکھیں۔ قدرت نے اتنی صلاحیتیں ہر ایک کو ودیعت نہیں کیں، اس لیے وہ کردار بھی ہر ایک سے مطلوب نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک کو اتنا ہی حساب دینا ہے، جس کا وہ مکلف ہے۔ اسلامی تاریخ بھی مثالوں سے روشن ہے۔ امہات المومنین و اہلِ بیت میں ہمیں ایسے کردار ملتے ہیں کہ تاریخ ان پر فخر کرتی رہے گی۔ حضرت سمیہؓ کی طرح ہر ایک تو نہیں جرأت دکھا سکتا اور تیروں کے زخم برداشت نہیں کرسکتا، حضرت اُم عمارؓ کا جگر ہر ایک کے پاس تو نہیں ہوسکتا، حضرت زینبؓ کا کردار کربلا کی تاریخ میں پڑھیں تو اس حکمت و فراست پر رہتی دنیا تک مسلمان عورتیں رشک کرتی رہیں گی۔
حق کے کارواں کا سفر یوں ہی چلتا رہے گا، لوگ آتے جاتے رہیں گے، یہاں جماعت اسلامی کی 70 برس کی تاریخ میں بھی بے شمار مخلصین ہیں، مگر مجھے کوئی مبالغہ نہیں لگا، اس تعزیتی اجتماع میں جب خواتین دُکھی لہجوں میں بھیگی پلکوں کے ساتھ بتارہی تھیں کہ انہوں نے اتنی خوبیاں یک جا کم ہی دیکھی ہیں۔ ایک عام کارکن بہت اعلیٰ پائے کی انتظامی صلاحیتوں یا دماغی کاوشوں سے اتنا متاثر بھی نہیں ہوتا جتنا محبت اور ہمدردی کے جذبات سے کسی کا دل جیت لینا شاید دنیا کا سب سے بڑا فن ہے اور اس فن میں انہیں کمال درجے کی مہارت حاصل تھی، ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ ’’ان کے پاس بیٹھنے والا بھی بدبخت نہیں ہوتا‘‘ وہ بھی کسی درجے میں ان خوش نصیب لوگوں میں شامل تھیں۔ ان کے بحر کی موجوں کے اضطراب نے انہیں ہر پل بے چین و بے کل رکھا۔ جب سے انہوں نے مقصد زندگی کو پایا، بس اسی جستجو میں رہیں کہ ۔۔۔دیے کرتی رہوں روشن، اِدھر رکھ دوں، اُدھر رکھ دوں
اندرون سندھ کے گاؤں گوٹھوں میں یا کراچی کی مختلف آبادیوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ صبیحہ باجی کا کوئی درس، قرآن فہمی کی کوئی کلاس ان کی انقلابی تبدیلی کا باعث نہ بنی ہو۔ اس وقت بھی کثیر تعداد ہے ذمے داریوں پر فائز لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ہم نے داعیانہ کردار کو سمجھا ہی ان کے قوِل و فعل سے۔
آج تین روز ہوئے ہیں ان کے انتقال کو، اس دوران اتنا کچھ میں نے جانا ان کے بارے میں کہ ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف گروپ کی جانب سے شئیر کی گئی تحریریں، بلاگز، ہر ایک ان سے اپنے تعلق کے اظہار پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ صبیحہ باجی کا عجز ہی ان کا بڑا سرمایہ تھا۔ اپنا بنانے کا فن وہ لوگوں کو سِکھاتی تھیں۔ ان کی دو ہاتھ ہر ایک کو پالش کرنے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ میری لمحہ دو لمحہ ان سے ملاقات ہوئی ہو یا کئی گھنٹے کی نشستوں میں وہ قول سے، عمل سے، کتاب یا پمفلٹ دے کر کوئی دعا بتا یا سِکھا کر پُر خلوص جملوں کا تبادلہ کرکے ہر وقت اپنی اثریت پر کام کر رہی ہوتیں۔ وہ ہر سطح کی شوریٰ میں رہتیں، حلقہ خواتین میں اور اس بات کی گواہی بہت سے دیں گے کہ شوریٰ کی سب سے توانا آواز وہ ہوتی تھیں، بے لاگ لپٹ اپنی بات انتہائی شائستہ انداز میں کہ دینے والی، ان کی دلیل انتہائی مضبوط، ان کا علم انتہائی گہرا، تمام تحریکی لٹریچر کا مطالعہ اتنی گیرائی سے انہوں نے کیا ہوا تھا کہ کتابوں کی جلدوں کے حوالوں سے بتاتیں کہ بانی جماعت نے کیا بات کس وقت کہی تھی اور کیا درج ہے۔ انہوں نے بے حد وسیع مطالعہ برائے مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کو پورے طور پر جذب کیا تھا، ان کی بصیرت اور معاملہ فہمی بارہا اس راز کو اگلتی۔
وہ کتابوں کی اتنی عاشق تھیں کہ میں نے کم ہی کوئی نئی کتاب ان سے قبل کسی کے پاس دیکھی۔ اکثر اجتماعات ارکان یا شوراؤں میں کئی کتابوں کے تعارف کا ذریعہ بنیں اور بے حساب کتابیں موقع بہ موقع وہ تقسیم کرتی نظر آتیں، اگر دو منٹ بھی فون پر گفتگو ہوتی تو تحریکی اخبارات و رسائل کے چیدہ چیدہ موضوعات کا ذکر کر دیتیں کہ فلاح اجتماع میں فلاں مضمون پڑھنے کی طرف توجہ دلانا۔ جنہوں نے ایک بار بھی ان کا درس سنا ہے، وہ ان کی فضاحت و بلاغت کو نہیں بھول سکتے، مزے کی بات یہ کہ ایلیٹ کلاس کی خواتین کے لیے اس فضاحت و بلاغت کا معیار اور ہوتا اور کچی آبادیوں اور گوٹھوں کے لیے اور۔۔۔ ان کے لفظوں کے انتخاب اور جملوں کی ترتیب کی روح وہ داعیانہ اضطراب ہوتا تھا، جِسے وہ سننے والوں میں منتقل کر دیتی تھیں۔ جہاں دو چار بار وہ درس دے آئیں، بہت مشکل ہوتا تھا کہ لوگ کسی اور کو سننے پر آمادہ ہوں۔ ان کا وہ قرآن، جس سے درس دیتیں، برابر بیٹھنے والا دیکھ سکتا تھا، اس پر باریک باریک تحریر، حاشیے، مختلف رنگوں سے نشان زد کیا ہوا۔ مرکزی سطح کے بھی ذمّے داران کا اجلاس ہو اور ان کا درس قرآن تو میں نے افراد کو یہی کہتے سنا کہ ہم نے آج تک اس آیت پر اس طرح نہیں سوچا تھا۔ سیرت کا پروگرام ہو تو ان کے مطالعے پر لوگ رشک کرتے رہ جاتے اور حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ خانگی ذمّے داریوں کو نبھاتی ایک عورت جس کو جوانی سے دمے کا مرض لگا ہوا ہو، جو اہم تنظیمی تقاضوں میں گھری ہوئی ہو، جس کی دعوتی سرگرمیوں کا سرا کسی کے ہاتھ ہی نہ آتا ہو، اسے مطالعے کا اتنا وقت کیسے مل جاتا ہے اور اس مطالعے کو انہوں نے ایسے نبھایا اور اجتماعی دانش کا ذریعے بنایاکہ ایک طرف وہ کراچی شہر کی بے مثال ناظمہ رہیں تو دوسری طرف ان تھک یو سی کونسلر، شوراؤں کا کوئی فورم ایسا نہیں تھا، جہاں کے لیے ارکان نے بار بار ان کا انتخاب نہ کیا ہو۔ ایک طرف ان کی اصابت رائے ان فورمز کو تقویت پہنچا رہی ہے تو دوسری طرف وہ مہمات کی روح رواں ہیں۔ امت کے درد میں مبتلا دل، جو کشمیر کے لیے فنڈنگ کرتے نہیں تھکتا، کبھی غزہ کے دُکھ لوگوں کو سُنا رہی ہیں، کبھی بوسینیا کی صورت حال، وہ اس درد اور کرب کے ساتھ اپیل کرتیں کہ خواتین بے ساختہ اپنے زیورات اتار کر دینے لگتیں۔ اسی طرح، مہمات میں فرنٹ لائن پر وہ ہمیشہ خود ہوتیں، قربانی، جس کا تقاضا ہوتا، پہلے خود دے کر دکھاتیں، بے شمار تو ایسی قربانیاں ہیں، جو کوئی دے ہی نہیں سکتا، نہ ان کا تقاضا کیا جانا چاہیے، مگر کیا کیا جائے کہ وہ رُکنا اور تھکنا نہیں جانتی تھیں، اس لیے کہ وہ صبیحہ شاہد تھیں، بھلا کسی عورت سے یہ تقاضا کیا جاسکتا ہے کہ صبح کو اسپتال میں اس کے ہاں ولادت ہو اور دوپہر میں وہ الیکشن کیمپ میں ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے موجود ہو۔ الخدمت مرکز میں ایک بار بھگدڑ مچ گئی، باہر سے آئی ہوئی عورتوں نے لوٹ کھسوٹ مچادی۔ ہنگامی طور پر طے پایا کہ سامان محفوظ کیا جائے اور محفوظ کیے گئے سامان کو بعد میں منظم طریقے سے بچت بازار کے طور پر لگایا جائے۔ آناً فاناً انہوں نے فیصلہ کیا اور پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ پیٹھ پر آٹے کی بوریاں لاد لاڈ کر ٹرک میں لوڈ کرا رہی ہیں۔
اجتماع عام میں جب واش رومز کی صفائی کی نگراں وہ بنتیں تو جمعداروں کے انتظار میں نظام کو تہس نہس نہیں ہونے دیتیں، ہاتھوں پر پلاسٹک کی تھیلیاں چڑھا کر ایک ایک واش روم کو اپنے ہاتھوں سے صاف کررہی ہوتیں۔ بر سوں سے دل کے عارضے میں مبتلا تھیں، جب ساتھیوں کو علم ہوا تو انہوں نے احتجاج کیا کہ خود کیوں یہ کام کیا، ہمیں بھی بلا لتیں تو بولیں، تم اجر کی مجھ سے زیادہ تو طلب گار نہیں ہو، میرے گناہوں کا بوجھ کچھ یہیں ہلکا ہوجائے۔ اجتماع عام کے دوران ان کا تنہا تحرک کئی درجن افراد کے برابر ہوتا تھا۔ انہیں کسی نے رات کو سوتے دیکھا نہ دن کو۔۔۔ ہر کارکن سے کہتیں یہ ضعیف الرحمن ہیں، اللہ کے ان مہمانوں کی ناقدری نہ ہوجائے ہم سے۔
پارہ صفت صبیحہ باجی اپنے رب کی مہمان ہوئیں، وہ کندھا جس پر بے شمار لوگ سر رکھ دیا کرتے تھے اور ہلکے ہوجاتے تھے، جن کے منہ سے اپنا نام کم ہی کسی نے سنا ہوگا، ہر ایک کو بیٹا اور میرا چاند کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، اپنی ہم عمروں کو بھی بیٹا کہتے ہوئے کبھی نہ ہچکچاتی تھیں۔ جب ان کے انتقال کا سنا تو پہلا خیال یہی ذہن میں آیا کہ وہ تو جیتی بھی مزے کے لیے تھیں، ہر روز مدت کی تیاری، ہر وقت اعمال کی فکر، ہر دم نیکیوں کی جستجو، اللہ کے بندوں کو کیسے اللہ سے جوڑا جائے، ان کی سب فکروں پر یہی فکر غالب رہی۔ اپنی اولادوں کو اس نصب العین کے لیے تیار کیا اور سیکڑوں کارکنوں کی صورت میں اپنا صدقہ جاریہ چھوڑگئیں۔ انتقال سے مہینوں پہلے ہر ایک سے استدعا کرتیں کہ دعا کرنا موت کی سختی سے اللہ بچا لے، قبر کے سوالوں کا سامنا کیسی کروں گی، قبر کی تنہائی کے لیے کوئی سامان نہیں کیا، مرتے وقت کلمہ نصیب ہوجائے۔ اللہ کی اس مجاہدہ نے رخصت ہونے سے پہلے نہ صرف فجر کی نماز ادا کی بلکہ کئی بار باآواز بلند کلمات شہادت پڑھ کر جاں جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
اللہ پاک ان سے راضی ہو، آمین!