عالم اسلام

214

سلطان غازی مراد خان سلیم خان ثانی 12 دسمبر 1574 عیسوی کو تخت نشین ہوا۔ یہ سلطنت کا بارہواں فرماں روا اور چوتھا خلیفہ تھا۔ اپنے باپ سلطان سلیم ثانی کی طرح یہ بھی ایک کمزور حکمران ثابت ہوا۔ اس کے ابتدائی دور میں بھی امور سلطنت چلانے میں اہم کردار معروف عثمانی صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا کا تھا، جو اکتوبر 1579ء میں اپنے قتل تک اس عہدے پر فائز رہے اور عثمانی سلاطین کی کمزوری کا اثر سلطنت پر نہ پڑنے دیا۔
ملکہ صفیہ سلطان سے اس کو خاص رغبت تھی۔ چہیتی ملکہ صفیہ کے علاوہ حرم میں شمس رخسار خاتون، سخی خوباں خاتون، نازپرور خاتون، مہربان خاتون موجود تھیں۔ والدہ نور بانو سلطان کے اثر و نفوذ کے سبب غازی مراد خان اپنی والدہ کے فیصلوں کا ہی پابند رہا۔ ان کے ساتھ ساتھ امورِ سلطنت میں حرم کا عمل دخل اور سازشوں کا معاملہ بھی عروج پر پہنچ گیا۔ ماں اور ملکہ صفیہ سلطانہ کے فیصلوں سے ہی معاملات چلانے کی کوشش کی جانے لگی۔ صدراعظم محمد صوقوللی پاشا نے اس پر خاصی مزاحمت دکھائی اور شراب کی کھلے عام تیاری جو سلطان سلیم ثانی نے اٹھادی تھی، اس پر دوبارہ پابندی لگائی۔ اگرچہ اس فیصلے کے خلاف مملکت میں ہنگامے بھی ہوئے، مگر صدراعظم محمد صوقوللی پاشا کی سخت اور معاملہ فہم پالیسی نے ان پر قابو پالیا۔
اسی دوران غیر مسلموں کی جانب سے بھی مزید مراعات کا مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ملک میں خونیں ہنگامے پھوٹ پڑے، مگر صوقوللی پاشا کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔
آسٹریا اور ہنگری میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ ایران کے صفوی حکمرانوں کی جانب سے بھی شرارتیں ہونے لگیں، سرحدی جھڑپوں میں ایرانی شاہوں نے عثمانی افواج کی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، جس پر گوشمالی کی گئی۔ داغستان کا علاقہ فتح کرکے عثمانی سلطنت میں شامل کیا گیا۔
شاہی فوج میں ایک بار پھر بغاوت نمودار ہوئی، جو بڑھتے بڑھتے خوں ریز ہنگاموں میں تبدیل ہوگئی۔ ان اندرونی مسائل کو بھی حکمت کے ساتھ کنٹرول کیا گیا۔ ان سب معاملات کو قابو کرنے کا سہرا صدرِ اعظم محمد صوقوللی پاشا کے سر جاتا ہے۔ اکتوبر 1579 عیسوی میں شاہی محل کی اندرونی سازشوں کے نتیجے میں سلطنت کے قابل ترین اور عثمانی سلطنت کی ریڑھ کی ہڈی صدراعظم محمد صوقوللی پاشا کو قتل کردیا گیا، اور یوں عثمانی معیشت اور اداروں کی تنزلی کے دور کا آغاز ہوگیا۔
مملکتِ عثمانیہ کے مفتوحہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کا قیام اور نظام تعلیم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ کارخانوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، مگر معیشت کے امور میں ناتجربہ کاری کے سبب توازن برقرار نہ رہ سکا۔
سلطان غازی مراد خان ثالث نے 21 برس حکمرانی کی اور 50 برس کی عمر میں 16 جنوری 1595 عیسوی کو قسطنطنیہ میں وفات پائی۔
اپنے باپ کی تدفین کے تین دن بعد 19 جنوری 1595 عیسوی کو اس کا بڑا بیٹا غازی محمد خان ثالث بن مراد خان ثالث تخت نشین ہوا۔ تین دنوں تک تو سلطنت میں سوگ کا سماں رہا، مگر جو رسم سلطان محمد فاتح نے برادران کے قتل کی شروع کی تھی، اس کا بھیانک مظاہرہ غازی مراد خان ثالث کی تخت نشینی کے وقت بھی دیکھنے میں آیا۔ اس قبیح رسم کا مقصد تو سلطان کے خلاف بغاوت کے اثرات کو ختم کرنا تھا، مگر جس طرح اپنے خاندان کی نسل کشی کے ظالمانہ مظاہر سامنے آئے، اس کا داغ ہمیشہ سلطنت کے چہرے پر نمایاں رہے گا۔
