صفار ربوبیت اپنائیے (عابد علی جوکھیو)

156

مجید کی ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف ’رب‘ کے نام سے کرایا ہے۔ ترجمہ ہے: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ (الفاتحہ1) آغازِ کلام میں ہی خالقِ کائنات کی جانب سے اپنا تعارف بحیثیت رب کرانا کسی مقصد اور تعلیم سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف صرف مسلمان، کسی خاص علاقے یا افراد کے لیے نہیں کرایا بلکہ تمام جہانوں کے لیے کرایا کہ میں صرف کسی خاص مذہب کے ماننے والے، کسی خاص علاقے یا مخصوص افراد کا رب نہیں، بلکہ میں تمہارے جہان سمیت تمام جہانوں کا رب اور پالنہار ہوں۔ میری رحمت کسی خاص مذہب کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیے ہے، جو میری فرماں برداری کرے گا میں اسے بھی عطا کروں گا اور جو میری نافرمانی کرے گا میں اسے بھی دیتا رہوں گا۔ اس کائنات میں کوئی بھی میری رحمت اور فیض سے محروم نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا یہ تعارف ایک خاص مقصد اور مطلب رکھتا ہے۔ قرآن مجید کے آغاز میں ہی رب کا تعارف اور اس کی ربوبیت اور رحمت کی حدود و قیود کا بیان صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے تعارف کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمیں تعلیم دینے کے لیے ہے کہ تمہارا رب کون ہے، کیسا اور کیا کام کرتا ہے۔ چونکہ قرآن مجید تاقیامت آنے والے انسانوں کے لیے ہے، اور ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے، اس لیے اس کی ہر ہر آیت اور بات کا تعلق ہر زمانے، مقام اور افراد سے ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایک وصفِ خاص بتا رہا ہے کہ میں تمام جہانوں کا رب ہوں، تم سب کو پالتا ہوں، جو میرا فرماں بردار ہے اسے بھی کھلاتا پلاتا ہوں اور جو میری نافرمانی کرتا ہے اس پر بھی اپنے رزق اور رحمت کے دروازے بند نہیں کرتا۔ تم سب میرے پیدا کیے ہوئے انسان ہو اس لیے تمہاری ضرورتوں کی تکمیل بھی میری ذمے داری ہے، اسی لیے تم چاہے جو بھی عمل کرو، میں اپنی ذمے داری ادا کرتا رہوں گا۔
’رب‘ عربی زبان میں پالنہار کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ بنیادی طور پر دو معانی کے لیے استعمال ہوا ہے: خالقِ حقیقی یعنی اللہ اور انسان۔ اس کا قاعدہ ہے کہ اگر لفظ ’رب‘ کی نسبت خالق کی طرف کی جائے تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی ہوگی، اور اگر اس کی نسبت کسی انسان کی طرف کی جائے تو اس کے معانی محسن، مربی اور پرورش کرنے والے کے ہوں گے۔ قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو رب اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کی بحیثیتِ مجموعی ذمے داری اٹھائے ہوئے ہے، وہ ان کے لیے رزق کے وسائل فراہم کرتا ہے، ان کی ضروریات کی تکمیل کا سامان مہیا کرتا ہے، زندگی گزارنے کے لیے تمام ضروریات کی تکمیل اس نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے غربت و افلاس کے خوف کی بنا پر اولاد کے قتل کو ناجائز اور گناہ قرار دیا ہے۔ انسان تو درکنار اللہ تعالیٰ نے تمام جان داروں، حتیٰ کہ چیونٹیوں تک کو رزق اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی ذمے داری اپنے اوپر لی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عالیہ ہے کہ وہ بلاتفریق ہر ایک کو کھلا پلا رہا ہے۔ اسی صفت یا لفظ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں والدین اور دیگر انسانوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ والدین کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘ (بنی اسرائیل 24)۔ اور دیگر انسانوں کے لیے استعمال کی مثال حضرت یوسفؑ کا قول ہے: (ترجمہ) ’’اپنے رب (عزیز مصر) کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟‘‘ (یوسف 50) یہاں پر یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کے لیے رب کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ عزیز مصر نے خود اس کی پرورش کی تھی، دوسرا یہ کہ اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے رب یعنی محسن و مشفق یا مربی (عزیز مصر) سے پوچھو۔ یہاں دونوں احتمال ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ عزیز مصر ان دونوں کے لیے وہی حیثیت رکھتا تھا۔ ان مثالوں کے ذکر کا مقصد صرف یہ ہے کہ لفظ ’رب‘ جس طرح حقیقی معنوں میں اللہ کے لیے استعمال ہوسکتا ہے کہ وہی حقیقی رب ہے، اسی طرح مجازی معنوں میں ہر اُس شخص کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جو اس صفت پر عمل پیرا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا انسانوں کے لیے رب ہونا بیان ہوچکا کہ وہ جس طرح ہماری ضروریات کا خیال رکھتا ہے، ہمیں کھلاتا پلاتا اور پوشاک فراہم کرتا ہے یہ ایک رب ہی کرسکتا ہے، اور مجازی معانی میں والدین کا رب ہونا کہ وہ بھی اپنی اولاد کی تربیت، نگہبانی اور پرورش میں اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے یہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ صفت ہر انسان کے لیے بھی ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اور ربوبیت والے کام کرنا شروع کردے۔ یہاں نعوذباللہ ربوبیت کا حقیقی مطلب مقصود نہیں بلکہ مجاز مطلب مراد ہے۔ جس طرح رب بغیر کسی تفریق کے ہر انسان کو آزاد پیدا کرتا ہے، اس کے اعضا و جوارح ٹھیک ٹھیک بناکر اسے اس دنیا میں روانہ کرتا ہے، اس کے لیے دن و رات کو یکساں رکھتا ہے، ہوا و روشنی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی یکساں تقسیم کرتا ہے، ہر انسان کو اپنے فضل سے کم یا زیادہ رزق فراہم کرتا ہے، یہی اس کی ربوبیت کی شان ہے۔ وہ اس کام میں کوئی فرق نہیں کرتا، تمام انسانوں کو بے غرض ہوکر عطا کرتا ہے، چاہے کوئی اس کا فرماں بردار ہو یا نافرمان، سب کو دیتا ہے۔ اور اس کے بدلے انسان سے کچھ طلب نہیں کرتا۔ اگر بدلے میں انسان اس کی نافرمانی کرے تب بھی وہ اسے اِس دنیا میں چلنے پھرنے کے پورے پورے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کو انسانوں سے بھی یہی مطلوب ہے کہ وہ بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں، بے کسوں کی دستگیری کریں، محتاجوں کی مدد کریںِ، یتیموں اور مسکینوں کا خیال کریں۔۔۔ اور یہ سب کام کسی ذاتی غرض اور مطلب سے بالکل خالی ہوں۔ چاہے کوئی ان کے ساتھ کیسا ہی رویہ اپناتا ہے، خیر خواہی اور احسان کے بدلے میں کیا ملتا ہے، کوئی انہیں بے وقوف سمجھتا ہے، اس کے باوجود انہیں اپنا کام کرتے اور مخلوقِ خدا کے لیے آسانی فراہم کرنے کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے۔
ہماری دنیا کا امن وسائل کی منصفانہ تقسیم سے مشروط ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی یہی دستور ہے کہ وہ اپنے وسائل اور رحمتیں بندوں پر برابر تقسیم کرتا ہے۔ اس تقسیم میں اللہ کا ایک قاعدہ ہے کہ جو لوگ عقل یا کسی اور صلاحیت کی کمی کی وجہ سے اپنے حصے کے وسائل کو ٹھیک سے استعمال کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، ان کے حصے کا رزق دوسروں کو فراہم کرتا ہے کہ وہ اس میں سے ان کا حصہ انہیں پہنچادیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کی تقسیم کا نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انفاق کا جس قدر حکم دیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام مال و دولت کو گِن گِن کر جمع کرنے اور خرچ نہ کرنے کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اسلامی معیشت کا اصول ہی پیسے کی گردش ہے۔ جس معاشرے میں بھی پیسے کی گردش ہوگی وہ کبھی بھی معاشی مسائل کا شکار نہیں ہوگا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اپنے رب کی صفات اپنانے کی ترغیب دیتا ہے کہ اللہ والے کام کرو۔ اللہ کے بندے اور خلیفہ بن کر اس کے رنگ میں رنگ جاؤ، اس کے نائب کی حیثیت سے اس کی مخلوق کے لیے خیر کا کام کرو۔ اس کی مخلوق کے لیے آسانی پیدا کرو، ان کی پریشانیوں اور غموں کا مداوا کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، پیاسوں کو پانی پلاؤ، بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرو، ان کی معاش کو بہتر بنانے کی فکر کرو، ان کے لیے رزق کے دروازے کھولنے والے بنو، اور ہمیشہ اوپر والا ہاتھ بننے کی کوشش کرو۔ استادِ محترم ڈاکٹر مولانا ساجد جمیل صاحب نے احباب کے کئی ایسے واقعات بتائے ہیں کہ لوگوں نے تنگ دستی کے باوجود جب بھوکوں کو کھانا کھلانے کا عمل شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنے رزق کے دروازے ایسے کھولے کہ وہ خود حیران ہوگئے۔ استادِ محترم کے مطابق نہ ہوتے ہوئے بھی خرچ کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، داتا کی صفت اپنانا وغیرہ ایسے کام ہیں کہ ان کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو ان پر خود عمل کرے، اسی وقت برکت اور غیب سے رزق کا حقیقی مشاہدہ ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہی درحقیقت اصل نیابت اور خلافت ہے۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ پیار، ان کی خیر خواہی، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، نئی راہیں کھولنا، رزق کے دروازے بنانا ہی خلافت کا اصل کام ہے، اگر ہم سب اللہ تعالیٰ کی صفات اور خصوصاً صفتِ ربوبیت کو دیکھتے ہوئے اپنے دائرے میں اس پر عمل کرنا شروع کردیں تو بعید نہیں کہ جہاں یہ پورا معاشرہ اپنی پریشانیوں سے نکل آئے وہیں ہم خود بھی جو سب کچھ ہونے کے باوجود پریشانی اور مشکلات کی شکایت کرتے رہتے ہیں، ان سے آزاد ہوجائیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جب تک ہم اس کے بندوں کے لیے کام کرتے رہیں گے، ان سے خیرخواہی اور احسان کا معاملہ کرتے رہیں گے، وہ ہمارے لیے مزید آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ اگر ہم اللہ کے بندوں کے ہوجائیں تو اللہ ہمارا ہوجائے گا، یا پھر اگر ہم اللہ والے بننا چاہتے ہیں تو اللہ کے بندوں سے پیار کرنا ہوگا۔ اگر بھوکوں کو کھانا کھلائیں، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں تو صرف یہی عمل ہماری کامیابی اور کامرانی کے لیے کافی ہوگا۔ اور اگر ہم نے رب کی ان صفات سے منہ موڑا اور شیطان کی طرح اپنی ذات تک ہی محدود ہوگئے تو ہمارا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔ اسی لیے اِس دنیا کو جنت نظیر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی صفات پر عمل کیا جائے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
nn