محمد انعام اللہ۔۔۔

123

حضرت ابو عبیدہ ابن جراحؓ ملک شام میں تھے۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس وہاں تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ وہ وہاں سیر وسیّاحت کے لیے نہیں جایا کرتے تھے بلکہ لوگوں کے حالات جاننا مقصد ہوا کرتاتھا۔ شہر کے گشت کے لیے نکلے تو حضرت عمرؓ کے ساتھ دیگر اصحابؓ بھی ہم راہ تھے۔ چلتے چلتے پانی کا ایک گھاٹ سامنے آگیا۔ حضرت عمرؓ اونٹنی پر سوار تھے۔ آپؓ اونٹنی سے نیچے اُترے اور موزے اُتار کر اپنے کندھے پر رکھ لیے اور اونٹنی کی نکیل پکڑ کر گھاٹ میں سے گزرنے لگے۔ حضرت عبیدہؓ نے صورت حال دیکھی تو عرض کی: اے امیر المومنینؓ، یہ آپ کیا کررہے ہیں کہ موزے اُتار کر کندھے پر رکھ لیے ہیں اور اونٹنی کی نکیل خود ہاتھ میں تھام لی ہے اور گھاٹ میں سے نکل رہے ہیں، مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہ ہوگی کہ اس شہر والے آپؓ کو اس حالت میں دیکھیں!
حضرت عمرؓ نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا: افسوس اے عبیدہ، اگر آؓپ کے علاوہ کوئی اور یہ بات کہتا تو میں اسے ایسی سخت سزا دیتا کہ جس سے حضرت محمدؐ کی ساری اُمت کو عبرت ہوتی۔ ہم تو سب سے زیادہ ذلیل قوم تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزّت عطا فرمائی۔ اب جس اسلام کے ذریعے اللہ نے ہمیں عزّت عطا فرمائی ہے، ہم جب بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز سے عزّت حاصل کرنی چاہیں گے، تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔
حضرت عمرؓ کا کندھے پر موزے رکھنا اور اونٹنی کی نکیل کا پکڑنا دراصل اپنے نفس کو غرور اور تکبر سے دور رکھنے کے لیے ان کا ایک ذاتی صوفیانہ اور درویشانہ عمل تھا۔ جب حضرت محمدؐ فتح مکہ کے موقع پر اپنے ہزاروں جان نثاروں کے ہم راہ مکہ شہر میں داخل ہوئے تو آپؐکا جبینِ مُبارک مارے عجز کے اونٹنی کے کوہان سے ٹکرا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ بارگاہِ رسالت میں عجزو انکساری کا یہ بے مثال نمونہ دیکھ چکے تھے۔
آج ہمارے حکم راں ہیں کہ انہوں نے اپنے معتبر اسلاف کے اعمال کی حقیقت کو جاننے کی کوئی شعوری کوشش ہی نہیں کی۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ شہر کے گشت کے لیے نکلے تو کوئی سڑک بلاک نہیں کی گئی، کہیں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اہل کار تعینات کرکے لوگوں کی زندگی کو اجیرن نہیں کیا گیا۔ کیا ہمارے آج کے پروٹوکول کے مارے، غرور اور تکبر میں لت پت بادشاہوں اور ان ہی کی طرح کے سرکاری اہل کاروں نے حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد نہیں سُنا کہ جب آپؓ احساسِ ذمے داری کے پیش نظر فرمایا کرتے تھے کہ اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرا تو ذمے دار عمر ہو گا۔ اے کاش، یہی احساسِ ذ مّے داری ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو بھی نصیب ہوجائے!
***