سلطان محمد خان ثالث نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے 27 بھائیوں کے قتل کے احکامات جاری کیے۔ ان میں سے کچھ برادران تقریبِ تخت نشینی میں شریک بھی تھے۔ یہی نہیں، اس کا ظالمانہ قدم اس سے بڑھ کر یہ بھی تھا کہ اسے اپنی 20 بہنوں پر بھی ترس نہیں آیا اور ان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا۔ اپنے تخت کی خاطر اس نے تمام بہنوں کو قتل کرادیا۔ تاریخ میں سلطان کا یہ قدم اسے سلطنت کے سب سے مکروہ سلطان کے روپ میں پیش کرنے کے لیے کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان سب فیصلوں کے پیچھے اس کی ماں تھی، جس نے اپنی سوکنوں کی اولادوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔
اس کے دور میں ہنگری میں آسٹریا اور عثمانیوں کے درمیان ایک طویل جنگ لڑی گئی، جو 1596ء سے 1605ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں عثمانیوں کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ عثمانیوں کی جو ہیبت اور دبدبہ تھا وہ پیش رو نااہل حکمرانوں کی عیاشیوں کے سبب زائل ہوچکا تھا۔ فوج کی بزدلی اور پیٹھ دکھانے کے باعث سلطان کو افواج کی قیادت خود سنبھالنی پڑی اور وہ سلیمان اوّل کے بعد میدانِ جنگ میں اترنے والا پہلا عثمانی حکمران بنا۔ وہ آستانہ سے بلغراد پہنچا اور فوج کی قیادت سنبھالی۔ اس کی افواج نے ارلو کا قلعہ فتح کیا، جو سلیمان قانونی کے دور میں بھی فتح نہیں کیا جا سکا تھا۔ 1596ء میں اگری فتح کیا اور جنگ کرسزتس میں ہیبس برگ اور ٹرانسلوانیا کی افواج کو شکست دی۔ اس طرح ہنگری اور آسٹریا کی مشترکہ فوج کو جو پاپائے روم کے ایما پر بھیجی گئی تھیں، عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔
اس کے عہدِ خلافت میں فوج سے فرار ہونے والے ایک کمانڈر نے ایک بہت بڑا مذہبی فتنہ بھی کھڑا کیا تھا۔ اس باغی کمانڈر کا نام قرہ بازیجی تھا۔ اس نے سرکاری فوج سے بہت سے جوان الگ کرلیے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خواب میں آئے تھے اور انھوں نے اس کو عثمانیوں پر فتح کی خوش خبری سنائی ہے۔ قرہ بازیجی کے اس اعلان کے بعد بہت سے سپاہی اور وہاں کے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس فتنہ پرور کے ساتھ مل گیا۔ قرہ بازیجی اور اس کے بھائی ولی حسن نے اپنی باقاعدہ فوج بنالی اور عثمانی سلطنت کی حدود میں بے حد تباہی پھیلائی۔
بالآخر عثمانی فوجوں نے اس کا پیچھا کیا، ایک مقابلے میں قرہ بازیجی مارا گیا، جب کہ اس کے بھائی ولی حسن کو ہنگری اور آسٹریا کے محاذ پر بھیج دیا گیا، جہاں ولی حسن اور اس کے بہت سے سپاہی مارے گئے اور باقی منتشر ہوکر روپوش ہوگئے۔ ان شورش زدہ کرداروں کا تاریخ کی کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
اگلے سال معالجین نے سلطان کو کثرتِ شراب نوشی اور بسیار خوری سے پیدا ہونے والے امراض کے باعث میدانِ جنگ میں اترنے سے منع کردیا۔ ان جنگوں میں فتوحات کے باعث محمد ثالث کے دور میں زوال پذیر سلطنتِ عثمانیہ کو کوئی اور دھچکا نہیں پہنچا۔
1603 عیسوی میں سلطان محمد خان ثالث کا انتقال ہوا۔ اس کی مدت خلافت 9 برس رہی۔ وہ 29 سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا اور 38 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔ یہ مملکت عثمانی کا پانچواں خلیفہ تھا۔
اس کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا غازی احمد خان اول تخت نشین ہوا۔ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر محض 15 برس تھی۔ غازی احمد خان اوّل کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس نے اپنے پیش روؤں کی طرح برادران کے قتل کی رسم کو آگے نہیں بڑھایا، بلکہ اس نے قتلِ برادران کے روایتی قانون کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے بھائی مصطفی کو اپنی دادی صفیہ سلطان کے ہمراہ رہنے کی اجازت دی۔ یہ خلیفہ اپنی شہسواری، نیزہ بازی اور مختلف زبانوں پر عبور رکھنے کے باعث معروف تھا۔
اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں احمد اوّل نے عثمانی سلطنت کی گرتی ہوئی ساکھ کو قوت کے بل بوتے پر بحال کرنے کی کوشش کی، مگر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ صلیبی قوتیں ایک بار پھر متحد ہوکر مقابلے پر آچکی تھیں۔ دوسری جانب ایران مستقل طور پر ایک دو محاذ چھیڑتا رہا۔ ایسے نازک وقت میں ایک مدبر وزیر مراد پاشا بہ قولوچی صدراعظم بنا، جس کی عمر 80 برس تھی، مگر حوصلہ جوانوں جیسا تھا۔ اس کے دورِ حکومت میں ہنگری اور ایران میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کے نتائج سلطنت کے حق میں نہیں نکلے اور 1606ء میں معاہدہ ستواتورک کے نتیجے میں سلطنت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں آسٹریا کی جانب سے دیا جانے والا خراج ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔ ایرانی شاہوں کو کامیابیاں ملنے لگیں۔ سلطنت کی حدود بھی آہستہ آہستہ سمٹنے لگیں۔1611ء میں مراد پاشا بہ قولوچی کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد ایران پوری قوت کے ساتھ عثمانی سلطنت پر حملہ آور ہوا۔1613 عیسوی میں عثمانیوں کو شاہ ایران سے شکست کے بعد شرمناک معاہدہ کرنا پڑا، جس کی رو سے عراق عرب آذربائیجان اور جو علاقے عثمانیوں نے حاصل کیے تھے، سب واپس کردیے گئے۔ اس منحوس معاہدے کے لیے عثمانیوں پر روس، برطانیہ، پرتگال اور فرانس کا مشترکہ دباؤ شامل تھا، چناں چہ کرغیزستان اور آذربائیجان، عراق ایران کے حوالے کردیے گئے۔
22 نومبر 1617عیسوی کو سلطان غازی احمد خان اوّل کا انتقال ہوا۔
غازی سلطان احمد ایک شاعر بھی تھا، اس کا تخلص بختیؔ تھا۔ وہ اپنے مذہبی خیالات کی وجہ سے مقبول تھا۔ خدمتِ دین کے لیے خزانے کا بھرپور استعمال کرتا تھا۔ اس نے اسلامی قوانین کی بحالی کے لیے اقدامات بھی کیے اور شراب کی پابندی کا حکم صادرکیا۔ اس نے نماز جمعہ کے موقع پر تمام افراد کی موجودگی کو بھی لازمی قرار دیا۔ اس کا معمول تھا کہ وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد غریبوں میں خیرات تقسیم کیا کرتا تھا۔
آج احمد اوّل کو استنبول میں واقع سلطان احمد مسجد بنانے کے باعث یاد کیا جاتا ہے، جو نیلی مسجد بھی کہلاتی ہے۔ اس مسجد کے گرد واقع علاقہ سلطان احمد کے نام سے موسوم ہے اور اسی معروف مسجد کے دامن میں سلطان کی آخری آرام گاہ واقع ہے۔
(جاری ہے )